ہوم << غزوہ سِندھ و ہِند، نبوی پیشین گوئیوں کی روشنی میں - ڈاکٹر عصمت اللہ

غزوہ سِندھ و ہِند، نبوی پیشین گوئیوں کی روشنی میں - ڈاکٹر عصمت اللہ

غزوہ ہند و سندھ اسلامی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے، اس کا آغاز خلفائے راشدین کے عہد سے ہوا جو مختلف مراحل سےگذرتا ہوا آج 2016ء میں بھی جاری ہے اور مستقبل میں اللہ بہتر جانتا ہے کہ کب تک جاری رہےگا۔ اس کی دینی بنیادوں پر غور کریں تو حقیقت یہ ہے کہ ایک لحاظ سے غزوہ ہند، نبوی غزوات و سرایا میں شامل ہے، ہماری نظر میں نبوی غزوات کی بلحاظِ زمانہ وقوع دو بڑی قسمیں ہیں:
۱) غزواتِ ثابتہ یا واقعہ: یعنی وہ جنگیں جو رسول اکرم ﷺ کی زندگی میں، وقوع پذیر ہو چکیں، سیرت نگاروں اور محدثین کی اصطلاح میں ان غزوات کی دو قسمیں ہیں:
غزوہ: وہ معرکہ جس میں آپ ﷺ نے بذاتِ خود شرکت فرمائی اور جنگ میں صحابہ کی کمان اور قیادت کی۔ تعداد کے اعتبار سے تقریبا 27 ایسی جنگیں ہیں جن میں نبیﷺ نے بذاتِ خود شرکت فرمائی۔ (۱)
سریہ: محدثین اور سیرت نگاروں کی اصطلاح میں وہ جہادی مہمات جن میں آپ نے بذاتِ خود شرکت نہیں فرمائی بلکہ کسی صحابی کو قیادت کے لیے متعین فرمایا، سریہ کہلاتی ہیں، اور کتبِ حدیث و سیرت میں تفصیلی تذکرہ موجود ہے.
زمانی تقسیم کے لحاظ سے یہ دونوں قسمیں غزواتِ واقعہ کے ذیل میں آتی ہیں۔
۲) غزواتِ موعودہ: اس قسم میں وہ سب جنگیں اور غزوات شامل ہیں جو نبی اکرم ﷺ کی وفات کے بعد آپ کی بشارت اور پیشین گوئی کے نتیجہ میں وقوع پذیر ہوئیں، یا مستقبل میں کسی وقت وقوع پذیر ہوں‌گی۔
غزواتِ موعودہ کی مثال نبی اکرم ﷺ کی وہ پیشین گوئی ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت سے قبل تم چھوٹی آنکھوں، سرخ چہروں، اور چپٹی ناک والے ترکوں سے جنگ کروگے‘ ان کے چہرے گویا تیر زدہ ڈھالیں ہیں (۲)
غزواتِ موعودہ کی ایک اور مثال فتحِ قسطنطینیہ کی نبوی پیشن گوئی ہے، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت سے قبل یہ واقعہ ضرور پیش آئے گا کہ اہلِ روم اعماق یا دابق (۳) کے قریب اتریں گے تو ان سے جہاد کے لیے روئے زمین پر اُس وقت کے بہترین لوگوں پر مشتمل ایک لشکر مدینہ منورہ سے نکلے گا، جنگ کےلیے صف بندی کے بعد رومی کہیں گے: ہمارے مقابلہ کے لیے ان لوگوں کو ذرا آگے آنے دیجیے جو ہماری صفوں سے آپ کے ہاتھوں قیدی بنے، اب وہ آپ کی جانب سے ہمیں قید کرنے کی نیت سے آگئے ہیں، ہم ان سے خوب نمٹ لیں گے، مسلمان جواباً ان سے کہیں گے: بخدا ہم اپنے بھائیوں کو تمھارے ساتھ اس لڑائی میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتے، اس کے بعد جنگ ہوگی جس میں ایک تہائی مسلمان شکست خوردہ ہو کر پیچھے ہٹ جائیں گے، اللہ تعالی ایسے لوگوں کی توبہ ہرگز قبول نہیں فرمائےگا۔ ایک تہائی لڑ کر شہادت کا درجہ حاصل کریں گے، یہ لوگ اللہ تعالی کے ہاں افضل ترین شہداء کا مقام پائیں گے۔ باقی ایک تہائی مسلمانوں کو اللہ تعالی فتح سے ہمکنار فرمائیں گے، ان کو آئندہ کسی آزمائش سے دوچار نہیں کیا جائے گا، یہی لوگ قسطنطینیہ کو آخری مرتبہ فتح کریں گے۔ (۴)
