ایک لمبی غیر حاضری۔ فی الوقت اس کی وجہ بیان کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ ممکن ہے کل ہی دل کرے مگر فی الحال ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ بس ارادہ‘ دعویٰ کرنا زیبا نہیں دیتا۔ سچی بات ہے کہ نہ لکھنے کو دل کیا اور نہ ہی وقت ملا۔ بھلا ایسی کیا مصروفیت تھی؟ ایک نیا تجربہ تھا جس نے کئی گتھیاں سلجھائیں اور کئی باتوں کی نئی پرتیں کھولیں۔ کئی رشتوں کی حقیقی اہمیت واضح کی اور کئی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا۔ بس اتنا ہی کافی سمجھیں۔ ایک ذمہ داری ہے جسے نبھا رہا ہوں۔
میں گزشتہ اٹھارہ انیس دن سے یہاں امریکہ میں ہوں۔ لیکن کالم نہ لکھنے کی وجہ سفر بہرحال نہیں ہے کہ سفر اب زندگی کا ایسا حصہ بن چکا ہے جس سے مفر ممکن ہی نہیں رہا دو چار دن دورانِ سفر مسلسل بھاگ دوڑ کے باعث کالم نہ لکھنا اور بات ہے مگر محض سفر کے باعث اتنی لمبی غیر حاضری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر سفر کی بنیاد پر اتنی لمبی غیر حاضری کا جواز بناؤں تو کالم رہا ایک طرف کوئی بھی کام نہ کر سکوں۔
یہاں امریکہ میں بھی یہ عالم ہے کہ بس ٹولیڈو میں ہوں۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ امریکہ آیا ہوں اور شفیق کے پاس لاس اینجلس نہیں گیا۔ اٹلانٹا برادر بزرگ سے ملاقات نہیں ہوئی اور ڈاؤننگ ٹاؤن خالد منیر سے ملنے بھی نہیں گیا۔ تینوں کو علم تھا کہ میں امریکہ کیوں آیا ہوں اس لیے کسی نے بھی اصرار نہ کیا۔ برادر بزرگ سے روزانہ بات ہوتی ہے۔ عمیر کی طبیعت ناساز ہے علاج جاری ہے۔ برادر بزرگ سے روزانہ عمیر کی صحت کا معلوم کرتا ہوں۔ شفائے کاملہ کی دُعا کرتا ہوں۔ آپ سے بھی ملتمس ہوں کہ برخوردار عمیر کی صحت کاملہ کے لیے دُعا کریں۔ ڈیلاس سے عاطف رضوان، نیویارک سے عاطف علیم، ہیوسٹن سے ڈاکٹر آصف ریاض قدیر اور لینڈو سے عاصم اسد، لوئی ویل سے ڈاکٹر اسد اسماعیل اور ایلن ٹاؤن سے علی افضل بھی اپنی اپنی جگہ اپنے شہر بلا رہے ہیں مگر عالم یہ ہے کہ ٹولیڈو سے محض ایک گھنٹے کی مسافت پر ڈیٹرائٹ میں ڈاکٹر خالد راؤ، نوید اشرف اور عارف راؤ سے ملنے نہیں جا سکا۔ ہاں اس دوران ہر دوسرے روز شفیق سے امریکی الیکشن پر بات ضرور ہوتی ہے۔ جس روز میں امریکہ آیا تھا اس روز شفیق کے حساب سے تین SWING STATES یعنی پنسلوینیا، اوہائیو، مشیگن کا پلڑا ٹرمپ کے حق جاتا نظر آرہا تھا‘ تا ہم شفیق کا کہنا تھا کہ ابھی الیکشن میں پینتالیس دن ہیں اور معلوم نہیں اس دوران کیا حالات ہوں اس لیے حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں تاہم اگر اکنامکس کے کلیہ کے مطابق ''دیگر تمام عوامل میں تبدیلی نہ آئے‘‘ تو حالات ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں فی الوقت بہترین ہیں۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ٹرمپ خود اپنے آپ کو تباہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے اور کسی وقت کچھ بھی کر سکتا ہے۔
