ہوم << 121 سی، کا گڈریا - اختر عباس

121 سی، کا گڈریا - اختر عباس

اختر عباسیہ ایک ایسے انسان کا تذکرہ ہے جو بہت سوں کے لیے صرف داستان گو ہے، کچھ کو وہ صداکار اچھا لگے کچھ کو افسانہ نگار، مگر وہ ان سب تعارفوں اور تعریفوں سے یکسر مختلف ہو۔ ایک ایسا مٹھاس بھرا وجود کہ اپنی پہلی نگاہ اور پہلی ادا سے ہی آپ کے وجود میں اتر آئے کہ ریشے ریشے سے آسودگی دعا بن کر نکلے۔ دل یہ کہتا ہے (اور دل تو بہت کچھ کہتا ہے) کہ ایسے آدمی کو یاد کرنے کا سلیقہ اور طریقہ بالکل مختلف ہونا چاہیے جو دانش کی روئی جیسا ہو، جب ضروت ہو اوڑھ لیا، دل تنگ ہوا تو پڑھ لیا، دل سنگ ہوا تو سن لیا، ہر طرف ٹھنڈ ہو تو اس سے حرارت اور گرمی پا لی، دل و دماغ تھک گئے ہوں تو اس سے ٹیک لگالی۔ اتنے سالوں کا تعلق اور وہ بھی اس قدر بھرپور، سوچتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ کوئی اتنا دیالو بھی ہو سکتا ہے۔ نہ کوئی مطالبہ، نہ ہدایت کا کوڑا، نہ انجانی اور ان مانی تعبیرکا خوف، جب ملو، جب پڑھو بس پھول سے کھلنے لگیں۔ خیال انگلی پکڑ کے آگے آگے چلنے لگے اور تسلی دیتی، حوصلہ بڑھاتی باتیں مہکتی ہوائیں بن کردائیں بائیں سے سنبھالنے لگیں۔
121 سی داستان سرائے کا ڈرائنگ روم جناب اشفاق احمد کے دل کی طر ح بڑا اور خیال و نظر کی طر ح وسیع تھا۔ وہ وہاں نہ ہوتے تو بھی کمرے میں ایک خوشبو بھرا احساس پھیلا رہتا، جو روشنی جیسا ہوتا، دکھائی دیتا مگر پکڑائی نہ دیتا، ان کا حلقہ احباب بڑا تھا یا حلقہ قارئین، سامعین زیادہ تھے یا تسکین پانے والے، محبت بھری نگاہوں سے انہیں دیکھنے والے زیادہ تھے یا ان کی باتوں کو سننے اور سمیٹنے والے، کچھ کہنا مشکل ہے، کسی فائیوسٹار کے بوفے کی طرح، ہر ڈش میسر، ہر ذائقوں کی چاہ میں آنے والے بھی حاضر۔ پائیلو کو ہیلو نے ـــ’’الکیمسٹ‘‘میں عجیب بات لکھی ’’بھیڑوں کو صرف ایک ہی ضروت کا احساس رہتا ہے، پانی اور خوراک اور جب تک ان کے گڈریے کو اندلس کی بہترین چراہ گاہوں کا علم رہےگا، وہ اس کی دوست رہیں گی، باوجود اس کے کہ ان کا ہر دن دوسرے دن کے طرح ہوتا ہے اور یہ دن سورج کے طلوع ہونے سے غروب ہونے تک زیادہ ہی لمبا لگتا ہے۔‘‘
کیا121 سی کے اس گڈریے کی بھیڑوں کی ضروت بھی کچھ ایسی نہ تھی۔ علم کی کون کون سی چراہ گاہیں تھیں، جن کااسے علم نہ تھا، جن کی اسے خبر نہ تھی اور وہ ان بہترین چراہ گاہوں کے منظراور ذائقوں سے ساری عمر سب کی ضرورتیں، خواہشیں پوری کرتا رہا، خواب بوتا رہا، انہیں خوابوں کی سرزمین دکھاتا رہا۔ لاہور اہل علم و دانش کا شہر ہے مگر ایسا جذبہ جوان کے ہاں تھا، کسی بہت محبوب اور مطلوب شخص میں ہوتا ہے۔ وہ سب کو ان سے گھنٹوں پیوست کیے رکھتا۔ طالب علم ہوتے یا پیر و جواں، سارے دن کی دھوپ سہتے اور ہفتے کی کسی ایک شام ایک محفل کا ساتھ، ٹھنڈی ہوا کی طرح، ساری شدت اور حدت کو ہی اڑاکے لے جاتا، ان کی باتیں کانوں میں اور پھر د ل میں یوں اترتیں جیسے کوئی آنکھوں میں اتر آئے۔
اشفاق صاحب کبھی بھی ایک فرد نہ تھے، ان کے دل میں، زندگی میں، خیالوں میں جب جب تبدیلی آئی، تب بھی وہ ایک فرد سے کہیں زیادہ تھے۔ کسی تقریب میں، ریڈیو ، ٹی وی کے کسی پروگرام میں یا اہل علم کی محفل میں، جب وہ بولتے توسب کچھ بدل جاتا، موضوع اس کے چھپے اور ڈھکے پہلو، جو کسی کے سان وگمان میں بھی نہ ہوتے، ایک مربوط، مسلسل اور خوشگوارگفتگو میں یوں چلے آتے کہ یوں لگتا گویا میرے ہی دل کی بات ہے۔ اسی کی آواز ہے۔ ان کی کہی باتیں بہت سوں کی پریشانیوں کو چن لیتیں، کچھ کو پریشان کر جاتیں۔ بھلا یہ کیابات ہے۔ ایسا بھی کوئی کہتا ہے۔ ایسے کہاں ہوتا ہے۔ بس خان صاحب تصواراتی باتیں کر تے ہیں، بہلاتے ہیں، پھسلاتے ہیں!
کوئی اپنے سننے پڑھنے والوں کے لیے یوں بہار بھی ہو سکتا ہے
ڈگریوں، ناموں، جگہوں، عہدوں، کتابوں، موسموں اور مشہور لوگوں سے یہ ملک پہلے بھی بھرا ہوا تھا اور اب بھی کمی نہیں ہے مگر جو موسم ان کے ساتھ تھا وہ بھلا کب کسی پہ اترا ہوگا؟ کوئی اپنے سننے پڑھنے والوں کے لیے یوں بہار بھی ہو سکتا ہے۔ یوں صحرامیں گلستان بھی کھلا سکتا ہے۔ کوئی چاہے بھی تو شاید چاہ کر بھی ویسا نہ کر پائے گا۔ ایسا نہیں بن پائے گا۔ اشفاق صاحب کہ کسی کے لیے اشفاق احمد تھے، کسی کے لیے خان صاحب، بہت سوں کے باباجی اور ایک دنیا کے لیے تلقین شاہ، ایک لمحے ان کو نام، کام، شہرت اور مقام کی چادر کو ایک طرف کر کے دیکھا اور سوچا جائے تو جو بات خاص، ممتاز اور ممیزکرنے والی ہے وہ ان کی سوچ اور زندگی کی راہ ہے، جو اپنے رب کی راہ سے انہوں نے ملا دی اور اسی پہ ڈیرہ ڈال کے بیٹھ گئے۔ یہ راہ لفظوں اور کتابوں میں گم نہیں ہو جاتی، اپنائیت، ایثار، راہنمائی کے سنگ میل پہ جا ملتی ہے۔ سخت دوپہر میں گل مہر کا سایہ لے کر وہ ہمیشہ ان کے لیے موجود ان کے پاس پہنچتے، کڑاکے کی سردی میں وہ سورج لے کر موجود ہوتے۔ ایسے فرد کو کوئی کیسے بھلا سکتا ہے۔ وہ تو سانسوں کی آمد کی طر ح ساتھ ساتھ جیتے ہیں۔ ہر سانس کے ساتھ یاد آ تے ہیں۔ ان کے بارے میں لکھنے اور سوچنے بیٹھا تو خیال تھا کہ میں تو جھڑے ہوئے پتوں والی ٹہنی کی طر ح خالی ہوں، بس ان کا تصور ہی متاع جان ہے۔ کوئی منظر کیسے مجسم کر سکوں گا۔
محبت کے خواب کبھی بوڑھے نہیں ہوتے
سچ یہ ہے کہ محبت بھری یادوں اور باتوں پہ کبھی بڑھاپا نہیں آ تا۔ محبت کے خواب کبھی بوڑھے نہیں ہوتے، چاہے محبوب خود کتنا ہی بو ڑھا ہو جائے، نہ وہ دل سے دور ہوتا ہے نہ آنکھوں سے اشفاق صاحب چلے گئے نہ پیار کم ہوا نہ خواب۔ دیکھیں تو کتنی باتیں ہیں، خیال اندر خیال قطار اندر قطار باندھے چلی آتی ہیں۔ ان کی یاد دلاتی ہیں۔ یہ 12 اکتوبر 1999ء ہے۔ شام کے 5 بجے ہیں، اشفاق صاحب ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے۔
اس شام پرویزمشرف کی برطرفی ہوئی تھی