نبوی غزوات میں سرکارِ دو عالم کی قیادت میں کفار کے خلاف جہاد میں شرکت کے لیے صحابہ کرام بے پناہ شوق اور جذبہ رکھتے تھے، ایسا شوق، سچے ایمان کا تقاضا اور حقیقی حب رسول ﷺ کی علامت تھی۔ لیکن نبی اکرم ﷺ کے مبارک عہد کے بعد جب آپ کی قیادت میں جہاد کی سعادت حاصل کرنے کا موقع باقی نہ رہا تو سلفِ صالحین ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے تھے کہ کم از کم آپ کی پیشین گوئی والے معرکہ میں شرکت کی سعادت ضرور حاصل کرسکیں۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ کے عم زاد اور سالے، مشہور تابعی کمانڈر حضرت مسلمۃ بن عبد الملک بن مروان کے بارے میں کتبِ حدیث و تاریخ میں نقل ہوا ہے۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ حضرت عبداللہ بن بِشر بن سحیم الخثعمی، الغنوی رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت بِشر ؓ سے ایک حدیث بیان کرتے تھے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے سنا کہ: قسطنطینیہ کا شہر ضرور فتح ہوگا‘ اس فاتحانہ مہم کا امیرِ لشکر بہترین امیر اور لشکرِ مجاہدین بہترین لشکر ہوگا‘‘۔ (ملاحظہ ہو: مسند احمد ۴/۲۳۵ مسند بِشر بن سحیم الخثعمی:۱۸۱۸۹‘ المستدرک علي الصحیحین للحاکم۴/۴۶۸ ‘ حدیث:۸۳۰۰‘ الاِصابۃ ۱/۳۰۸‘ ترجمہ نمبر:۶۵۸) یہ حدیث حضرت مسلمۃ بن عبدالملک کے علم میں آئی تو انہوں نے اس کے راوی حضرت عبد اللہ بن بِشر کو بلوا بھیجا، حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں کہ جب میں ان سے ملا تو انہوں نے مجھ سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو میں نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے ان کو یہ حدیث سنائی، چنانچہ انہوں نے مجھ سے یہ حدیث سننے کے بعد قسطنطینیہ پر چڑھائی کا فیصلہ کیا۔
احادیثِ غزوہ ہند میں امام بیہقی نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کی جو روایت نقل کی ہے، اس میں حضرت اِمام ابواِسحاق فزاری کا قول نقل کیا ہے کہ جب انہوں نے یہ حدیث سنی تو ابنِ داؤد سے اپنی اس خواہِش کا اظہار کیا: کاش کہ مجھے رومیوں کے ساتھ جنگ و جہاد میں گذری ساری عمر کے بدلے میں ہندوستان کے خلاف نبوی پیشین گوئی کے مطابق کسی ایک جِہادی مہم میں حصہ لینے کا موقع مل جاتا‘‘۔ اِمام ابواِسحاق فزاری رحمہ اللہ کی اس تمنا کی عظمت کا اندازہ ان کے مناقب کے ضمن میں، حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ تعالی کے اس خواب سے لگایا جا سکتا ہے جو امام ذہبی نے سیر أعلام النبلاء میں نقل کیا ہے۔ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ نبیﷺ کی مجلس لگی ہوئی ہے، اور آپ کے پہلو میں ایک نشست خالی ہے تو میں نے ایسے موقع کو نادر اور غنیمت سجھتے ہوئے اس پر بیٹھنے کی کو شش کی تو نبیﷺ نے یہ کہتے ہوئے منع فرما دیا کہ یہ نشست خالی نہیں بلکہ ابواِسحاق فزاری کے لیے مخصوص ہے. (۵)
غزوہ سندھ و ہِند کے متعلق نبوی پیشین گوئی
