ماجھا اور ساجھا دونوں گہرے دوست تھے. ماجھے اور ساجھے کو سائیکل سواری کا بہت شوق تھا. شوق کے باوجود دونوں کے پاس سائیکل نہ تھا. ماجھے کے پاس پاکٹ منی سے بچت ک یے گئے کچھ پیسے جمع ہو چکے تھے. جبکہ ساجھے کے پاس ایک دھیلی بھی نہ تھی. دونوں نے باہم مشورے سے طے کیا کہ نیا سائیکل خریدا جائے. نئے سائیکل کی قیمت بازار میں آٹھ ہزار روپے تھی. ان کو محلے کے سماجی کارکن خان صاحب نے مشورہ دیا کہ وہ دونوں جمعہ کے دن چور بازار میں چلے جائیں، وہاں کچھ دن چلی ہوئی سائیکل تین ہزار روپے میں انہیں آسانی سے مل جائے گی. مگر انہیں خان صاحب کا مشورہ پسند نہ آیا کیونکہ ان کا شوق نیا سائیکل خریدنے کا تھا. ماجھے کا کہنا تھا کہ نئے سائیکل کی اپنی ایک شان اور آن بان ہوتی ہے. ساجھا کے ذہن و دماغ میں نئی سائیکل کا خبط اور جنون ایک عرصے سے سوار چلا آرہا تھا. اس نے کئی بار خود کو خواب میں سائیکل ریس جیتتے اور گولڈ میڈل حاصل کرتے دیکھا تھا. افسوس کہ اس کے پاس کبھی بھی سائیکل خریدنے کے لیے پیسے جمع نہ ہو سکے تھے. اب چونکہ ماجھے کے پاس پانچ ہزار روپے جمع ہو چکے تھے. اس لیے اس نے ساجھے کو مشورہ دیا کہ وہ محلے کی جامع مسجد کے امام قاری صاحب سے تین ہزار روپے ادھار لے لے. قاری صاحب کے پاس اچھی خاصی دولت تھی. ان کا مدرسہ، سکول اور کالج بہت اچھے چل رہے تھے. وہ ضرورت مندوں کو ادھار میں رقم دیتے تھے. مقروض لوگ ہر مہینے کچھ نہ کچھ رقم قاری صاحب کو واپس لوٹا دیتے تھے. ساجھے نے تین ہزار روپے قاری صاحب سے بطور قرض حسنہ لے لیے تھے.
اس طرح بلآخر ماجھے اور ساجھے نے باہم رقم ملا کر نیا سائیکل خرید ہی لیا. سائیکل سٹور کے مالک نے ان کے کہنے پر خریداری کی رسید دونوں کے نام ہی کاٹی. محلے کے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ سانجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں جا پھوٹے گی. مگر ماجھا اور ساجھا ایک دوسرے کے بہت عرصے سے ساتھی تھے. اور ہم مزاج ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی ضرورتوں اور مجبوریوں کو بھی سمجھتے تھے. انہوں نے شروع میں طے کر لیا تھا کہ ساجھا تین سال کے بعد ماجھے سے اپنے تین ہزار روپے واپس لے لے کر سائیکل سے دستبردار ہو جائے گا. اس دوران سائیکل دن کے آٹھ گھنٹے ماجھے کے پاس رہے گا اور باقی سولہ گھنٹے ساجھا سائیکل کا مالک ہوگا. سائیکل کی دیکھ بھال اور مرمت وغیرہ پر جو خرچ اٹھے گا وہ دونوں مل کر لگائیں گے. محلے کی اکثریت کا خیال تھا کہ یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہیں چل سکے گا. اندیشے،وسوسے اور خدشات محلے والوں کے دل و دماغ میں پیدا ہوتے، پلتے اور بڑھتے رہتے، اور پھر یہ تجزیئے و تبصرے اپنی موت آپ مر ہی جاتے تھے. ماجھے اور ساجھے نے خوامخواہ کسی پروپیگنڈے کا کبھی کوئی جواب دیا اور نہ ہی لوگوں کی باتوں کی کوئی پرواہ کی تھی.
وقت کے ساتھ ساتھ سائیکل سواری کا شوق دونوں کا خوش اسلوبی سے پورا ہوتا رہا تھا. قاری صاحب کو ساجھا برابر ہر ماہ اقساط ادا کرنے جاتا تھا. وقت تیزی سے گزرتا جا رہا تھا. دونوں دوست اپنے وقت اور اصول کا خیال رکھتے تھے. کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہ ملا تھا. ساجھے نے بھی اب بچت کو اپنا معمول بنا لیا تھا. وہ جانتا اور سمجھتا تھا کہ تین برس گزرتے پتہ بھی نہیں چلے گا، اور ماجھا حسب وعدہ اسے اس کے تین ہزار روپے واپس دے دے گا. اس نے ارادہ کر لیا تھا کہ وہ بچت کے پیسے ان تین ہزار روپوں میں ملا کر نئی سائیکل خرید لے گا. خان صاحب نے چند دن پہلے ساجھے کو ہمدردی کے طور پر یہ مشورہ دیا تھا کہ چونکہ سائیکل زیادہ وقت تمہارے پاس رہتی ہے. اس لیے تم اس پر قبضہ کر لو. اس معاملے میں میں تمہارا ساتھ دوں گا. جب ساجھا قاری صاحب کو قرض کی آخری قسط دینے گیا تھا تو قاری صاحب نے بھی اس سے کہا تھا، کہ وہ نئی سائیکل خریدنے کی بجائے،اسی سائیکل کو اپنے قبضہ میں رکھ لے. ماجھے سے رقم لینے کی بجائے اسے اپنی طرف سے پانچ ہزار روپے واپس کر دے. اور اگر وہ چاہے تو قاری صاحب اس کی مدد کرنے کو تیار تھے. انہوں نے اسے مزید رقم ادھار دینے کی پیشکش بھی کی. قاری صاحب نے اسے کہا کہ چونکہ یہ سائیکل اسے راس آگیا ہے. اور اس کے لیے مبارک ثابت ہوا ہے. سائیکل لینے کے بعد اس کے رزق میں بہت برکت بھی آئی ہے. اور وہ کئی سائیکل ریس کے مقابلے بھی جیت چکا ہے. اس کے علاوہ اس کا قرض بھی تو اتر گیا تھا، اور اس کے پاس ایک معقول بچت بھی جمع ہو چکی تھی.
