ہوم << لبرل ڈیموکریسی کا چورن - رعایت اللہ فاروقی

لبرل ڈیموکریسی کا چورن - رعایت اللہ فاروقی

رعایت فاروقی امریکہ وہ ملک ہے جہاں آج بھی عورت اس نام نہاد جنسی مساوات کی تلاش میں ہے جس کا امریکہ سب سے زیادہ پروپیگنڈہ کرتا ہے۔ حالت یہ ہے کہ اگر ٹاپ لیول پر دیکھا جائے تو امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں میں خواتین کی نمائندگی کچھ یوں ہے کہ 435 سیٹس والے ہاؤس آف ریپریزینٹیٹیو اور اور 100 سیٹس والے سینیٹ میں خواتین کی نمائندگی 20، 20 فیصد ہے۔ دونوں ہی ایوانوں میں 20 فیصد جیسی فکسڈ تعداد صاف بتا رہی ہے کہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اس تعداد کو متعین کیا گیا ہے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ڈائریکٹ الیکشن میں دونوں ایوانوں کی یکساں ایوریج نکلے۔ اس کا مطلب ہے کہ ٹکٹ سے لے کر انتخاب تک ایک پورا سسٹم اس کے پیچھے روبعمل ہوتا ہے۔ اسی امریکہ میں آج بھی عورت تنخواہ کے معاملے میں جنسی تفریق کے خاتمے کی جنگ لڑ رہی ہے۔ نیویارک میں 2015ء کے دوران جہاں مرد نے اوسط سالانہ 52124 ڈالرز تنخواہ لی وہیں عورت نے 46208 ڈالرز تنخواہ وصول کی۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ مرد کے ہر ڈالر کے مقابلے میں عورت 89 سینٹ تنخواہ لے رہی تھی اور یہ عورت اور مرد کی تنخواہ میں کسی ریاست کا کم سے کم فرق تھا۔ زیادہ سے زیادہ فرق ریاست ویامنگ کا تھا جہاں مرد نے سالانہ 55965 ڈالرز تنخواہ وصول کی جبکہ عورت کے حصے میں 36064 ڈالرز تنخواہ آئی جس کا مطلب یہ ہوا کہ مرد کے ہر ڈالر کے مقابلے میں عورت نے 64 سینٹ تنخواہ حاصل کی۔ راستے پر چلتے ہوئے عورت کو آگے رکھنا، جب وہ گاڑی میں بیٹھے یا اترے تو اس کے لیے دروازہ کھولنا اور ہر نمائشی موقع پر یہ کہنا کہ ”لیڈیز فرسٹ“ وہ کل لولی پاپ ہے جو امریکہ یا لبرل ڈیموکریسی اس ماڈرن ورلڈ میں عورت کو دے رہے ہیں۔ جہاں بات اعلیٰ ایوانوں میں نمائندگی یا تنخواہوں میں مساوات کی آئے گی تو عورت جان لے کہ مساوات ہنوز امریکہ میں بھی دوراست۔
امریکی سسٹم کو پوری گہرائی کے ساتھ جاننے والے یہ بات بخوبی سمجھتے ہیں کہ اس کے پورے نظام کو پس منظر میں بیٹھی وال سٹریٹ کی طاقتیں کنٹرول کرتی ہیں اور دو پارٹی سسٹم انھی کا بنایا ہوا مصنوعی سیاسی سسٹم ہے جس میں دونوں پارٹیوں میں کوئی نظریاتی فرق نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے محلے کے بچے دو ٹیمیں بنا کر روز شام کو کرکٹ کھیلتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ امریکی کانگریس کا ہر رکن، ہر ریاست کا ہر گورنر اور امریکہ کا ہر صدارتی امیدوار الیکشن وال سٹریٹ کے سیٹھوں سے ملنے والے چندے کی مدد سے ہی لڑتا ہے اور سیٹھ اسی کو چندہ دیتے ہیں جو نامزد بھی انھی کا ہو۔ اس جعلی نظام نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ ایک عورت کو بھی امریکی صدر بنانے کا تجربہ کر لیا جائے۔ اب معاشرے کی حالت یہ ہے کہ وہ عورت کو مرد جتنی تنخواہ بھی دینے کو تیار نہیں تو خوف یہ لاحق ہوا کہ ووٹر خاتون امیدوار کو مسترد ہی نہ کردے۔ چنانچہ تماشا دیکھیے کہ ریپبلکنز کی جانب سے ایک مضحکہ خیز امیدوار لایا گیا، پھر اس امیدوار سے وہ بیان دلوائے گئے جو انتہا پسندی کے خلاف امریکہ کے قومی مؤقف سے ہی متصادم تھے اور اب آخری مرحلے میں اس کے سکینڈلز سامنے لا کر خود ریپبلکنز نے ہی اس سے ہاتھ کھینچنے شروع کر دیے تاکہ اس امیدوار کے جیتنے کے امکانات ہی باقی نہ رہیں اور ہیلری کی فتح یقینی ہو سکے۔ خود ہیلری کا اپنا حال یہ ہے کہ جب وہ سینیٹر تھیں تو ان کے آفس میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں میں جنسی بنیاد پر 28 فیصد کا فرق تھا یعنی وہ خود بھی جنسی مساوات پر حقیقی معنیٰ میں یقین نہیں رکھتیں۔ یہ ہے وہ جعلی لبرل ڈیموکریسی جس کا چورن ہمارے لبرل زعفران قرار دے کر ہمیں بیچنے کی کوشش کرتے ہیں اور جو امریکہ میں ہونے والے اس فکسڈ میچ کو بھی ایک حقیقی مقابلے کے طور پر پیش کر رہے ہیں !

Comments

Click here to post a comment