وہ سلام دعا سے پہلے ہی بولے ’’یار اختر! پتا کرو کیا ہو رہا ہے۔ سنا ہے پرویزمشرف کو برطرف کر دیا ہے۔ میں نے منظر وحید کی طرف دیکھا اور خود نمبر گھمانے میں مصروف ہوگیا۔ منظر نے نوائےوقت آفس سے کنفرم کیا اور بتایا کہ صرف ایک لائن کی خبر آئی ہے۔ ویسے دفتر والے کہتے ہیں کہ اگر تو پرویز مشرف کو انہوں نے پکڑ لیا ہے تو خبر سچی ہوگی ورنہ بازی الٹی ہوجائے گی۔ اتنی دیر میں روزنامہ جنگ کے تب ایڈیٹر انویسٹی گیشن رحمت علی رازی سے بات شروع ہوگئی، وہ قہقہہ لگا کر ہنس دیے۔ پتا ہے میاں صاحب نے جنرل ضیاء الدین کو نیا چیف آف آرمی سٹاف بنایا ہے۔ اوئے جس بندے کو اس کی بیوی چیف نہ مانے، فوج کہاں مانے گی۔ فوج کسی انجینئر، ڈاکٹر جر نیل کو اپنا سربراہ نہیں مان سکتی ۔تمہارے میاں صاحب کو اب تک فوج کے مزاج کی سمجھ نہیں آئی۔ آئی ایس آئی کی سربراہی تک تو ٹھیک تھا پر فوج کی سربراہی، ہو نہیں سکتا۔‘‘ اشفاق صاحب نے دونوں بڑے اخبارات کے بڑے صحافیوں کی رائے سنی اور کچھ دیر کے لیے اندر چلے گئے۔ ڈرائنگ روم میں اس وقت پھول سٹڈی وہیل کے افتتاحی پروگرام کے لیے ہم پندرہ بیس لوگ موجود تھے۔ ایسی خبر سن کر سبھی پر یشان اور سوالیہ نشان تھے۔ شرکاء میں چند دوسرے شہروں سے بلوائے ہوئے پھول کلب کے نمائندے بھی شامل تھے۔ تسلیم تعطیم کی امی نے رانا بابر حیات جو سٹڈی وہیل کے انچارج تھے، کو غصے سے گھورا۔ تمہیں پروگرام کے لیے آج کا ہی دن ملا تھا۔ اب پتہ نہیں اشفاق صاحب آتے بھی ہیں یا نہیں۔ نوازشریف ہی نہیں کلثوم نواز بھی ان کی بڑی قدر کرتی ہیں۔ وہ تو یہاں اس گھر میں آئی ہوئی بھی ہیں، پتہ نہیں بنتا کیا ہے؟ تھوڑی دیر بعد اشفاق صاحب واپس آ گئے۔’’یار وہ ٹی وی پر ایک ہی پٹی چلے جا رہی ہے۔ اب تو انہوں نے عجیب جنگی سے ریکارڈ چلانے شروع کر دیے ہیں۔
یار نواز شریف بندہ تاں چنگا سی:
تین گھنٹے نشست جاری رہی۔ اس دوران کسی نے سیاسی حالات پر بات نہیں کی۔ 8 بجے ملکی حالات یکسر بدل چکے تھے۔ قسمت میاں صاحب سے روٹھ کر دوسرے گھر جا رہی تھی۔ پروگرام ختم ہوا، ڈرائنگ روم سے نکلتے ہوئے وہ بولے’’یار بندہ تاں چنگا سی، بیبا جیا، چار دن رہ جاتا تو شاید خیر پڑ ہی جاتی۔ بےچارے کو تو ابھی تقریر بھی نہیں کرنی آ تی تھی اور اسی لیے مجھے امید ہو چلی تھی کہ اچھا ہے، مقرر نہیں ہے شاید اچھی تقریر پر کم اور اچھے کام پر زیادہ دھیان دے گا کیونکہ جو تقریریں اچھی کر تے ہیں، اکثر کام اچھے نہیں کرتے‘‘۔ تعظیم نے شرارت کی ’’باباجی! آج تو گہرے نیلے رنگ کا بغیر کالر کے کرتا شلوار پہنا ہے، خیر تو ہے ناں‘‘۔ بولے’’مجھے بھی یہی لگ رہا ہے کہ رنگ کافی گہرا ہے۔ یہ تمھاری آپا کا کام ہے۔ دیکھو تو کیسے کیسے رنگ میرے لیے ڈھونڈ لاتی ہے۔ اس بے چاری کا خیال ہے کہ گہرے رنگ مجھ پر جچتے ہیں.‘‘
ایک کے بعد دوسری پھر تیسری آواز آئی، ٹھیک ہی تو سوچتی ہیں۔ ہاں بھئی یہ پھول سٹڈی وہیل کا نام کیسے سوجھا؟ ان کاسوال سن کر رانا بابرگھبرا گیا۔ ’’باباجی!یہ بھیا جی نے ہی رکھا ہے۔‘‘ انہوں نے میری طرف ر خ کیا اور بولے، بھیا جی! نام بےخیالی میں اچھا ہی رکھا گیا ہے، یہ بڑا بامعنی ہے۔ تم نے بےدھیانی میں رکھ لیا ہو شاید، مگر بدھ مت میں اس کی بڑی فضیلت اور اہمیت ہے۔ وہیل کی مالا بناتے ہیں، وہیل کی تسبیح ہوتی ہے، وہیل کو وہ زندگی کے چکر سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ژونگ کہتا ہے کہ جو اعلی درجے کی بات ہوتی ہے، لاشعور سے آتی ہے، شعور سے نہیں۔ خوشی یہ کہ تم سے ایک اور اعلی ٰ درجے کا کام ہوگیا۔ پھول کلب 60/شہروں میں کہانی گھر شاید 100/ شہروں میں، پھر مووی کلب اور اب یہ سٹڈی وہیل ۔ تم اتناسوچتے ہو، کام کب کرتے ہو؟ ویسے شعور والے مسئلہ پر ایک شاعر خوب کہتا ہے۔
لب پہ آ تی ہے دل سے بات حفیظ
دل میں جانے کہاں سے آتی ہے
چھوٹوں کا دل رکھنے، ہمت بڑھانے اور ذراسے بات پر ڈھیروں تعریف کر نے کے لیے بڑا دل اور ظرف چاہیے۔ اس نعمت سے ہم نے ہمیشہ انہیں بھرا پایا۔ رب نے اس نعمت سے انہیں خوب نوازا تھا۔
بلھے شاہ بھی سائنس کا آدمی تھا، لیبارٹری میں پہنچنے کے بعد علم کو چھوڑنے کا کہتاہے
آمنہ اعظم نے پوچھا ’’باباجی کیا کتابیں ہی علم کا واحد ذریعہ ہیں؟‘‘
بولنے’’صرف کتابوں سے علم حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ کتاب کو کتاب کی طرح پڑھنے سے انفارمیشن ملتی ہے، علم نہیں۔ علم اور انفارمیشن میں بڑا فرق ہے۔ علم وہ ہے جو آ پ کی ذات کو بدل دے۔ Externally اور Internally تبدیلی کا عمل شروع کر دے۔ علم آپ کوانسان بناتا ہے، انفارمیشن آپ کو صرف کمپیوٹر بناتی ہے۔ جب ضروت ہو ٹک ٹک کرو اور مطلب کی ساری انفارمیشن انڈیل لو۔ علم تبدیلی کی اس راہ پر لے کر جاتا ہے جس کے آخر میں لیبارٹری ہے، لیبار ٹری! دو تین ہلکی ہلکی سرگو شیاں سی ابھریں، انہوں نے ناک کھجایا، پھر کان پر ہاتھ ٹکا دیا۔ لیبارٹری کون سی کہیں دور ہے۔ تمہارے اندر ہی ہے۔ کتابیں اس لیبارٹری تک جانے کا بہت اچھا ٹول ہیں، اس ٹول کو اچھی طرح پکڑنا چاہیے لیکن لیبارٹری میں جاکر چھوڑ دینا چاہیے۔‘‘
اکرم زبیر نے مووی بناتے ہوئے لقمہ دیا۔ بلھے شاہ کیوں کہتا ہے علموں بس کریں او یار۔ اشفاق صاحب نے سلسلہ کلام جاری رکھا۔ بلھے شاہ بھی سائنس کا آدمی تھا، لیبار ٹری میں پہنچنے کے بعد علم کو چھوڑنے کا کہتا ہے۔
بعض چہروں پر یہ سوال دیکھ کر بات کو یوں مکمل کیا’’بنیادی طور پر علم دو ہیں ایک مغرب کا ایک مشرق کا۔ وہ جدید سائنس کے عالم ہیں اور یہ روحانیت مشرق کی میراث ہے۔ دونوں علم لیبارٹری مانگتے ہیں۔ دونوں علموں کی کتابیں لیبارٹری تک لے جانے میں مدد کرتی ہیں، خالی انفارمیشن کی ٹک ٹک اپنے اندر کی لیبارٹری تک جانے کا راستہ نہیں پاتی۔ اسی دوران رفیق بھائی سموسے لے آیا، سا تھ ہی کیک بھی آگیا۔ قوم نے سموسوں کے بعد آ نے والے کیک کی طرف بھی توجہ نہ کی اور خالی پلیٹیں ہاتھ میں پکڑے اشفاق صاحب کو سنتے رہے، تب انہوں نے لمحے بھر کا وقفہ کیا اور مجھ سے بولے ’’یار دیکھو تو سہی کیسا مزے دار کیک تیری آپا نے بھیجا ہے، تھوڑا ٹکڑا مجھے بھی دے مگر اوپر سے اتار کر‘‘ میں نے کیک کاٹنا شروع کیا تو آ سیہ ناز اپنی مخصوص معصومیت سے بولی ’’باباجی! اتنے مہمان آتے ہیں آپا جی ناراض نہیں ہوتیں؟‘‘ ’’لے ! ہوتی ہیں ناراض بانو! ہوتی کیوں نہیں، تم ذرا نہ کھا کے دیکھو۔ نہ تیری جان کو نہ آگئی تو کہنا۔ مہمان کا سن کے تو اس کی بیماری ہی دوڑ جاتی ہے۔ اچھی خاصی لیٹی ہوگی دوائی لے کر۔ ادھرمہمان کا سنا، ادھر کچن میں بھاگی۔ اپنی زیر نگرانی جب تک سارا کام نہ کرا ڈالے، تب تک تسلی نہیں ہوتی اس کی۔ وہ کھلانے کے حکم کا دل سے پالن کرتی ہے۔‘‘