قاری صاحب کی باتوں اور تجاویز سے کچھ دیر کے لیے وہ متاثر تو ضرور ہوا، مگر پھر اس نے سوچا کہ اس کی نیک نامی سائیکل پر قبضہ جمانے کے بعد خوامخواہ بدنامی میں بدل جائے گی. معاہدے کے برخلاف سائیکل پر قبضہ کرنے سے اس کا ضمیر بھی اسے ہمیشہ کے لیے، بلکہ زندگی بھر شرمندہ ہی کرتا رہے گا. اسے یاد تھا کہ مشکل وقت میں ماجھا اس کے شوق کا ساتھی بنا تھا. اور آج جب معاہدے کے مطابق تین سال بعد اسے اپنی رقم واپس لے کر سائیکل کی شراکت سے دستبردار ہونا تھا. تو ایسے میں وہ کیوں بد خواہوں کے کہنے میں آ کر کوئی غلط قدم اٹھا بیٹھے؟. اس نے سوچ لیا کہ سائیکل کی سپردگی اور اپنی رقم کی وصولی طے شدہ وقت پر کرے گا. وہ سمجھتا تھا کہ رخصتی اور علیحدگی عزت و وقار کے ساتھ ہی ہونی چاہئے. کسی پر الزام اور تہمت لگائے بغیر، آخر کار جس روز تین سال پورے ہوئے. ساجھا سائیکل لے کر ماجھے کے گھر پہنچا اور سائیکل اسے واپس دے کر اپنی رقم کا مطالبہ کیا. اس نے تین مسلسل تین سال تک سائیکل چلائی تھی. اس کے با وجود دوست کی مہربانی تھی کہ وہ معاہدہ کے مطابق پوری رقم دینے کا پابند تھا. ماجھا اپنے دیرینہ ساتھی کو اپنی بیٹھک میں بٹھا کر اندر سے رقم لینے کا کہہ کر گیا. باہمی رضامندی کے معاہدہ کے مطابق ماجھے کو تین سال بعد ساجھے کو تین ہزار واپس کرنے تھے.
ساجھا کا چہرہ اترا ہوا تھا. وہ اندر سے بہت اداس تھا. اسے سائیکل سے بہت پیار و انس ہو گیا تھا. اس نے جی جان سے سائیکل کا خیال بھی رکھا تھا. حالانکہ ماجھا سائیکل سے اکثر لاپرواہی برتتا تھا. کیونکہ دن میں سائیکل ماجھے کے پاس ہوتا تھا. آج کے بعد ساجھے کو سائیکل کی جدائی کا صدمہ برداشت کرنا تھا. پھر یہ تین ہزار روپے لے کر ابھی اس کے پاس اتنی بچت بھی نہ ہوئی تھی، کہ وہ نیا سائیکل خرید سکتا. اب وہ قاری صاحب سے ادھار لینے کو گناہ سمجھتا تھا. کیونکہ قاری صاحب نے اسے سائیکل واپس نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا. محلے کے سماجی کارکن خان صاحب بھی اس کی نظر میں اب اچھے آدمی نہ تھے. انہوں نے ساجھے کو سائیکل پر قبضے کا غلط مشورہ جو دیا تھا.
ساجھا بہت اداس اور غمگین دھک دھک کرتے دل کے ساتھ بیٹھک میں بیٹھا ماجھے کا انتظار کر رہا تھا. اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ اپنے سائیکل کی جدائی میں خوب روئے. مگر وہ مضبوط اعصاب کا روشن ضمیر اور باوفا شخص تھا. اسے وعدے نبھانا اور قول و قرار پورے کرنا ہی اپنی شان لگتا تھا. وہ اپنی سوچوں میں مگن بیٹھا تھا کہ ماجھا اپنے چھوٹے بھائی کے ہمراہ ایک نئے نویلے،لشکارے مارتے سائیکل کے ساتھ بیٹھک میں داخل ہوا. یہ سائیکل ساجھے کے لیے تحفہ تھی. اسے تین ہزار روپے کے بدلے میں نئی سائیکل مل رہی تھی. ماجھے نے اسے بتایا کہ اس کا بھائی چند دن پہلے سعودی عرب سے آیا ہے. جب اسے ہمارے سائیکل کے معاہدے کے بارے میں معلوم ہوا تو وہ ساجھے کی وفاداری اور ایمانداری سے بہت متاثر اور خوش بھی ہوا. اس نے ساجھے کے امانت میں رکھے تین ہزار روپے ماجھے سے لیے اور باقی پیسے خود سے ملا کر ساجھے کے لیے نیا سائیکل خرید لایا. اس لمحے ماجھے اور ساجھے کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو رواں تھے. ساجھے کو اپنے دوست کی دوستی پر فخر محسوس ہو رہا تھا. ماجھا بھی بہت خوش تھا کہ اس کے چھوٹے بھائی نے اس نازک مرحلے میں اس کا سر فخر سے بلند کرنے میں اس کا بھرپور ساتھ دیا تھا.
تبصرہ لکھیے