امریکہ کے صدارتی الیکشن ہر چار سال بعد (چار پر تقسیم ہو جانے والے سال میں) ہوتے ہیں اور نومبر کے پہلے سوموار کے بعد آنے والے منگل کا دن ''الیکشن ڈے‘‘ ہوتا ہے۔ اسے نومبر کا پہلا منگل اس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ ممکن ہے یکم نومبر کو منگل ہو اس لیے پہلے سوموار کے بعد پہلے منگل والے دن الیکشن ہوتا ہے اس سال بھی یہی معاملہ ہے نومبر کا پہلا منگل یکم تاریخ کو ہے جبکہ پہلا سوموار سات نومبر کو اور اس کے بعد والا منگل آٹھ نومبر کو بنتا ہے۔ یہ آٹھ نومبر امریکہ کے صدارتی الیکشن کا دن ہے۔
جب امریکی الیکشن کے لیے ریپبلکن اور ڈیموکریٹ اُمیدواروں کی نامزدگی کا مرحلہ شروع ہوا تو ریپبلکن پارٹی میں اُمیدواروں کی تعداد (جو مقابلے میں شریک ہی نہیں‘ بلکہ باقاعدہ سیریس اُمیدوار سمجھے جا رہے تھے)سے چار گنا زیادہ تھی اور آہستہ آہستہ ڈونلڈ ٹرمپ اوپر آتا گیا حالانکہ صورت حال یہ تھی کہ اسے کوئی شخص بھی شروع میں سنجیدگی سے نہیں لے رہا تھا مگر ریپبلکن پارٹی کے پرائمری الیکشن میں قوم پرست اور مذہبی جھکاؤ والے ممبران کی چلتی ہے اور وہ آہستہ آہستہ ٹرمپ کے ساتھ آ گئے۔ لیکن عالم یہ تھا کہ عام لوگوں کا خیال تھا کہ ٹرمپ کو شاید سو ووٹ بھی نہ مل سکیں اور یوں ریپبلکن پارٹی کو تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پارٹی الیکشن کے دوران جن باتوں سے لوگ ٹرمپ کی بدترین شکست کا اندازہ لگاتے تھے وہی باتیں آہستہ آہستہ ٹرمپ کے لیے ''ٹرمپ کارڈ‘‘ بن گئیں۔ ٹرمپ نے اپنی گفتگو اور تقاریر سے جہاں امریکہ کے تمام اقلیتی گروہوں خواہ وہ مذہبی ہوں یا لسانی ہوں یا نسلی بنیادوں پر ہوں‘ سب کو اپنے خلاف کر لیا۔ تمام تارکین وطن بھی ٹرمپ کے بارے میں منفی خیالات رکھتے تھے لیکن بظاہر بے وقوف نظر آنے والا ٹرمپ اس سارے کھیل میں گورے امریکی کا ووٹ کھینچنے میں کامیاب ہو گیا اور اسی طرح تارکین وطن سے پاک امریکہ ملازمت پیشہ امریکیوں کو جنت نظر آنے لگ گیا۔ امریکی لیبر کلاس کو ٹرمپ کی شکل میں ایسا امریکی صدر نظر آرہا تھا جو ان کی تباہ ہوتی ہوئی انڈسٹری کو دوبارہ زندہ کر دے گا۔ فی گھنٹہ اجرت کو اوپر لے جائے گا اور ان کی صنعتوں کی عظمت رفتہ کو لوٹا دے گا۔ ٹرمپ کی پالیسی کو پذیرائی ملنے لگی اور حالت یہ ہو گئی کہ جسے سو ووٹ ملنے کی پیش گوئی کی جا رہی تھی الیکشن سے چالیس دن قبل اس کے ووٹوں کا اندازہ 259 ووٹ لگایا جا رہا تھا۔ اسے ابھی مزید گیارہ ووٹوں کی ضرورت تھی اور سیاسی پنڈتوں کا خیال تھا کہ وہ ریاست نیواڈا کے چھ اور کولوراڈو کے نو ووٹ یعنی کل سولہ ووٹ مزید بھی لے سکتا ہے۔ اس طرح اسے 275 ووٹ مل سکتے ہیں۔ اس طرح ٹرمپ کے امریکہ کے آئندہ صدر بننے کے امکانات روشن نہ بھی سہی مگر بہرحال اس کی جیت کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا تھا۔
