ہوم << کتابوں میں پھول اور امن کی خواہش - رحمان گل

کتابوں میں پھول اور امن کی خواہش - رحمان گل

رحمان گل امن کی خواہش رکھنا اور امن کے خواب دیکھنا یقیناً اچھی بات ہے اور جنگ جو کہ بذات خود ایک مسئلہ ہے, کی باتیں کرنا اور جنگ مسلط کرنایا جنگ کو کسی مسئلے کا حل سمجھنا ہرگز درست عمل نہیں لیکن کیا صرف امن کی خواہش رکھنے یا کتابوں میں پھول رکھنے سے امن قائم ہو سکتا ہے؟ ذرا ماضی کے اوراق پلٹ کے دیکھتے ہیں شاید کچھ سیکھنے کو مل جائے. یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں جب یہودیوں کے لیے اس زمین کو دوزخ بنا دیا گیا تھا اور لاکھوں لوگوں کو اذیت ناک موت سے دو چار کیا گیا. کیا ان لاکھوں لوگوں میں سے کسی نے بھی امن کی خواہش نہیں کی ہوگی؟ کسی کے دل میں کتابوں میں پھول رکھنے کا خیال نہ آیا ہوگا؟ پھر ایک وقت تھا جب اسرائیلیوں کے معاشی حالات سخت تھے، ایسے میں اسرائیلی وزیر اعظم گولڈ میئر اپنی تاریخ کی سب سے بڑی اسلحے کی خریداری کا معاہدہ کرتی ہیں تب کہیں جا کر ان کو امن نصیب ہوا.
ناچیز کے ذہن میں ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا کشمیر، فلسطین، شام، عراق، افغانستان اور یمن کے لوگ امن کے خواہشمند نہیں؟ کیا ان کے دل میں نہیں آتا کہ وہ کتابوں میں یاسمین یا گلاب کے پھول رکھیں اور امن پالیں، مگر کیا وجہ ہے ان کو امن میسر نہیں اور ظلم ان پر مسلط ہے. تاریخ گواہ ہے کہ گیارہ مئی انیس سو اٹھانوے کو جب ہمسایہ ملک نے ایٹمی دھماکے کیے تھے تو اس وقت امن کی خواہش صرف کتابوں میں موتیے یا چنبیلی کے پھول رکھنے سے نہیں پوری ہوئی تھی بلکہ جواب میں ایٹمی دھماکے کرنا پڑے تھے، تب جا کہ امن کی خواہش پوری ہوئی تھی. ویسے اگر کوئی شاگرد چاہے تو ان دونوں ایٹمی دھماکوں کے درمیانی پندرہ دنوں میں ہمسائیوں کا رویہ دیکھ سکتا ہے اس میں بھی بہت کچھ ہے سیکھنے والوں کے لیے . امید ہے کہ شاگرد نے یہ بات سمجھ لی ہوگی کہ امن کتابوں میں پھول رکھنے سے نہیں بلکہ طاقت کے توازن سے آتا ہے.
اب ذرا بات کر لیتے ہیں استاد کی ایک بات تو طے ہے کہ غلطی سے پاک کوئی انسان نہیں چاہے وہ استاد ہو یا شاگرد. وقت بدلتا ہے, حالات بدلتے ہیں، حکمت عملی بدلتی ہے، ایک فیصلہ جو آج کے حالات میں درست ہو ضروری نہیں کہ وہ کل بھی درست ہو اور ریاستیں مفاد پر چلتی ہیں یہ بات تو سب جانتے ہیں. استاد نے جو بھی قدم اٹھائے ہیں ماضی میں یا اب وہ یقیناً حالات، دستیاب وسائل اور مواقع کو مد نظر رکھ کر اٹھائے ہوں گے. تمام دنیا میں اصول, قوانین اور ریاستی بیانیے و پالیسیاں مفادات کے گرد گھومتی ہیں اور یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں.
شاگرد چونکہ بہت ذہین ہے اور مشکل سے مشکل گتھیاں چٹکی بجاتے ہی سلجھا لیتا ہے تو ایسے شاگرد کو یہ راز بھی جان لینا چاہیے کہ جس مکتب کہ تمام مضامین ایک ہی استاد کے ذمے ہوں تو وہاں پر کچھ نا کچھ کسر رہ ہی جاتی ہے. شاگرد چونکہ بہت نابغہ روزگار ہے اس لیے سمجھ سکتا ہے ایسا استاد جس کے ذمے بہت سے اضافی کام ہوں اس کے لیے کچھ نہ کچھ رعایت تو بنتی ہے.

Comments

Click here to post a comment