برادر عمار خان ناصر نے مسلم تاریخ میں خروج و کربلا جیسے ریاستی جبر کے واقعات کو شخص اعتباری کی عدم موجودگی کا نتیجہ قرار دیا ہے کہ چونکہ تقسیم اقتدار نہ ہونے کی بنا پر نظام کے اندر رہتے ہوئے انصاف حاصل کرنا ممکن نہ ہوتا تھا لہذا خروج کرنا پڑتا تھا اور ریاست کے پاس بھی ایسے لوگوں کو طاقت سے دبانے کے سوا کوئی راستہ نہ ہوتا تھا۔ ان کا خیال ہے کہ یورپ و امریکہ کے سیاسی نظریات و تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمانوں کو بھی جدید ریاستی تصور (شخص اعتباری) اور سٹرکچرز کو اپنانا چاہیے۔
عمار صاحب کی تحریر میں بہت سی چیزوں کو سادگی کے ساتھ پیش کر دیا گیا ہے جن کی طرف برادر مشتاق صاحب نے خاصی تفصیل سے اشارہ کیا ہے۔ سر دست اس چیز کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ ان کی تشخیص مسئلہ درست نہیں۔ نظام میں چیک اینڈ بیلنس کا شخص اعتباری سے براہ راست تعلق نہیں، حکمران کے اختیارات پر چیک اینڈ بیلنس اس کے بغیر بھی ممکن ہے اور تاریخی طور پر ایسا ہوا (برادر مشتاق کی پوسٹ میں اس کی طرف اشارے موجود ہیں)۔ پاکستان جیسے ملکوں میں شخص اعتباری بھی ہے اور یہ سب ”ادارتی تقسیم“ بھی موجود ہے مگر یہاں لاہور کے 18 مقتولوں کو انصاف نہیں مل رہا۔ اب رہی یہ بات کہ پھر پاکستان میں لوگ نظام سے باہر کیوں نہیں نکل رہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی سیاسی نظام کی بالاخر محافظ فوج ہوتی ہے۔ آج نظام سے فوج ہٹا کر دیکھیں تو معلوم ہوجائےگا کہ شخص اعتباری جھگڑے سے بچا پاتی ہے یا نہیں۔ آج صوبائی حکومتیں فوج نہیں رکھتیں ورنہ عمران خان و پرویز خٹک نواز شریف کو ہٹانے میں ایک منٹ نہ لگائیں۔ صوبائی حکومتوں کو فوج نہ رکھنے کہ اجازت اس لیے نہیں کیونکہ جدید ریاستی سٹرکچر کی میٹافزکس کے مطابق جبر (violence) پر صرف اور صرف نیشن سٹیٹ کو اجارہ داری حاصل ہے لہذا یہ اپنے سوا سب کو powerless کرتی ہے۔ جدید ریاستی سسٹم میں سٹیزن کی مساوات کا معنی یہی ہوتا ہے کہ ریاست کے سامنے سب یکساں طور پر ”پاور لیس“ ہیں۔
عمار صاحب کی تحریر میں یہ مفروضہ بھی کار فرما ہے کہ جدید سٹیٹ سٹرکچر اقتدار منتقل ہونے کا پرامن طریقہ فراہم کرتا ہے حالانکہ یہ غلط فہمی ہے، اس لیے کہ شخص اعتباری کے جدید نظام میں الیکشن کے بعد ”اقتدار“ منتقل نہیں ہوتا بلکہ حکومت بدل جاتی ہے۔ اقتدار کا منبع تو ریاست کا آئین ہے جسے بدلنے کے لیے آج بھی کشت و خون ہی کے راستے سے گزرنا پڑتا ہے اور یا پھر آئین میں ”بالکل بنیادی نوعیت“ کی تبدیلی کرنا پڑتی ہے جس کی عام طور پر اجازت نہیں ہوتی کیونکہ اس کی اصل محافظ فوج ہوتی ہے۔ چنانچہ مغربی مفکرین کا ترکی فوج سے یہی مطالبہ ہے کہ وہ سیکولر سٹیٹ کا تحفظ کرنے کی اپنی ذمہ ادا کرے۔
ایک قابل غور پہلو یہ بھی ہے کہ یہ جدید ریاستی نظم محض کوئی ”ساخت“ نہیں ہے جسے ہم جوں کا توں اپنا سکتے ہیں، تاریخی طور پر یہ ایک efficient (سرمائے میں اضافہ کرنے والے) سٹیٹ سٹرکچر قائم کرنے کا نظام ہے۔ ظاہر ہے ”ایفیشنسی“ ایک مستقل قدر ہے اور جدید سٹیٹ سٹرکچر میں اسی کی بنیاد پر احکامات اخذ کرتے اور نافذ کرتے ہیں۔ چنانچہ اس پہلو پر بھی غورکرنے کی ضرورت ہے کہ کیا اس قسم کا سٹیٹ سٹرکچر شرع کو نافذ کرنے کے لیے بھی سود مند ہوسکتا ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ انگریز نے برصغیر میں مسلمانوں کے تاریخی ریاستی اداروں کو بدل کر اپنے ادارے متعارف کروائے؟ کیا اس کی وجہ یہی تو نہیں کہ انگریز جانتا تھا کہ وہ تاریخی ادارے ”ایفیشنسی“ کے حصول میں مددگار نہیں؟
الغرض عمار صاحب کی تحریر میں جدید سٹیٹ کو جس طرز پر پیش کیا گیا ہے وہ سٹیٹ کا وہ چہرہ ہے جو لبرل مفکرین دکھاتے ہیں حالانکہ یہ سٹیٹ سٹرکچر نہ تو مطلق العنانیت سے نکلی ہوئی کوئی ارتقائی چیز ہے اور نہ ہی پاور کو ڈی سنٹرلائز کرنے کا نظام، یہ تو بذات خود ایک زبردست قاہرانہ مطلق العنانیت ہے جس کی نوعیت پر کسی دوسری پوسٹ میں گفتگو کی جائے گی۔
تبصرہ لکھیے