کفر کی ترویج اب ایمان کی نشانی بنتی چلی جا رہی ہے، جب تک آپ دو چار فرقوں کے ماننے والوں کے گال پر کفر کے فولاد میں لپٹے فتوے کا تھپڑ نہ رسید کردیں آپ کے ایمان کا سیاہ چہرہ سرخ ہو ہی نہیں سکتا۔ جنہوں نے کفر کی تنسیخ کرنے کے لیے ایمان کا منور چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا، وہ اب کفر کفر کی فتوی بازی میں محو ہو چکے ہیں۔ نیز آپ جتنے لوگوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیں گے، اسی طور آپ کا مؤمن ہونا مدلل ہوتا جائے گا۔
کوئی مولانا طارق جمیل پر فتوی زنی کرتا ہے، کوئی ذاکر نائیک کو کافر نائیک کہتا ہے، بریلوی خود کو ماورا مخلوق تصور کرتے ہیں، دیوبندی دوسروں کو گمراہ گردانتے ہیں، یعنی جس کا جہاں بس چلتا ہے وہ وہیں اپنے ایمان کی پٹاری کھول کے کفر کے ناگ کو اپنی ریا کاری کی بین پر نچوا کر کافر نامی تماشہ کرنے لگتا ہے۔ اور جو جو اس تماشے سے منہ پھیرتا ہے وہ کافر ہو جاتا ہے، شاید ہی کوئی خوش قسمت ہو جو کسی کے تئیں کافر نہ ہو۔
کفر جو گزرے وقتوں میں بہت بھاری چیز ہوا کرتا تھا اور جسے کسی پر عائد کرنے سے پہلے ہزار ہزار بار سوچا جاتا تھا، اج پھکّی کی اس پڑیا سا ہو چکا ہے جسے ہر بس میں ایک شخص دس دس روپے میں فروخت کر رہا ہوتا ہے۔ اس سراسیمگی میں اگر ”میں“ کافر ہوتا ہوں تو ”تو“ خود ہی کفر کے دائرے میں آ جاتا ہے اور اگر ”یہ“ کفر پر ثابت ٹھہرے تو ”وہ“ تو کافر ہونے سے کسی صورت بچ ہی نہیں سکتا۔ میں مؤمن اور تو کافر کی رٹ نے ہمیں ایمان سے تہی دست کردیا ہے۔
حدیث مبارکہ کی رو سے ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا آئینہ ہے یعنی اسے اپنے بھائی میں اگر کوئی برائی یا خامی نظر آئے تو اس کی اصلاح کرے جبکہ موجودہ وقت میں اس آئینہ کو صرف ایمان سے خارج صورت دکھانے کے لیے استعمال کیا جانے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امت نام کا نازک آئینہ ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو گیا ہے کیونکہ ہم نے آئینہ دکھانے کا غلط استعمال شروع کردیا ہے جس میں اصلاح کی جانب آتی راہ کا عکس دکھانا تھا، ہم نے اس میں دوزخ کی آتشیں مناظر بھر دیے ہیں۔ تبلیغ نرمی و جھکاؤ اور کردار مانگتی ہے، جب جب اس میں تلخی، اکڑ اور غوغا سرایت کر جائے تو اس کی تاثیر جاتی رہتی ہے۔
مسلمان آپس میں ریشم کی طرح نرم ہوتے ہیں نہ کی اپنی عبادتوں، ریاضتوں، تقوی اور زہد کو لے کر تکبر کا پہاڑ بن کر ویسا ہی سخت روپ دھار لیں۔ آج تو، تڑاک اور ڈنڈے سوٹوں سے دنیا تنگ آچکی ہے کیونکہ ان سے لگنے والے زخموں سے ابھی تک ٹیسیں اٹھ رہی ہیں۔ لہذا اب اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو مرہم کی، لوگ ڈنڈا برداروں کو بہت دیکھ چکے، اب ان طبیبوں کی ضرورت ہے جو ان پر مرہم رکھ سکیں۔ جو کافر کہنے کے بجائے مؤمن بنانے والے ہوں، کفر کا فتوی کس کر ہوا ہو جانے والوں کی طرح نظروں سے اوجھل نہ ہوں بلکہ سامنے رہ کر اس کفر کے خاتمے کی سعی کریں۔ صرف غلط راستے پر ہونے کا کہہ کر دھتکارتے ہوئے اپنی راہ نہ لیں بلکہ صحیح راستہ دکھا کر اس پر چلنے کا سلیقہ بھی سکھائیں،جو”میں حق پر ہوں“ کے تیروں کو سینوں سے نکال کر ”ہم حق پر ہوں گے“ کی تفسیر بنیں۔ اسی طرح اس کفرِ نارسا کا خاتمہ ممکن ہے ورنہ اس ایمان کے سراب کو لے کر جو تبلیغ ہم نے شروع کر رکھی ہے، اس کی ترویج صرف ”کفر“ کو فروغ دے گی اور ایمان کی تنسیخ کر کے کسی ”میں“ یا ”تو“ کی نہیں بلکہ ”ہم“ کی تسخیر کردے گی جس کے بعد معاشرہ تو مسلمانوں کا ہوگا لیکن نظر سب کے سب کافر آئیں گے۔ لہذا ہمیں ”میں“ کے کنویں سے نکل کر”ہم“ کے سمندر میں اترنا ہوگا۔ ویسے بھی اس ”میں میں“ کے ڈنکے بہت بج چکے اب ”ہم ہم“ کی اذان دینا ہوگی تب ہی یہ کفر ٹوٹے کا اور ایمان دوام گیر ہوگا۔
تبصرہ لکھیے