اشفاق صاحب سے زیادہ بانو آپا کو وہ اچھا لگا۔
یہی ایک موقع کیا، مجھے تو یاد نہیں پڑتا، پندرہ سولہ برسوں میں کبھی ایسا ہوا ہو کہ اشفاق صاحب سے ملنے گئے ہوں اور مہمان داری میں کوئی کسر رہ گئی ہو۔ اکتوبر2003ء میں یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی (UMT) میں کیرئیر ڈویلپمنٹ کی تمام کلاس نے ایک روز نعرہ لگایا’’سر! اشفاق صاحب سے تو ملوا دیں۔‘‘میں نے ٹالا۔ وہ شام چھ بجے ملتے ہیں، یہ تم لوگوں کی چھٹی کا ٹائم ہوتا ہے۔ ’’سر پلیز کچھ کر دیں! پتا نہیں پھر کبھی موقع ملے نہ ملے۔‘‘ اشفاق صاحب سے بات کی کہنے لگے ’’تو یونیورسٹی آ کر بھی باز نہیں آیا۔ ایسا کرو میں نہیں آتا۔ تم بچوں کو گھر لے آؤ۔ ‘‘ اور ہم تیس پینتیس لوگ برکت مارکیٹ والے کیمپس سے پیدل داستان سرائے پہنچ گئے۔ یہ صبح دس بجے تھے۔ بچے گلدستے اور کچھ تحائف اور بہت سے کیمرے لائے تھے۔ سب نے جی بھر کر تصویریں اتاریں۔ اکثر کو تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ اشفاق صاحب کو وہ دیکھ رہے ہیں۔ جب باتیں شروع ہوئیں تو محفل کی اپنائیت اور سحر نے ان کوح یرت کو دوچند کر دیا۔ انگریزی تعلیمی اداروں سے پڑھے، ان بچوں نے زندگی میں کبھی کسی دانشور کو یوں بولتے اور بند دلوں کے در کھولتے کب دیکھا تھا۔ ان سب نے بعد میں اشفاق صاحب پر (Case study) کی اور اس قدر خوبصورت تحریریں لکھیں کہ خود مجھے اندر تک خوشی اور اطمینان ہوا۔ میں نے ان میں سے آٹھ دس مجلد کیس سٹڈیز بانو آ پا کو بھجوادیے۔ میرے دل کے کسی گوشے میں تھا کہ اشفاق صاحب سے زیادہ بانو آپا کو یہ اچھا لگےگا اور ہوا بھی ایسے ہی۔بانو آپا ان کی محبت میں ڈوبی زیادہ تھیں یا محبت میں مِٹی زیادہ، میں آج تک فیصلہ نہیں کر پایا ۔
پر اللہ میاں کے پورے علم کا اندازہ:
کامران جسے دو سال بعد مائیکروسا فٹ کے ساؤتھ ایشیا کے ڈائریکٹر نے اس کی ذہانت اور اعلی مہارت کے باعث خود لاہور آ کر اپنی کمپنی جوائن کرنے کی دعوت دی تھی، نے ایک شام اشفاق صاحب سے بہت عجیب سوال کیا تھا، کہنے لگا،
’’سر! آپ کے اللہ میاں کے علم کا اندازہ کرنا کب تک ممکن ہو جائے گا؟‘‘
اشفاق صاحب کو اللہ جی نے عجیب سی علمی وسعت، قلبی اور انسانی اعلی ظرفی دی تھی۔ وہ ایسے نازک مقامات پر ذرا سا پھسلے بنا اپنے دھیان گمان کی انگلی پکڑے سلامتی کے ساتھ، مزے سے آگے نکل جاتے۔ کہنے لگے ’’ایک بار میں اور بانو قدسیہ کلفٹن کے ساحل پر سیر کرنے گئے۔ بانو جب بیٹھنے کے لیے چادر بچھانے لگی تو ایک چیونٹی کو دیکھا جو وہاں پر یشان پھر رہی تھی۔ پوچھنے پر کہ وہ یہاں کیا لینے آئی ہے، چیونٹی نے کہا میں لالو کھیت سے 12/ دن کاسفر کر کے بڑی مشکل سے یہاں پہنچی ہوں۔ میں نے لوگوں سے سمندر کی گہرائی اورگیرائی کا بہت شور سنا تھا۔ سوچا کیوں نہ خود مشاہدہ کرنے آؤں، اسی لیے اب پاؤں اٹھا اٹھا کر اس کی وسعت کو دیکھنے اور اندازہ لگانے میں مصروف ہوں۔ انہوں نے کامران کی طرف دیکھا اور بات جاری رکھتے ہوئے بولے، اصل میں ہم بھی اس چیونٹی کی طرح اللہ کے علم اور اس کی ذات کی گہرائی اور گیرائی کا مشاہدہ کرنے کی سوچ لے کر نکلتے ہیں اور پنجے اٹھا اٹھا کر جہاں تک دیکھ سکتے ہیں اس کو دیکھ کر اندازے لگاتے ہیں کہ وہاں تک اس کی ذات ہوسکتی ہے۔ قریب جا کر اول تو اللہ کو آ ج تک کسی نے جانا نہیں اور جس کسی نے پہچانا ہے لوجیکلی logically جانا ہے۔ اللہ اصل میں منہ کی چیز ہے۔ محبت سے کھانے کی چیز ہے۔ جیسے ہمارے بابے کہتے ہیں کہ مرشد اور مرید کے رشتے کی قربت ایسی محبت پیدا کرتی ہے کہ مرید اپنے گرو کو لقمہ لقمہ کر کے کھا جاتا ہے۔ دھیرے دھیرے، برُقی برُقی، اب کوئی برُقی کو تین دن تک منہ میں لیے گھماتا رہے اور پیٹ میں نہ اتارے تو اس کے جسم کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں موجود اللہ کے بارے میں محدود انفار میشن کی ٹرانسفارمیشن ایسا لقمہ ہے جومنہ میں رہتا ہے، پیٹ میں اترتا ہی نہیں۔ محبت اور یقین کی دولت بڑھتی نہیں، اس کی بڑھوتر ی رکی رہتی ہے، ایسے جیسے ہمارے مولویوں نے مذہب کی برُقی منہ میں رکھی ہے، اسے نگلا نہیں ہے۔ آخر کو اللہ کی ذات اتنی بڑی ہے اور اتنا چھوٹا سا انسانی پیٹ، بھلا اسے سارا کیسے نگلا جا سکتا ہے؟
لیڈی ڈیانا کیسی تھی؟
یونیورسٹی واپسی پر کئی لڑکے لڑکیوں نے کامران کو گھیر لیا اور سوال کا شکریہ ادا کیا جس پر اس قدر عمدہ اور نیا جواب ملا اور بےچارہ کتنے دن قسمیں کھاتا رہا کہ میرا مطلب یہ نہیں تھا۔ میں نے تو پوچھنا کچھ اور تھا بس زبان تھڑک گئی تھی۔ یہ بات تو میسنی سی عائشہ نے پو چھنی تھی۔ رانا بابر حیات جو پھول وہیل کا پہلا صدر تھا، بڑی معصومیت سے پوچھ بیٹھا، سر! سنا ہے آپ کے گھر لیڈی ڈیانا بھی آئی تھی؟
اشفاق صاحب نے اپنی گود میں رکھا ہاتھ اٹھا لیا اور بولے ہاں بھئی آئی تھی وہ، اور یہ ۔۔۔ یہ ۔۔۔وہاں بیٹھی تھی جہاں تمھارے سر بیٹھے ہیں۔ پھر وہ میری طرف متوجہ ہوئے۔ اختر تمہیں پتا ہے، وہ بالکل اسی جگہ ٹپوسی مار کر بیٹھی ہوئی تھی جہاں تم ساری جگہ مَل کر بیٹھے ہو۔ ’’کیسی تھی سر وہ!‘‘ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے عثمان نے شرماتے ہوئے پوچھا۔ اچھی تھی، یہ لمبی چوڑی خوبصورت۔ ہاں وہ گوروں کی طرح اس کی جلد پر بھی چھوٹے چھوٹے ڈاٹس dots تھے۔ ہمیں تو وہ اچھے نہیں لگتے۔ ان کے ہاں تو ہوتے ہیں، اب کیا کریں۔ قسمت میں نہیں تھی کہ وہ بےچاری پاکستان کی بہو بنتی۔ اسے کتنی ساری مفت میں عزت مل جانی تھی۔ حسنات کے گھر والوں میں سے ہی کوئی تیار نہیں ہوا‘‘ [ڈاکٹر حسنات جن کے ساتھ لیڈی ڈیانا لندن سے پاکستان آئی تھی، خان صاحب کا بھتیجا تھا] یہ راضی کیوں نہیں ہوتے؟
’’اتنی عزت ان کو ملی ہے۔ یہ راضی کیوں نہیں ہوتے ؟‘‘ یہ وہ جملہ تھا جو اشفاق صاحب نے روزنامہ نوائےوقت کے حمید نظامی ہال میں صوبہ بھر سے آ ئے ہوئے اساتذہ کا شور سن کر کہا تھا۔ ہم نے صوبے بھر میں پانچ ہزار بچوں کا پانچویں جماعت کے وظیفے کا امتحان لیاتھا، کامیاب بچوں کواساتذہ کے ہمراہ نقد وظائف دینے کے لیے بلایا تھا۔ باری پہ آ نے کے بجائے ہر ایک کی خواہش تھی کہ باری توڑ کر ان کو پہلے بلایا جائے۔ اشفاق صاحب کا خطاب ہو چکا تھا۔ دو چار انعام دلوا کے میں نے ان سے پوچھا ’’اشفاق صاحب! یہ سارے استاد ہیں، ان کو کوئی کیا سمجھائے۔ وہ آپ کا مشہور جملہ کہ اہل علم وہ جو کام کے وقت سب سے آگے اور انعام کے وقت سب سے پیچھے ہو، ان کو تو سمجھ بھی نہیں آئے گا.‘‘