امریکہ میں صدارتی الیکشن ڈائریکٹ ہوتے ہیں اور نائب صدر کو صدارتی اُمیدوار کا دم چھلا کہا جا سکتا ہے کہ اسے بھی صدر کے ووٹ ملتے ہیں امریکہ کی پچاس ریاستوں کو تین کیٹیگریز میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ ریاستیں جو روایتی طور پر ریپبلکن سٹیٹس ہیں۔ دوسری وہ جو ڈیموکریٹ سٹیٹس ہیں اور تیسری وہ جو اِدھر اُدھر ہوتی رہتی ہیں۔ ریپبلکن سٹیٹس میں البامہ، ارکنساس، مونٹانا، اڈاہو، یوٹا، وائی یومنگ، شمالی و جنوبی ڈکوٹا، بنراسکا، کینساس، اوکلاہوما، ... ٹیکساس، لوزینا، کینٹکی، ٹینی سی، ویسٹ ورجینیا، ساؤتھ کیرولائنا، الاسکا، انڈیانا اور مسسپی۔
یہ کل مل کر 164ووٹ بنتے ہیں۔ یعنی دوسرے لفظوں میں ریپبلکن اُمیدوار کو164 ووٹ تو جیب میں پڑے ملتے ہیں اسے بقیہ106 ووٹوں کے لیے بھاگ دوڑ کرنا ہوتی ہے۔
اسی طرح ڈیموکریٹ اُمیدوار کو بھی روایتی طور پر اوریگن، کیلی فورنیا، نیومیکسیکو، منی سوٹا، الی نوائے، نیویارک، ورماؤنٹ، روڈھ آئی لینڈ، میساچیوسٹس، نیوجرسی، ڈیلاویر، واشنگٹن، میری لینڈ، ہوائی مین، کنیکٹی کٹ اور ڈی سی کے 201 ووٹ پکے ہوتے ہیں۔ باقی سارا ہنگامہ، بھاگ دوڑ، خرچہ، تگ و دو اور پھڈا باقی بچ جانے والی تیرہ ریاستوں اوہائیو، فلوریڈا، آئیووا، کولوراڈو، نیواڈا، ایریزونا، مشیگن، وسکونسن، پنسلوینیا، ورجینیا، نیو ہیمپشائر، نارتھ کیرولینا اور جارجیا کے 173 ووٹوں کے ہوتا ہے۔ جو یہاں سے اپنے بقیہ ووٹ پورے کر لے وہ امریکہ کا صدر بن جاتا ہے۔ ریپبلکن اُمیدوار کو ان 173 ووٹوں میں سے 106 اور ڈیموکریٹ اُمیدوار کو محض 69 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔
ان تیرہ ریاستوں کے ایک 173ووٹوں میں بھی ایک 114ووٹ صرف چھ ریاستوں کے ہیں بقیہ سات ریاستوں کے پاس محض 59 ووٹ ہیں۔ اس حساب سے صرف فلوریڈا، پنسلوینیا، اوہائیو اور مشیگن کے ووٹ ہی ڈیموکریٹ اُمیدوار کو کامیاب کرنے کے لیے کافی ہیں۔ تاہم ہیلری کو محض 69ووٹ حاصل کرنے کے لیے دانتوں پسینہ آیا ہوا تھا۔ تاہم پھر وہی ہوا جس کے بارے میں شفیق اپنے شک کا اظہار کرتا تھا۔ ٹرمپ ان چالیس دنوں میں کچھ بھی کر سکتا ہے، جیت بھی سکتا ہے اور بدترین شکست سے دوچار بھی ہو سکتا ہے درمیان میں کوئی تیسرا سٹاپ نہیں ہے۔ آج الیکشن میں باقی ستائیس دن ہیں اور صورتحال مکمل تبدیل ہو چکی ہے۔ کئی ریپبلکن ممبران کانگرس اپنے صدارتی اُمیدوار کی حمایت سے دستبردار ہو چکے ہیں۔ خواتین آٹھ دس دن پہلے ہی ٹرمپ کے خلاف ہو چکی تھیں۔ یہ آج کی صورتحال ہے لیکن ابھی الیکشن میں ستائیس دن رہتے ہیں اور ستائیس دن صورتحال تبدیل کرنے کے لیے گوکہ کافی ہوتے ہیں مگر اب صورت حال کتنی بھی بہتر ہو جائے ٹرمپ کے لیے دوسو ستر ووٹ لینا محال ہیں۔
تبصرہ لکھیے