وہ بہت آن بان سے گھر سے نکلتا تھا۔
سفید کڑکڑاتا سوٹ۔
اکڑی گردن ۔
پالش جوتے۔
اسے دیکھنے والے کہہ رہے تھے۔
کیا ہی نفیس بندہ ہے۔
کیا پرسنالٹی ہے۔
اپنی تعریف کے جملے اس کے کان میں پڑ تے تو گردن اور بھی اکڑ جاتی۔
کوئی نہیں جانتا تھا کہ
ابھی ابھی وہ اپنی بیوی کی پٹائی کر کے نکلا ہے۔
اس کے بھاری ہاتھوں نے نازک چہرے پر سرخ نشان چھوڑ دیا ہے۔
اس کی طاقتور ٹھوکر نے اس کے شیش بدن پر گہرا نیل داغ دیا ہے۔
کوئی جانتا بھی تو کیسے؟
كہ وہ اپنی دوستوں کو بتارہی تھی،
کہ سیڑھیوں سے گر گئی ہوں۔
آنکھیں سوجن کا شکار ہیں،
رات کسی کیڑے نے کاٹ لیا ہے شاید۔
ہاں کوئی جانتا بھی تو کیسے؟
وہ پگلی کہہ رہی تھی ماں سے،
کہ میں آج ملنے نہیں آسکتی، میرے گھر مہمان آگئے ہیں۔
اور وہ نادان مہمانوں سے کہہ رہی تھی،
میرے شوہر بہت مصروف ہوتے ہیں، اس لیے گھر کم ہی آتے ہیں۔
وہ اپنی بہن کو مطمئن کر رہی تھی یہ کہہ کر،
کہ میں بہت خوش ہوں۔
وہ آنکھوں میں امڈتے آنسوؤں کو زکام کا نام دے کر کہہ رہی تھی کہ
میرے شوہر بہت اچھے ہیں،
ہاں بہت اچھے ہیں۔
دل میں سلگتی چنگاریاں دبا کر وہ اپنی پڑوسن کو بتا رہی تھی کہ،
میرے شوہر میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔
یوں سب مطمئن تھے اس کی زندگی سے۔
کیا؟؟؟؟؟ طلاق؟؟؟؟؟
اسے؟؟ کیوں؟؟ کیسے؟؟؟
اس کے شوہر تو بہت اچھے تھے ،
اس نے خود مجھے بتایا تھا،
وہ تو بہت خوش تھی۔
کئی چبھتے ہوئے سوال اٹھ رہے تھے۔
اور وہ گردن اکڑا کر بھری مجلس میں بتا رہا تھا،
میں نے اسے طلاق اس لیے دی کہ
وہ بد زبان تھی،
فضول خرچ تھی،
بد کردار تھی۔
اور وہ سر جھکائے سوچ رہی تھی،
گر میں نادان نہ ہوتی،
اس کی خامیوں پر پردے نہ ڈالتی،
تو آج اس مرد کی گردن کا سریا بھی ضرور ٹیڑھا ہوتا۔
جس مرد کی اس نے ہر جگہ عزت بنائی تھی،
جس کی ساکھ بنائی تھی،
وہی آج اسے داغ دار کر چکا تھا۔
تبصرہ لکھیے