اس پر انہوں نے باقاعدہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولے ’’یار توں بڑی ہمت والا ایں‘‘۔ استاد تو ایک بھی ہو تو کسی سے نہیں سنبھلتا، تو نے کئی سو اکٹھے کیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے عارف نظامی جو اس پروگرام کے خاص مہمان تھے، ہاتھ ملایا اور میرا ہاتھ پکڑ کر سٹیج سے اتر آئے۔
جاکر اپنی آ پا کو مت بتانا:
ناخوشی میں پروگرام چلتا چھوڑ کر اشفاق صاحب کو لفٹ میں لے کر نیچے آ گیا۔ ان دنوں میرے پاس گاڑی کا رنگ گہرا سبز تھا اور وہ ہماری سبز پری کہلاتی تھی، اس کا قدرتی ائیرکنڈیشن خوب کام کرتا تھا۔ نوشین اور آسیہ کو ساتھ لیا اور ہم اشفاق صاحب کو گھر چھوڑنے روانہ ہوئے۔گاڑی میں ڈھیر سی گرم ہوا تھی اور اشفاق صاحب نے ایک لمحے کو بھی ذکر نہیں کیا۔ ہاں پروگرام کا ذکر کرتے رہے۔ پروگرام ابھی لمبا چلنا تھا اور انہیں آئے ہوئے دو تین گھنٹے ہوگئے تھے۔ شادمان جا کر میں نے گاڑی رو کی اور سلش کا آرڈر دیا۔ لیمن کا مزہ اور یخ ٹھنڈا سلش slush انہوں نے مزے لے لے کر پیا، پھر آ ئس کریم لی۔ انہوں نے کھاتے کھاتے کہا ’اوئے کڑیو! جا کر اپنی آپا کو مت بتا دینا، یہ زیادہ بدپرہیزی ہوگئی ہے آج. پھر وہ مسکرائے، تھوڑی جئی ہور نہ کر لیے‘‘ اشارہ بہت واضح تھا۔ نوشین (میری اہلیہ) نے اگلے ہی لمحے اپنا کپ اشفاق صاحب کے حوالے کیا اور ہم گرم دھوپ میں ان کی ٹھنڈی میٹھی باتیں سنتے ماڈل ٹاؤن کی طرف روانہ ہو گئے۔ شاہ جمال سے گزرتے ہوئے انہوں نے شاہ جمال کے مزار کا ذکر کیا اور بولے وہ اکرم زبیر کا کہنا ہے کہ جمعرات کی جمعرات دھمال دیکھ کر اسے بہت تسکین ملتی ہے۔ تمہارا کیا خیال ہے؟ میرا تو جی یہ مشاہدہ نہیں ہے مگر کیا ہے کہ کسی روز آ پ کو لے آتے ہیں، براہ راست مشاہدہ ہوجائے گا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
شاہ جمال کے مزار پر:
ہاں! یہ ٹھیک ہے اپنی آپا سے بات کر لو، اسے بھی ساتھ لے آئیں گے۔ یہ ایک الگ طرح کی حقیقت ہے۔ اس حقیقت کو قریب سے دیکھنے اور جاننے کے لیے ایک جمعرات کو دو فلور کشن لیے، میں شاہ جمال کے مزار کے بڑے احاطے میں درخت کے ساتھ رکھ کر بیٹھ گیا۔ زبیر، اشفاق صاحب اور بانو آپا کو لینے چلاگیا۔ رات کے دس بجے کا عمل تھا، جب پپو اپنا ڈھول لے کر احاطے میں داخل ہوا، اس کے گہرے سانولے رنگ کو اس کی شہرت تھوڑا کم گہر اکرنے میں مدد دینے کے لیے ساتھ تھی۔ ابھی اس نے ایک دو چکر لگا کر اپنی آمد کا پورا اظہار و اعلان بھی نہیں کیا تھاکہ شور مچ گیا کہ پولیس آ گئی. شاہ جمال کا مزار اپنے اس احاطے سے بارہ چودہ فٹ اونچا ہے اور وہاں چھوٹا سا قبرستان ہے۔ بے شمار لڑکے وہاں قبرستان کے تعویذوں سے ٹیک لگائے چرس پی رہے ہوتے ہیں۔ اب وہ سارے خوف کے عالم میں بھاگ رہے تھے۔ تین چارنے ڈر کے مارے نیچے احاطے میں چھلانگیں لگا دیں۔ درد اور چوٹ کے احساس کی شدت سے نکلنے والی چیخیں پورے احاطے میں پھیل گئیں۔ وہ اندھا دھند باہر سڑک کی طرف بھاگ رہے تھے۔ ہمارے پاس سے اس تیزی سے یوں گزر رہے تھے کہ لگا جیسے روند ہی ڈالیں گے۔ میں اور پپو ڈھولچی بالکل دیوار کے ساتھ کھڑے تھے۔ اس کے ہاتھ میں اس کا ڈھول تھا اور میں بھاگ کر دونوں کشن اٹھالایا اور انہیں گود میں لیے ان خوفزدہ ہرنوں کو بھاگتے دیکھ رہا تھا۔ اچانک پپو آگے بڑھا اور اس نے جا کر ذرا بلند آواز میں گالیاں نکالنی شروع کر دیں۔
’’اوئے جھوٹے عاشقو! اوئے کچے دعویدارو! شرم کرو، پولیس کا نام سن کر بھاگ کھڑے ہوئے ہو۔ جو اندر تمہارے حق سچ ہوتا تو یوں بےشرموں کی طرح تو بھاگنا نہ پڑتا۔ تم لوگوں نے بابا شاہ جمال کو بھی بدنام کر دیا ہے اور ان سے محبت اور تعلق کو بھی۔‘‘
میں ان سارے لمحوں کو سوچتا ہوں تو عجیب سی سر خوشی کا احساس ہوتا ہے کہ ایسے میں جب سب بےسمت بھاگے جا رہے تھے، میں ایک مضبوط خیال سے بندھا کشن اٹھا رہا تھا کہ اشفاق صاحب اور بانو آپا آئے تو بھاگتے لوگوں کے قدموں سے روندے گئے اورگندے ہوئے کشنوں پر کیسے بیٹھیں گے۔ کچھ محبتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا کبھی کوئی نام اور اظہار نہیں ہوتا، مگر کسی موقع پر وہ اپنے کسی نہ کسی انداز میں ظاہر ضرور ہوتی ہے اور عجیب لطف دے جاتی ہیں۔ آدھ گھنٹے بعد اشفاق صاحب اور بانو آپا آ گئے۔ پپو اس وقت تک مست ہوچکا تھا۔ بےشمار لڑکے جن میں اکثریت این سی اے کے تھے، رقص میں مگن تھے، محو تھے، وہ پپو کو ڈھول سمیت رقص کرتے اور ڈھول بجاتے دیکھتے تھے اور بےخود ہو ہو جاتے تھے۔ احاطے میں دس سے بارہ لوگ وہ بھی تھے جو دنیا و مافیہا سے بےنیاز ہاتھ باندھے، آنکھیں موندھے اس کے تال پر رقص کر رہے تھے۔ یہ ترکی کے درویشوں والا رقصِ درویش تو نہیں تھا، نہ ویسے فرغل تھے نہ ویسے لباس اور ٹوپیاں جو شعیب منصور نے اپنے ویڈیو عشق میں دکھا کر مسحور کیا ہے مگر جو کچھ تھا سب فطری اور بےاختیار تھا۔ لڑکے اور لڑکیاں اشفاق صاحب کو دیکھ کر کھنچے چلے آئے۔ ان کے قدموں میں ان کے ساتھ لگ کر بیٹھ رہے تھے۔ سچ یہ ہے کہ قریباً آدھ پون گھنٹے کے لیے اشفاق صاحب ہم سے چھین گئے اور ہم نے انہیں ان نو جوانوں کے گھیرے میں رہنے دیا۔ پھر احساس ملکیت نے زور مارا تو انہیں یاد دلایا کہ رات بارہ بجنے والے ہیں، گھر چلاجائے، بانو آ پانے آرام بھی کرنا ہوگا۔ وہاں سے اٹھے تو کتنے ہی لمبے لمبے بالوں اور قلموں والے لڑکے ساتھ تھے۔ ایک نے پوچھا سر، ان رقص کر نے والوں کو کیا ملتا ہے۔ اشفاق صاحب نے عجیب والہانہ پن سے کہا، یہ اپنے محبوب کو بلانے کی ادا ہے، خالی پن کا اظہار ہے۔ اسے بلاتے ہیں، پھر انہوں نے بانوآپا کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ مرد اندر سے خالی ہو جائے تو بہت بےتاب ہوتا ہے۔ یہ رقص اسی بےتابی کا بین ہے۔ رب کو اپنے اندر بلانے کا عمل ہے۔ کچھ بد قسمت عمل کو ہی پسند کر بیٹھتے ہیں اور سالوں اسی کا مزہ لیتے رہتے ہیں اور کچھ مقصد پا جاتے ہیں۔ اشفاق صاحب کہنے لگے ’’یار یہ تمہارے لیفٹ والوں کو بھی کبھی کبھی ادھر بلا کر یہ دکھانا چاہیے ۔ یہ الگ ہے۔ تھرڈ ڈائی مینشن۔ اس کا مزہ ہی الگ ہے۔
