امریکی سسٹم کو پوری گہرائی کے ساتھ جاننے والے یہ بات بخوبی سمجھتے ہیں کہ اس کے پورے نظام کو پس منظر میں بیٹھی وال سٹریٹ کی طاقتیں کنٹرول کرتی ہیں اور دو پارٹی سسٹم انھی کا بنایا ہوا مصنوعی سیاسی سسٹم ہے جس میں دونوں پارٹیوں میں کوئی نظریاتی فرق نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے محلے کے بچے دو ٹیمیں بنا کر روز شام کو کرکٹ کھیلتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ امریکی کانگریس کا ہر رکن، ہر ریاست کا ہر گورنر اور امریکہ کا ہر صدارتی امیدوار الیکشن وال سٹریٹ کے سیٹھوں سے ملنے والے چندے کی مدد سے ہی لڑتا ہے اور سیٹھ اسی کو چندہ دیتے ہیں جو نامزد بھی انھی کا ہو۔ اس جعلی نظام نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ ایک عورت کو بھی امریکی صدر بنانے کا تجربہ کر لیا جائے۔ اب معاشرے کی حالت یہ ہے کہ وہ عورت کو مرد جتنی تنخواہ بھی دینے کو تیار نہیں تو خوف یہ لاحق ہوا کہ ووٹر خاتون امیدوار کو مسترد ہی نہ کردے۔ چنانچہ تماشا دیکھیے کہ ریپبلکنز کی جانب سے ایک مضحکہ خیز امیدوار لایا گیا، پھر اس امیدوار سے وہ بیان دلوائے گئے جو انتہا پسندی کے خلاف امریکہ کے قومی مؤقف سے ہی متصادم تھے اور اب آخری مرحلے میں اس کے سکینڈلز سامنے لا کر خود ریپبلکنز نے ہی اس سے ہاتھ کھینچنے شروع کر دیے تاکہ اس امیدوار کے جیتنے کے امکانات ہی باقی نہ رہیں اور ہیلری کی فتح یقینی ہو سکے۔ خود ہیلری کا اپنا حال یہ ہے کہ جب وہ سینیٹر تھیں تو ان کے آفس میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں میں جنسی بنیاد پر 28 فیصد کا فرق تھا یعنی وہ خود بھی جنسی مساوات پر حقیقی معنیٰ میں یقین نہیں رکھتیں۔ یہ ہے وہ جعلی لبرل ڈیموکریسی جس کا چورن ہمارے لبرل زعفران قرار دے کر ہمیں بیچنے کی کوشش کرتے ہیں اور جو امریکہ میں ہونے والے اس فکسڈ میچ کو بھی ایک حقیقی مقابلے کے طور پر پیش کر رہے ہیں !
لبرل ڈیموکریسی کا چورن - رعایت اللہ فاروقی

تبصرہ لکھیے