غزوہ ہند و سندھ بھی نبیﷺ کے غزواتِ موعودہ کی ذیل میں آتا ہے اور اس کی بشارت، پیشین گوئی اور فضیلت کے متعلق نبی کریم ﷺ سے متعدد احادیث مروی ہیں۔ اہلِ علم و فضل ان احادیث کا تذکرہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں ضرور کرتے رہتے ہیں لیکن عام طور پر کسی حوالہ کے بغیر، ہم نے مقدور بھر محنت کرکے بےشمار کتب و مصادرِ حدیث کو کھنگالا، ان احادیث کو تلاش کیا، ترتیب دے کر ان کا درجہ بلِحاظ صحت و ضعف معلوم کیا، ان ارشاداتِ نبویہ کے معانی و مفاہیم پر غور و فکر کیا اور ان سے ملنے والے اشارات و حقائق اور پیشین گوئیوں کو قرطاس پر منتقل کیا، اب ہم اپنی اس محنت کے نتائج سب مسلمان بھائیوں کی خدمت میں بالعموم اور برصغیر نیز کشمیر کے مسلمانوں کی خدمت میں بالخصوص پیش کرتے ہوئے یک گونہ خوشی اور مسرت محسوس کرتے ہیں۔
ہماری معلومات کے مطابق ایسی احادیث نبویہ کی تعداد پانچ ہے جن کے راوی تین جلیل القدر صحابہ کرام حضرت ابو ہریرہ، جن سے دو حدیثیں مروی ہیں، حضرت ثوبان اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہم اجمعین اور تبع تابعین میں سے حضرت صفوان بن عمرو رحمہ اللہ تعالی ہیں۔
ذیل میں ہم ان شاء اللہ تعالیٰ ان سب احایث کو ذکر کریں گے، پھر ان کی علمی تخریج (ان کتبِ حدیث اور محدثین کا حوالہ جنہوں نے ان کا تذکرہ کیا ہے) کے بعد ان سے استنباط شدہ شرعی احکام اور فوائداور دروس کو بیان کریںگے۔
(ا) حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
سب سے پہلی حدیث حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
[pullquote] حدثنی خلیلی الصادق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أنہ قال: یکون فی ھذہ الأمۃ بعث إلی السند والہند فان انا اادرکتہ فاستشھدت فذلک وان انا رجعت وانا ابوھریرۃ المحرر قد أعتقنی من النار[/pullquote] ان الفاظ کے ساتھ اس حدیث کو صرف امام احمد بن حنبل نے مسند میں روایت کیا ہے اور ابن کثیر نے انھی کے حوالے سے البدایۃ و النہایۃ میں نقل کی ہے۔ (۶) قاضی احمد شاکر نے مسند احمد کی شرح و تحقیق میں اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔ (۷)
(ترجمہ) میرے جگری دوست رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے بیان کیا اور فرمایا: اس امت میں سِندھ و ہند کی طرف (لشکروں کی) روانگی ہوگی، اگر مجھے ایسی کسی مہم میں شرکت کا موقع ملا اور میں (اس میں شریک ہو کر) شہید ہو گیا تو ٹھیک، اگر (غازی بن کر) واپس لوٹ آیا تو میں ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا جسے اللہ تعالیٰ نے جہنم کی آگ سے آزاد کر دیا ہوگا۔
امام نسائی رحمہ اللہ نے اسی حدیث کو اپنی کتاب السنن المجتبی اور السنن الکبری دونوں میں مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