یہ میرا پیٹ ہی نہیں ساکھ بھی خراب کریں گی :
پرل کانٹی نینٹل لاہور کے مارکو پولو ریسٹورانٹ میں ہم نے ان کے ساتھ ایک برس سے زیادہ زاویہ کی محفل سجائی، یہ ٹی وی والے زاویہ سے بالکل الگ تھا اور اس کی پوری روئیداد پھول میں شائع بھی ہوتی تھی۔ اس زاویے نے زندگی کے بہت سے نئے زاویے دکھائے۔ ایسے ہی ایک پروگرام میں خان صاحب کو چائے پیتے دیکھ کر تسلیم نے بانو آپا سے سوال کر ڈالا۔ بانو آ پا نے جواب میں جو جملے کہے تھے مجھے اب بھی لگتا ہے کہ کسی نے میرے دل کی زمین کوگہرا کھود کر اس میں لکھ دیے ہوں ’’بانوآ پا کبھی اشفاق بابا سے مقابلے کا خیال آتا ہے۔‘‘ ان کا جوب تھا ’’بیٹے ماؤنٹ ایورسٹ سے کیا مقابلہ۔‘‘ ایسا ہی ایک سوال کسی نے ان سے نعیم بخاری کے ایک پر گرام میں بھی کیا تھا تب انہوں بڑی محبت سے کہا تھا کہ کسی مٹے ہوئے شخص کو کوئی کیسے مٹانے کا سوچے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ وصف خود بانو آپا کو وافر عطا ہوا اور بنانے والے رب نے ان کو عزت، احترام اور دنیا میں وقعت و مقام دینے میں ذرا کمی نہیں کی۔
ٹی وی پر زاویہ شروع ہوا تو کئی لوگوں نے وہاں جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ہم وہاں ہوا کرتے تھے اس لیے سوچا کہ وہ تو سادہ زاویہ ہے۔ کیوں نا زیادہ کلرفل زاویہ کیا جائے۔ یوں ’’پھول زاویہ‘‘ ایک زاویے میں کئی ’’زاویے‘‘ کے نام سے پرل کانٹی نینٹل میں کرنا شروع کیا۔ پہلے اشفاق صاحب سے گفتگو سنی جاتی پھر مارکو پولو میں ہائی ٹی کے مزے لیے جاتے۔ شروع میں طے کیا کہ شرکاء بیس پچیس تک رکھے جائیں گے وہاں ایڈوانس بکنگ کروانی پڑتی تھی مگر ہوتا یہ کہ یہ تعداد اکثر پچاس سے بڑھ جاتی۔ پھول پڑھنے والے اشفاق صاحب کی محبت میں ایسے مبتلا ہوئے کہ کئی تو اپنے والدین کو ساتھ لے آتے اور پھر سالوں اس موقع کو یاد رکھنے کے لیے خوش خوش واپس جاتے۔ پروگرام کے دوران ہر ایک کی خواہش ہوتی کہ اشفاق صاحب کی باتیں اسی طرح جاری رہیں، ان کی گفتگو کا تسلسل نہ ٹوٹے۔ اس لیے ہر کوئی جب کھانے پینے کے لیے پلیٹ بھر کر اپنے لیے لاتا، ساتھ اشفاق صاحب کے لیے بھی لے کر آ تا۔ انیلہ مظفر الہیٰ، منرنہ، تسلیم، ماریہ بطور خاص اس کا اہتمام کرتیں۔ ایک روز جب ان کے سامنے خوب مال جمع ہوگیا تو انہوں نے دل کی شکل کا بسکٹ اٹھایا اور بولے ’’یار انہیں کہو بس کریں، یہ میرا پیٹ ہی نہیں ساکھ بھی خراب کریں گی۔‘‘ انھیں چاکلیٹ پیسٹری بھی اچھی لگتی تھی اور چکن ونگز بھی۔ ایک مو قع پر اچانک بولے، وہ بھی زمانے تھے جب تمہاری بانو آپا سرخ ساڑھی جس کے پلو سبز ہوتے تھے، پہن کر رو ٹیاں پکایا کرتی تھی۔ زاویہ کی ان نشستوں میں باتوں او ر موضوعات کے ساتھ ہم ہوٹلوں کی بھی ورائٹی کرنے لگے، کبھی جی بھرا تو ہالیڈے ان ڈیرے لگائے۔ ایک دو بار لبرٹی والے ’’زن وا‘‘ بھی گئے لیکن مجموعی طور پر زیادہ پی سی میں ہی یہ سلسلہ ہوتا رہا۔ کبھی کسی بورڈ روم میں، کبھی کر سٹل ہال میں اور ایک دو بار براہ راست مار کوپولو میں۔
اکرم زبیر نے ڈنڈی ماری اور اکیلا ہی جانے لگا
اکرم زبیر میرا یونیورسٹی کے دنوں سے بھی پہلے کا دوست ہے، وہ راولپنڈی سے لاہور ٹرانسفر ہو کر آیا توسخت اداس اور بیمار تھا، اس نے ایک روز فرمائش کی کہ بڑے بڑے ادیبوں سے تیری بڑی واقفیت ہے، مجھے بھی ملوانے ساتھ لے جایا کر، طے ہوا کہ ہم ایسا باقاعدگی سے کیا کریں گے، پھر ہم نے اشفاق احمد سے لے کر مستنصر حسین تار اور جناب مختار مسعود سے لے کر ممتاز مفتی تک جانا اور ملنا شروع کیا، یہ بڑے ہی مزے اور سیکھ کے دن تھے، یہ سلسلہ برسوں چلا، پھر اکرم زبیر پنجاب ٹوررازم سے پی ٹی سی ایل چلا گیا، اور اسے لگنے لگا کہ اب وہ خود ہی یہ معمول نبھا سکتا ہے اور نئے تعلقات بنا سکتا ہے، تو اس نے یہ ملاقاتیں اکیلے اکیلے کرنی شروع کردیں، یوں وہ اکٹھے جانے اور ملاقاتوں کی لذت جاتی رہی، زاویہ کے ہر پرو گرام کی وہ مووی بھی بناتا اور اشفاق صاحب کو لانے اور لے جانے کی خو شی بھی اپنے حصے میں رکھتا۔ ہماری خان صاحب سے محبت کا یہ عالم تھا کہ اتنے مسلسل اور متواتر پروگراموں سے جی نہ بھرتا تو ہفتے بعد ان کےگھر پہنچ جاتے۔ بعد میں زبیر نے ڈنڈی ماری اور چپ چاپ خود اکیلا ہی جانے لگا۔ زبیر نے اشفاق صاحب کی سبھی کتابیں خریدیں۔ ان پرآ ٹوگراف لیے مگر پڑھنے سے زیادہ اسے دیکھنے میں دلچسپی ہے۔ اس لیے ہر جگہ سے ڈھونڈ ڈھانڈ کے ٹی وی ڈراموں کی ریکارڈنگز جمع کیں۔ من چلے کا سودا، ایک محبت سو افسانے، طوطا کہانی، حیرت کدہ، سب اس کے پاس جمع ہیں۔ صرف دو ڈرامے نہیں تھے، اس کے لیے کہ وہ اسلام آباد جاکر ٹی وی پروڈیوسر نذیر تبسم کو دو درجن کیسٹیں بھی دے آیا کہ کسی طرح ٹی وی کے گودام سے پرانی کیسٹوں سے ریکارڈنگ مل جائے۔ پتا چلا کہ اکثر ٹیپ ضائع ہوچکے ہیں، جو ہیں ان کا سسٹم ہی اور تھا، وہ ان پر ریکارڈ نہیں ہو سکتیں۔ اشفاق صاحب کو وہ ہمیشہ یاد دلاتا کہ کچھ کریں۔ کسی سے کہیں، پرانے نہیں ملتے تو نئے ریکارڈ ہوجائیں۔ زبیر کے سارے کام اچھے اور خود بھی بڑا اچھا ہے مگر بابا جی پر اکیلے اکیلے مَل مارنے کی حرکت پر میں نے شکوہ شکایت تو نہیں کی مگر سچ یہی ہے کہ میرے دل پر کافی بوجھ پڑا۔ ایک اکرم ہی کیا میرا مشاہدہ ہے کہ ہم میں سے اکثر ایسا ہی کرتے ہیں اور جلد ہی ڈائریکٹ ہونے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔
زاویہ کتاب کیسے تیار ہوئی
