انسان کی اپنی زندگی کے ساتھ بہت ساری ایسی یادیں وابستہ ہوتی ہیں، اجل کے علاوہ کوئی چیز بھی ذہن کے ورق سے انہیں مٹا نہیں پاتی، انہی یادوں کے دریچہ سے میری زندگی کی بہت ساری یادیں میرے ”جامعہ“ کے ساتھ وابستہ ہیں، ہر گھڑی، ہر لمحہ، ہر فرصت، دن رات، سردی گرمی، خوشی غمی جامعہ کی یاد ذہن میں ابھر آتی، اس کے آنے جانے کے وقت کی کوئی پابندی نہیں، ابھی صبح نسیم کے گیارہ بج پائے ہیں، جامعہ کی یاد زوروں پر ہے، عکس خیال میں ایک طوفان امڈ آیا ہے، ذہن میں گدگدی سی ہونے لگی ہے، کوئی کام ہو نہیں پا رہا، سوچا یادوں کے اس طوفان کو الفاظ سے آراستہ کرکے سپرد قرطاس کروں، شاید دل ناتواں سے یہ پہاڑ نما بوجھ ہلکا ہوسکے،
اسی فکر کو لے کر کاغذ و قلم لیا، ذہن کو وقت کے کشاکش، دل کو فکر ایں وآن سے بکلی آسودہ کرکے ایک طرف زاویہ نشین ہوا ہوں،
جب جامعہ کے ”جیم“ سے قلم کو لبریز کیا ہے، دل کے اندر جامعہ کی محبت وخلوص اور جذبات واحساسات کا ایک سمندر ناکنار امڈ آیا ہے، رشتہ اخلاص و مودت سے دل جھوم اٹھا ہے، ان کیفیات کو کن الفاظ کا پیراہن پہناؤں؟ کیا تعبیرات تخلیق کروں؟ ایسے الفاظ وتعبیرات سے ذہن گنگ اور ڈکشنریوں پر سکوت طاری ہے.
شاید ایسے لمحات کے لیے نہ الفاظ کی تخلیق ہوئی، نہ ہی لغات میں ایسی تعبیرات وجود پائیں، جن سے میں ان جذبات کو وجود دے سکوں، محبت کو آشکارا کرسکوں.
میرے جامعہ کی تاریخ ہی انوکھی اور نرالی ہے،جس کی اساس رکھنے کے لیے بارگاہ ایزدی اور در رسول مہینوں استخارے، دعائیں، التجائیں اور آہ وزاریاں کی گئیں، اس کے بعد اس مرکز عمل و ادب کا محل وقوع طے پایا ،جس کی بنیاد اخلاص، تقوی، ایثار و قربانی پر رکھی گئی، جس کے ہر ذرہ سے توکل کی صدائیں پھوٹتی ہیں،
اس کی ہر اینٹ سے دین کی محبت، جذبہ جہاد، ذوق شہادت، عزم و استقلال کی خوشبوئیں آتی ہیں.
آخر علم کا یہ محور ایسی باکمال صفات سے مزین کیوں نہ ہو؟
اس کی شہرت کے ڈنکے دنیا میں کیوں نہ بجیں؟
تشنگان علوم نبوت کے مسافروں کی سواریاں اس کی طرف رخ سفر کیوں نہ کریں؟
جس کی قابلیت و قبولیت کا اقرار اپنے بیگانےکیوں نہ کریں؟
جسے دنیا کی ممتاز اسلامی یونیورسٹی کا مقام کیوں حاصل نہ ہو؟
جس کی بنیاد ایسے مرد قلندر نے رکھی ہو جسے نبی کے گھرانے سے نسبت ہو،
جو علم وعمل میں اسلاف کی ہو بہو تصویر، ادب و شعر کی محفلوں کا بزم طراز، دینی و سیاسی بصیرت سے مالا مال، فتنوں کی سرکوبی کے لیے سیف خالد، جن کے نقش پا سے تاریخوں کو راہیں ملتی ہوں،
ایسی عظیم ہستی کو دنیا ”محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رح“ سے یاد کرتی ہے، اپنے اس مرکز علمی کا نام ”جامعہ عربیہ اسلامیہ“ رکھا لیکن قانونی وجوہات کی وجہ سے بعد میں نام تبدیل کرکے جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری رکھا، جسے عام و خاص بنوری ٹاؤن سے موسوم کرتے ہیں.
جامعہ کے بانی کے اخلاص کا ثمرہ تھا، اس گہوارہ علم سے اٹھنے والا ایک ادنی سا خاک نشین دنیا کی کایا پلٹ کے رکھ دیتا ہے، جس کے تربیت یافتہ اشخاص کے ایک قول سے دنیا میں تحریکیں جنم لیتی ہیں، جنہوں نے علمی قابلیت سے دنیا دنیا کو باور کرایا کہ علمیت ابوہریرہ رضہ کے بیج آج بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں، صدیق کی صداقت، عمر کی عدالت، عثمان کی سخاوت، علی کی شجاعت، ابوذر کی زاویہ نشینی کی سنت اس جامعہ نے زندہ کی،
میں اسے صفہ ثانی کہنے میں حق بجانب ہوں.
روز اول سے علم کا یہ ستارہ (جامعہ ) دینی، قومی، ملی، سیاسی و ثقافتی اور خدمت خلق کے تمام شعبوں میں بہترین خدمات انجام دے رہا ہے، اس وقت جامعہ میں طلبہ و طالبات کی تعداد پانچ ہزار کے قریب ہے جو ملک کے طول و عرض سے جامعہ میں اپنی پیاس بجھانے آئے ہیں،
میری خوش قسمتی مجھے اپنی زندگی کی چار بہاریں اس جامعہ میں گزارنے کی توفیق نصیب ہوئی،
جامعہ کی عظیم نابغہ روزگار شخصیتوں کے علمی بحار سے ایک چلو پانی پینے کا شرف حاصل رہا، جس کو میں اپنی زندگی کے سنہرا اور انمول خزانہ سمجھتا ہوں،
خوشگوار گھڑیاں تو وہ تھیں جب صبح و شام ان فرشتہ نما اساتذہ کی زیارت نصیب ہوتی تھیں، جس سے دنیا کے سارے غم و پریشانیاں فرو ہو جاتی تھیں، نور سے بھرپور چہرہ پر نگاہ پڑتے ہی ایمان کو تازگی، دل کو راحت و سکوں میسر ہوتا تھا.
جامعہ سے بچھڑتے دو سال کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن امتداد زمانہ اس رشتہ اخلاص و محبت کو زنگ آلود نہ کر سکا، وقت کی دوری جامعہ کی دلی محبت کو تازگی اور شگفتگی سے محروم نہ کر سکی.
تبصرہ لکھیے