اشفاق صاحب سے میں جب کسی ذاتی کام کے لیے پوچھتا تو کہتے کہتے رک جاتے، پھر ایک روز کہا ’’یار توں خود اینا مصروف ایں، ایویں کر کوئی منڈا بھیج دے، ذرا سمجھ دار ہوئے۔‘‘ عرفان الحق کئی سالوں سے میرے ساتھ ذاتی معاون خصوصی کے طور پر بہت دیانت داری اور لگن سے کام کر رہا تھا۔ یہ خدمت اور سعادت اس کے حصے میں آئی۔ وہ ہفتے کے ہفتے جاتا اور بانو آپا سے کیسٹ لے آتا، پھر اس کو ٹیپ سے لکھتا اور جاکر دے آتا۔ بانو آپا بڑی کمال خاتون ہیں، وہ آ کر بتاتا بھیا جی چائے بھی پلائی، شاباش بھی دی اور چیک بھی دیا، یوں زاویہ کتاب تیار ہوئی اور لوگوں کو حیران کرگئی۔ ایک نہیں اس کے تین حصے شائع ہوئے اور اس کتاب کو ایک بالکل ہی نیا حلقہ قارئین میسر آیا۔ عرفان اب ایک اچھا وکیل ہے اور وکلاء کے لیے اس نے قانون کی کئی ساری کتابیں لکھ ڈالی ہیں، اپنا ایک پبلیکیشنز ہائوس بھی بنا لیا ہے۔ اشفاق صاحب سے کئی بارگنڈا سنگھ بارڈر بھی جانے کا طے ہوا مگر اکثر ان کی طبیعت کی اچانک خرابی آڑے آ جاتی۔ انھیں Lowering flag ceremony دیکھنے کا بےحد اشتیاق تھا۔ سنا ہے کہ وہاں بڑا جوش و خروش ہوتا ہے۔ ایک آدھ بار انتظام ہوا بھی مگر تب وہ ادبی ایوارڈ کے لیے دبئی چلے گئے۔گنڈاسنگھ بارڈر پر جانے کی وجہ وہ جوش و جذبہ تھا جس کا لوگ بہت تذکرہ کرتے ہیں کہ کس طرح عوام اور رینجرزکے سپاہی جوش و خروش سے ملک سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ ملک سے محبت ان کا پسندیدہ موضوع تھا۔ 1965ء کی جنگ میں جس طرح تلقین شاہ نے لوگوں کو ہمت اور حوصلہ دیا اور ہندوستان کے لیے ایک موقع پر حکومت ہند نے باقاعدہ اس پروگرام کی اثر پذیری کے باعث اس کے بند کرنے کا معاملہ بھی اٹھایا تھا۔ یہ پروگرام سننے میں بہت اچھا تھا مگر اپنی لدھیانوی زبان کی وجہ سے پڑھنا مشکل ہے ۔
جناب مجیدنظامی کے پانچ ہزار روپے:
مال روڈ پر واقع نظریہ پاکستان فاؤنڈیشن اور تحریک کارکنان پاکستان کی تقریبات میں وہ باقاعدگی سے آتے جاتے رہے۔ اتنے سارے مقررین اور بڑے بڑے نامور لوگوں کی بے روح تقریروں کے بعد انہی کی باتیں ہوتی تھیں جو خاص و عام یاد رکھتے اور سر دھنتے اور جانے وہ کہاں کہاں سے نکات ڈھونڈ کر لاتے کہ بندہ حیران ہو جاتا۔ ہمیں تین بار جانے کا اتفاق ہوا۔ صوبہ سرحد کے وفد کے اعزاز میں پروگرام پھر صو بہ سندھ کے صدور اور آ خر میں جنوبی پنجاب میں پھول کے لیے کام کرنے والی نوجوان قیادت کو ساتھ لے کر، تینوں بار اشفاق صاحب نے میلہ لوٹ لیا۔ چوتھی بار نظریہ پاکستان فاؤنڈیشن کے رسالے کے اجراء کی تقریب تھی۔ نوائےوقت کے فوٹوگرافر اعجاز لاہوری نے (جو ایک زمانے میں فلم سازی کا شوق بھی رکھتے تھے) دفتر آ کر کہا کہ عباس صاحب آ ج تو کمال ہوگیا۔ اشفاق صاحب نے بھری محفل میں ایک بار نہیں تین بار آ پ کا ذکر کیا اور کہا کہ تم لوگ دفتر سجا کر بیٹھے ہو، کام کرنا ہو تو اس سے سیکھو، کیسے سارے صوبوں کے بچوں اور بڑوں کو اپنی محبت کی ڈوری سے باندھ رکھا ہے۔ لوگ وہاں ملک سے محبت کا دم بھرتے ہیں، جہاں ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ پھر یہی بات عمران نقو ی نے دفتر آ کر کہی۔ شام کو وقار مصطفی (سیفماوالے) سے بھی اس کا تذکرہ سنا [تن وہ روزنامہ نیشن میں کام کرتے تھے]۔ مجھے اشتیاق ہوا کہ اصل ماجرا کیا ہے۔ اشفاق صاحب کو فون کیا کہنے لگے ’’آ جا‘‘۔
جب پہنچا تو بہت ہنسے اور بولے ’’یار توں اپنی نئی نوکری کا انتظام کر لے، آ ج تیرے مجید نظامی کی موجودگی میں تیرے کام کی تعریف کر آیا ہوں‘‘۔ بڑے لوگ کسی دوسرے کا ذکر اور تعریف اپنی موجودگی میں برداشت کم کرتے ہیں، تجھے آج کل میں نوٹس فراغت آئے گا، تیار ہوجائو۔ پھر انھوں نے مزے لے کر پورا سین سنایا۔ کہنے لگے کہ میں نے براہ راست نام نہیں لیا۔ پہلے بھرے ہال سے پوچھا بھئی وہ کیا نام ہے اس لڑکے کا، ڈاڑھی والا، جو پھول نکالتا ہے۔ کئی سارے لوگوں نے تمھارا نام لیا۔ میں نے کہا اچھا ہے چار بندے اور بھی اس کے کام کو جانتے ہیں، پھر کہا کہ رسالہ نکالتا ہے تو اس سے پوچھو کیسے اپنے قارئین کو اس نے ہر صوبے میں جوڑ رکھا ہے۔ تمہارے نظامی صاحب نے گھور کے دیکھا۔ کیا تھا جو مسکرا دیتا، سر ہلا دیتا۔ میں نے کہا ’’وہ مصروف آ دمی ہیں کچھ اور سوچ رہے ہوں گے‘‘ بولے ’’میں نے تین بار وقفے وقفے سے ذکر کیا، اب ہر بار تو نہیں سوچ سکتے‘‘دو دن بعد ان کا فون آیا۔ ہاں بھئی کیا بنا؟ میں ہنس دیا۔ کہا خان صاحب! عجیب بات ہوئی ہے۔ نظامی صاحب نے بلایا تھا اور کہنے لگے ’’بھئی وہ اشفاق صاحب تمہاری بڑی تعریف کر رہے تھے‘‘ میں نے پوچھا ’’سر کہاں؟‘‘ تو بتانے لگے کہ نظریہ پاکستان کی تقریب تھی۔ واپس اپنے دفتر پہنچا تو پتا چلا کہ 5 ہزار روپے انعام ملا ہے۔ ’’اچھا‘‘ اشفاق صاحب نے حیرت کا اظہار کیا۔ میں نے کہا کہ اشفاق صاحب نظامی صاحب کے بارے میں لوگوں کی رائے بہت مختلف ہے۔ میں نے گیارہ بارہ سالوں میں ان کو لوگوں کی رائے سے بہت مختلف پایا۔ کئی بار شاباش ملی اور نقد انعام بھی۔ انھیں بہت اچھا لگتا ہے جب ان کے دوست احباب پھول کی تعریف کرتے ہیں شایداسی لیے کھل کر کام کرنے دیتے ہیں ۔ صرف ایک بار بلا کر پو چھا بھئی یہ بےنظیر کی بیٹی کی فوٹو ٹائٹل پہ کیوں چھاپی ہے۔ کسی مسلم لیگی نے شکایت کی تھی ۔ میں نے کہا ’’سر غلطی سے نہیں چھپی، باقاعدہ اسلام آ باد سے ذوالفقار بلتی (نواز شریف کے ذاتی فوٹوگرافر، وہ پہلے نوائے وقت پنڈی کے لیے کام کرتے تھے) سے سیشن کروایا ہے۔ پرچہ ہمارا سندھ بھی جاتا ہے اور پیپلز پارٹی والوں کے بچے بھی پڑھتے ہیں‘‘ ’’چلو ٹھیک ہے۔‘‘ انہوں نے شکایت واپس لیتے ہوئے معاملہ ختم کر دیا تھا۔’’واہ بھئی واہ ، پھر تو میری تقریر کا فائدہ ہو گیا۔ میں تو سوچتا تھا، باتیں ایسے ہوا میں چلی جاتی ہیں، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ یہ کبھی کبھار پیسے بھی دے جاتی ہیں۔‘‘
ادھار کی ویلیوز سکو ن نہیں دیتیں :
Values کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ دین کا مسئلہ نہیں ہے، نہ فلسفے اور اخلاقیات سے اس کا تعلق ہے۔ یہ تو کوئی بھی گروہ انسانی مل کر بیٹھتا ہے اور طے کرتا ہے کہ ہم اپنی زندگی اس طور گزاریں گے، تو قدر کا Values ظہور ہوتا ہے۔ یہی اقدار قانون بنتی ہیں۔ ہماری اپنی Values اکثر بنی بنائی ہیں۔ سوچی ہوئی اور طے کی ہوئی نہیں ہیں، اس لیے سسک رہی ہیں، ہاں مری نہیں ہیں۔ نظرانداز ہونے پر ناراض ہیں، انہیں توجہ دی جاسکتی اور زندہ کیا جا سکتا ہے۔ اب تو قومیں Values کے بنا زندہ رہ بھی نہیں سکتیں۔ اب دیکھیں کہ اللہ سب سے بڑی Value ہے اور اس کے بارے میں حال یہ ہے کہ ذکر تک سب سے کم ہوتا ہے۔ عقیدہ، یقین سب کمزور ہوں توویلیوز کی جڑوں کو پانی کون دے گا۔ لوگ اپنی مٹی اور سواہ کو سونا کر کے بیچ دیتے ہیں، ہم اپنی سونے کو بھی سونا کہنے سے ڈرتے ہیں، اور دڑتے ڈرتے اس ویلیوز کو گھر کے پچھواڑ ے میں بندکرنے چلے ہیں۔ ادھار کی اور مانگی ہوئی ویلیوز ہوں یا دولت، عزت نہیں دیتی، سکھ سکون کہاں دیں گی، ہماری ویلیوز کا پودا اور طرح کا ہے۔ اس کا پانی اور کھادیں بھی اوروں سے مختلف ہے۔ پر سوچنے سے یہ فرق سامنے آ ئے گا۔
مال روڈ پر پی سی کے بالکل ساتھ نظریہ پاکستان فاؤنڈیشن کا آفس ہے۔ ہیومن ریسورس ڈیویلپمنٹ پھول کے زیر اہتمام ہونےوالے ماہانہ لیڈرشپ ٹریننگ پروگرامز کے تحت صوبہ سندھ کے مختلف شہروں سے پھول کلب کے صدور کا دورہ تھا۔ لاڑکانہ سے یہ نوجوان آئے تھے۔ تحریک کارکناں پاکستان کے روح رواں ڈاکٹر رفیق احمد، چودھری سردار شاہد رشید کے علاوہ کرامت حسین اور ڈاکٹر صفدر محمود موجود تھے مگر شرکاء وفد کی نظریں اشفاق احمد پر ٹکی ہوئی تھیں۔ انہوں نے اس قدر خوبصورت گفتگو کی کہ سب کو مزہ آ گیا
بال پوائنٹس بھرا شاپر بیگ:
ایک بار مائی بھاگی کے گیتوں کی تلاش سے شرو ع ہونے والی بات تھر کے لوگوں، عادتوں اور ملک سے محبت تک جاپہنچی۔ ہم لوگ تھر کے قحط زدہ لوگوں کے لیے امداد لے کر گئے تھے۔ بابا جی نے اس کا تذکرہ کیا، تعریف کی اور پھر بولے ’’تم لوگ اتنا کچھ کرتے ہو، اس قوم اور محبت کو اپنی محبت اور جوانی دے رہے ہو، میں نے بھی سوچا کچھ تم لوگوں کو دوں، پھر وہ اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے اور بڑا سا شاپر بیگ اٹھا کر لائے۔ وہ بڑے خوبصورت اور رنگ برنگے بال پوائنٹس اور پین سے بھرا ہوا تھا۔ ایک ایک لڑکے کو بلاتے گئے اور تحفہ دیتے گئے، بعض لڑکیوں نے اسی قلم سے ان سے آٹوگراف بھی لیے پروگرام ختم ہوا تو کھانے کا اہتمام تھا۔ لڑکے تو وہیں ہال اور سیڑھیوں پر کھانے میں مصروف ہوگئے۔ پھول کلب مرکزی ٹیم اور لڑکیوں کے لیے الگ کمرے میں کھانے کا اہتمام تھا۔ اشفاق صاحب کو ہم وہیں لے آئے، ایک طرف نوشین کھانے کی پلیٹ لے کر بیٹھی تھی، بوٹیاں نکال کر انہیں دے رہی تھی دوسری طرف آمنہ ، کبھی شاذ قریب آ جاتی اور کبھی تسلیم، تعظیم۔ سبھی ایک ایک لمحے کو ان کے ہونے کی خوشی محسوس کر رہے تھے۔ اتنی ڈھیر ساری باتیں اور اتنی ڈھیر سی تصویر یں۔ جاتے ہوئے سب نے اشفاق صاحب سے سر پر پیار لیا۔ وہ بولے ’’تمہارے بھیا جی نے تم پر کیا جادو کر دیا ہے کہ تم لوگوں کا جی نہیں بھرتا باتوں سے.‘‘ سب کا خیال تھا کہ اشفاق بابا! آ پ تو کسی نعمت جیسے ہو، مٹھاس بھی اور سایہ بھی۔ مہر بانی بھی اور رہنمائی بھی تو جادو تو سر چڑھ کر بولے گا ہی۔
ہم لوگ ایسے ظالم لوگ ادیب اور دانشور کو ہمیشہ بےاختیار دیکھنے کے آرزومند کیوں رہتے ہیں
یہ 1988ء کے آ خری مہینے کی دوسری جمعرات تھی جب میں اشفاق صاحب سے پہلی بار ملا۔ تب تک ان کی کتابیں اور ڈرامے دیکھ چکا تھا۔ ان دنوں فیروز سنز میں بطور ایڈیٹر کام کر رہا تھا۔ اشفاق صاحب کی کتابیں سنگ میل والوں کے پاس تھیں۔ الطاف صاحب اردو سیکشن میں مارکیٹنگ مینجر تھے۔ انہوں نے ذکر کیا کہ اشفاق صاحب اور بانو آپا شوروم آئے تھے اور کئی کتابیں خرید کے لے گئے ہیں۔ الطاف صاحب سب ادیبوں کا انسائیکلوپیڈیا ہیں۔ کئی عشروں سے اسی جگہ لگن سے کام کر رہے ہیں۔ انہی کے ساتھ طے ہوا کہ اشفاق صاحب سے کچھ کتابیں لی جائیں اور انہیں شائع کیا جائے۔ میں نے جانے سے پہلے اے حمید سے رابطہ کیا، وہ ہفتے میں ایک بار ضرور فیروز سنز آتے اور ہم دونوں پینوراما سنٹر سے ذرا پہلے بابا سوزوکی والے کے پاس جا کر چائے پیتے اور ڈھیروں باتیں کرتے، ان کی اشفاق احمد پر کتاب بھی آچکی تھی، کہنے لگے جائو مل لو سوکھا بندا اے [جائو جا کر مل لو آسان آدمی ہے ] رابطہ کیا تو ان دنوں وہ اردو سا ئنس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ میں وہاں پہنچا تو اس دن بھنڈار [لنگر کی دیگ پکتی تھی دفتر میں ہر جمعرات کو] کی باری تھی۔ بانو آپا اس کی تیاری کروا رہی تھیں۔ اشفاق صاحب سے ملاقات ہوئی، انہوں نے شربت پلایا۔ ساتھ مکھی مار سے ایک دو مکھیوں کو ڈرایا پھر بھگایا۔ انہوں نے کہا کہ سنگ میل والے نیاز صاحب بڑے اچھے ہیں۔ میں خوش ہوں، سارے ہی ان سے خوش ہیں۔ میں نے بھی ہمت نہ ہاری اور کہا، جو ڈرامے ٹی وی پر آ رہے ہیں، ان کے مسودے ہی دے دیں، وہ تو ابھی سنگ میل نہیں گئے۔ یوں بات بن گئی۔ بانو آپا کے ڈرامے ’’فٹ پاتھ پہ گھاس‘‘ اور اشفاق صاحب کے ’’ننگے پائوں‘‘ کے نام سے فیروز سنز سے چھپنا طے ہوگئے۔واپسی پر میں نے ممتاز مفتی کو خط لکھا۔ ان سے تب تک خوب دوستی ہوگئی تھی اور تقریباً ہفتے دس بعد ان کا خط آ جاتا تھا۔ میں نے لکھا کہ آپ کے دوست سے ملا، پر ان میں افسری بہت ہے۔ اصل میں میری موجودگی میں ایک دو لوگوں کی دفتری کام میں سستی پر تھوڑی سرزنش ہوئی تھی۔ ہم لوگ ایسے ظالم ہیں کہ ادیب اور دانشور کو ہمیشہ بےضرر اور بےاختیار دیکھنے کے عادی ہیں۔ خیر مفتی صاحب نے جواب مزے کا دیا۔ وہ اشفاق صاحب کے بارے میں رائے تھوڑی مختلف رکھتے تھے اور ان سے بڑے ہی دوستانہ تعلق کے باوجود اپنی رائے اور غصے کا اظہار کرنے سے نہیں چو کتے تھے۔ اب جو میری اشفاق صاحب سے ڈیلنگ شروع ہوئی، مسودے آنے لگے۔ خلیق بھائی تھے سائنس بورڈ کے، وہ لاتے، کتابت کے بجائے کمپوزنگ پہلی بار ہمارے ہاں شروع ہوئی تھی، برومائیڈ پر اس کا پرنٹ ایسے نکلتا جیسے تصویر ہو، یوں ان کی کتاب پہلی کمپوزڈ کتاب ٹھہری۔ کوئی مشکل ہوتی، کبھی نہ ہوتی، دونوں صورتوں میں رابطہ کر لیتا۔ ان کے گھر آنا جانا شروع ہوا۔ یہیں سے اس مضبوط ڈوری کا سرا میرے ہاتھ آ گیا، جو پھر کبھی نہ چھوٹا۔ یہ تعلق اس لحاظ سے مختلف تھا کہ لوگ دوستی اور محبت کر لینے کے بعد ’’تاثر‘‘کے سہارے چلتے ہیں، میں رائے بنانے میں جلدی نہیں مچاتا اور اپنے محبوب کو انسان ہونے کی لبرٹی بڑی آسانی سے دے دیتا ہوں
بابافراڈلگاتاہے:
ایک روز میں نے کہا کہ اشفاق صاحب آپ کے نئے افسانوں کی مقبولیت کا مسئلہ ہے۔ کیا موضوعات کا مسئلہ ہے یا پیشکش کا مسئلہ ہے کہ نہ تو لوگ پڑھتے ہیں نہ ڈسکس کرتے ہیں۔ ہاں مستنصر حسین تارڑ صاحب ان چند لوگوں میں سے ہیں جو پڑھتے ہیں، مگر انہیں تصوف والا سچ پسند نہیں ہے۔ تارڑ صاحب مزے کے آدمی ہیں، کھلے ڈلے۔ وہ کہتے تھے ’’بابا کبھی کبھی فراڈ لگاتا ہے۔ اب دیکھو وہ افسانہ ہے۔ ڈھور ڈنگر کی واپسی، جس میں خوبصورت لڑکی اپنی نوکرانی کا نیوڈ پورٹریٹ بنا رہی ہےگائوں کی حویلی میں۔ یہ کمال افسانہ ہے اور منظر نگاری۔ یہ اشفاق صاحب پر ختم ہے مگر آگے وہ ڈھورڈنگر دیکھتی ہے شام کے وقت تو مسلمان ہوجاتی ہے اور نماز پڑھنے لگتی ہے۔ اشفاق صاحب کو اسے نماز نہیں پڑھانی چاہیے تھی۔ سارے افسانے کا ناس مار دیا ہے۔ اشفاق صاحب مسکرائے ’’ہاں بھئی تارڑ کی مرضی ہے۔ مگر اب تو اس لڑکی نے نماز پڑھ لی۔ وہ پہلے کہتا تو یہ حصہ اس کے لیے نکال دیتے۔‘‘ اشفاق صاحب کی نماز جنازہ کے بعد جب سب بڑے بڑے لوگ چلے قبر ستان میں، معروف لوگوں میں مستنصر حسین تارڑ واحد تھے جو نم آ نکھوں سے اشفاق صاحب کی قبر کے قریب ایڑھیاں اٹھا اٹھا کر اس بابے کو رخصت کر رہے تھے، جس نے عمر بھر اپنے سے بعد کی نسل کے افسانہ نگاروں، ڈرامہ نگاروں اور سفرنامہ نگاروں کو ہمیشہ محبت اور احترام کے ساتھ حوصلہ دیا، حوصلہ افزائی کی۔ میں نے اتنے سالوں میں کسی ایک ہم عصر، جونیئر یا سینئر لکھاری کے خلاف ان کے منہ سے بات نہیں سنی۔
2ستمبر کی شام آخری ملاقات :
یہ 2/ستمبرکی شام تھی، جب میں اپنی اہلیہ نوشین اور بیٹی انشراح کے ساتھ اشفاق صاحب کے کمرے میں داخل ہوا۔ وہ دائیں کروٹ پر بالکل مرجھائے اور کملائے بیٹھے تھے۔ انہوں نے ہاتھ اٹھا کر ہم دونوں کو پیار دیا۔ نوشین کرسی پر بیٹھ گئی اور میں ان کے سرہانے کے پاس۔ ’’ہو آئے ہو عمرے سے‘‘ انہوں نے ہلکی سی آواز سے پوچھا۔ جی اشفاق صاحب، ایک عمرہ آپ کے لیے الگ سے کیا۔ اللہ جی آپ کو سلامت رکھے۔’’بس یارو، او بیماری لگ گئی اے۔‘‘
اشفاق صاحب! حدیث ہے کہ بیماری سارے چھوٹے بڑے گناہ سوکھے پتوں کی طرح جھاڑ دیتی ہے۔ میں نے کہا۔
اب ان سے کوشش کے باوجود نہ بولا گیا۔ میں نے ان کے ہاتھوں اور سر کا بو سہ لیا اور نم آ نکھوں کے ساتھ اہلیہ کو اشارہ کیا کہ چلیں۔ اشفاق صاحب کی سٹڈی کم بیڈ سے باہر نکل رہے تھے جب رفیق بھائی (خادم خاص ) بوتلیں لے آئے، میں نے شکریہ ادا کیا۔ دکھ اور صدمے سے کیفیت اتنی بگڑی ہوئی تھی کہ پانی کا قطرہ نگلنا مشکل تھا۔
چند لمحوں بعد بانو آپا آ گئیں۔ انہوں نے گلاس میز پر ویسے ہی پڑے پایا تو بولیں ’’لیتے کیوں نہیں‘‘میں نے بےبسی سے کہا ’’بانوآ پا۔۔‘‘وہ بولیں ’’دعا کرو اللہ خیر کرے اور آسانی دے‘‘
یہ عجیب دعا تھی جس کا انہوں نے اس لمحے اظہار کیا۔ ہم باہر نکلے تو انہوں نے روکا۔ تم پیو۔ میرا انکار دیکھ کر پہلی بار وہ تھوڑا ناراض ہو کر بولیں، میں حکم دیتی ہوں کہ پیو، پھر تمہیں پتا ہے۔ ’’زاویہ‘‘ آ گئی ہے۔ لے کر جانا۔۔۔ سٹور سے وہ کتاب لائیں اور زور سے بولیں ’’خان صاحب اختر تے ایدی بیگم واپس جارے نیں ۔۔۔ذرا کتاب تے سائین کردینا‘‘
اشفاق صاحب نے بہت مدھم آواز میں کچھ کہا۔ بانو آپا نے قلم لیا اور لکھا اختر عباس کے لیے دعائوں کے ساتھ۔ پھر کتاب اشفاق صاحب کی بند آنکھوں کے سامنے کر دی۔ انہوں نے اپنا ہاتھ بڑی مشکل سے اٹھایا، قلم پکڑا اور اشفاق احمد لکھ کر واپس کر دی۔ ایک دو کا اضافہ اشفاق صا حب نے کر دیا۔ باہر نکلے تو نوشین نے کہا ’’شعبان تک‘‘ اللہ خیر کرے مجھے 22/ ستمبر نظر آ رہا تھا. ( ایک دو اشفاق صاحب کا، ایک بانو آپا کا لکھا ہوا) ان کے گھر سے رخصت ہوئے تو یہ یقین تھا کہ اگلی بار بابا جی کے گلے نہیں مل سکوں گا۔
جب 121 سی کے پیارے سے گڈریے کو رخصت کر نے 7/ستمبر کی شام ان کی میت کے پاس اسی کمرے میں کھڑا تھا، جہاں نورالحسن کا وجود آنسو بن کر بہہ رہا تھا تو کتنا دل چاہا کہ بڑھ کر سینے سے لگ جائوں، مگر ہمیشہ کی طرح اندر کے کم حوصلے نے یہ بھی نہ کرنے دیا۔ اوپر سے میت کو گھر سے رخصت کر تے ہوئے بانوآپا نے ہاتھ باندھ کر یہ ایک جملہ کہا ’’اچھا خان صاحب! کہا سنامعاف‘‘ تو جسم میں جو جان تھی وہ بھی نکل گئی۔
قبر پہ نلکے کی خواہش:
ماڈل ٹاؤن ای بلاک کے قبرستان میں محوآ رام اشفاق صاحب کی قسمت ایسی کہ اس دنیا میں اپنے پڑھنے والوں اور محبت کرنے والوں کے ہجوم سے رخصت ہوئے تو قبر بھی وہاں پائی جہاں بےشمار انسان بالکل ساتھ ساتھ یوں دفن ہیں جیسے داستان سرائے میں لوگ جڑ کے بیٹھتے، حیرت اور اشتیاق سے انہیں بولتے دیکھ اور سن رہے ہوتے تھے۔ ان کی قبر کے ساتھ والی قبر پر بیٹھا میں کتنی دیر نم آنکھوں والے نورالحسن اور مستنصر حسین تارڑ کو دیکھتا اور سوچتا رہا، کیا تھا جو ان کی قبر الگ اور نمایاں ہوتی، پھر ان کی آرزو کے مطابق وہاں نلکا بھی لگ جاتا، ایک بنچ بھی رکھا جاتا اور ڈھول کی تھاپ پر قوالی بھی ہو نے لگتی جیسے من چلے کا سودا کے آخری مناظر میں ہوا تھا۔ وہ پورا منظر یوں لگتا ہے جیسے انہوں نے اپنے سفر واپسی کے لیے لکھا ہو۔ یہاں بھی، لنگر تو جاری ہو جاتا مگر اب اتنی قبروں کے بیچ میں سونے والے کے لیے کوئی کیا کرے۔ قبرستان کے شروع میں واٹرکولر لگانے کا خیال آیا، پھر ساتھ ہی بینک سٹیٹ منٹ سامنے آ گئی، اور دل کو یہ کہہ کر تسلی دے ڈالی کہ اگر یہاں واٹر کولر لگا بھی دیا جائے تو بجلی کہاں سے آئے گی؟
اشفاق صاحب! جب تک آپ زندہ رہے، ہمیں آسانیاں دیتے رہے۔ آسانیاں بانٹنے کا ہنر سکھاتے رہے، یہ جاتے جاتے نلکے، بنچ اور لنگر کی کس مشکل میں پھنسا گئے ہیں۔ چپ ہوتا ہوں تو چپ ہوا نہیں جاتا اور بولتا ہوں تو زبان نہیں بولتی، آ نسو بولتے ہیں۔ کون جانے محبت کرنے پر یا محبت کے تقاضے ادھورے چھو ڑنے پر۔ مگر آپ تو جانتے ہیں محبت کے دعووں پر زور نہیں لگتا، نلکوں کو لگانے اور گیڑنے پر تو لگتا ہے۔
(اختر عباس مصنف، افسانہ نگار اور تربیت کار ہیں۔ سترہ برس نوائے وقت کے پھول میگزین، قومی ڈائجسٹ اور اردو ڈائجسٹ کے ایڈیٹر رہے۔ اردو میں نئی نسل کے لیے ان کی25 کتابیں دو لاکھ چالیس ہزار سے زائد شائع ہو چکی ہیں، ان کی شخصیت سازی پر پانچ منی بکس ہیومن اپیل لندن نے 5 لاکھ کی تعداد میں شائع کر کے آزاد کشمیر کے ایک لاکھ طلبہ تک پہنچائیں، انہیں اس سال یو بی ایل ایکسی لینس ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ ان کی ایک کتاب’’ آداب زندگی کے‘‘ کی اشاعت نے بھی اسی برس 50 ہزار کا ہدف عبور کیا۔ اخترعباس ممتاز تربیتی ادارے ہائی پوٹینشل آئیڈیاز کے سربراہ ہیں۔ ان سے ان کے فیس بک پیج akhter.abbas اور ای میل akhterabas@ymail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے. یہ تحریر ان کی اپنے اس دوسرے بابے سے محبت کا اظہار ہے جو ان کی زندگی میں ایک طویل عرصہ خوشی اور اطمینان کی سکون بخش کیفیت کی طرح موجود رہے۔)