[pullquote]وعدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۃ الھند فان ادرکتھا انفق فیھا نفسی و مالی فان اقتل کنت من اافضل الشھداء وان ارجع فانا ابوہریرۃ المحرر (۸)[/pullquote] (ترجمہ) نبی کریم ﷺ نے ہم سے غزوہ ہند کا وعدہ فرمایا۔ اگر مجھے اس میں شرکت کا موقع مل گیا تو میں اپنی جان و مال خرچ کر دوں گا، اگر قتل ہوگیا تو میں افضل ترین شہداء میں شمار ہوں گا، اور اگر واپس لوٹ آیا تو ایک آزاد ابو ہریرہ ہوں گا۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی السنن الکبری میں یہی الفاظ نقل کیے ہیں۔ انہی کی ایک دوسری روایت میں یہ اضافہ بھی ہے۔ مسدد نے ابن دائود کے حوالہ سے ابواسحاق االفزاری (ابراھیم بن محمد، محدثِ شام اور مجاہد عالم، وفات ۱۸۶ہجری) کے متعلق بتایا کہ وہ کہا کرتے تھے: [pullquote]وددت أنی شھدت ماربد بکل غزوہ غزوتھا فی بلاد الروم[/pullquote] (میری خواہش ہے کہ کاش ہر اس غزوہ کے بدلے میں، جو میں نے بلا دروم میں کیا ہے، ماربد(عرب سے ہندوستان کی سمت مشرق میں کوئی علاقہ) میں ہونے والے غزوات میں شریک ہوتا۔ (۹) امام بیہقی نے یہی روایت دلائل النبوۃ میں بھی ذکر کی ہے۔ (۱۰) اور انہیں کے حوالہ سے اس روایت کو امام سیوطی نے الخصائص الکبری میں نقل کیا ہے۔ (۱۱)
مزید برآں اس حدیث کو مندرجہ ذیل محدثین نے تھوڑے سے لفظی فرق کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام احمد نے، مسند میں بایں الفاظ [pullquote](فان استشھد ت کنت من خیر الشھداء)[/pullquote] شیخ احمد شاکر نے اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے (۱۲) امام احمد کی سند سے ابن کثیر نے اسے البدایۃ والنہایۃ میں نقل کیا ہے۔ (۱۳)
ابونعیم اصفھانی نے حلیۃ الأولیاء میں (۱۴)، امام حاکم نے المستدرک علی الصحیحین میں روایت کرکے درجہ حدیث کے متعلق سکوت اختیار کیا اور امام ذھبی نے اس کو اپنی تلخیصِ مستدرک سے حذف کردیا۔ (۱۵)
سعید بن منصور نے اپنی کتاب السنن میں، (۱۶) خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں، (۱۷) امام بخاری کے استاذ نعیم بن حماد نے الفتن میں، (۱۸) ابن ابی عاصم نے اپنی کتاب الجہاد میں، اور اس کی سند حسن ہے(۱۹)، ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب العلل میں (۲۰)، ان کے علاوہ آئمہ جرح و تعدیل میں سے امام بخاری نے التاریخ الکبیر(۲۱) میں، امام مزی نے تہذیب الکمال میں(۲۲) اور ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں اس حدیث کو روایت کیا ہے (۲۳)، درجہ کے لحاظ سے یہ حدیث مقبول، یعنی صحیح یا حسن ہے جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں۔
۲۔ حضور ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی حدیث
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میری امت میں دو گروہ ایسے ہوں گے جنھیں اللہ تعالی نے آگ سے محفوظ کردیا ہے، ایک گروہ ہندوستان پر چڑھائی کرے گا، اور دوسرا گروہ جو عیسی ابن مریم کے ساتھ ہوگا۔
انہی الفاظ پر اتفاق کے ساتھ یہ حدیث درج ذیل محدثین نے روایت کی ہے:
امام احمد نے مسند میں، (۲۴) امام نسائی نے السنن المجتبی میں، شیخ ناصر الدین البانی نے اس حدیث کو صحیح قراردیا ہے(۲۵) اسی طرح السنن الکبری میں بھی (۲۶) ابن ابی عاصم نے کتاب الجہاد میں سندِ حسن کے ساتھ (۲۷)، ابن عدی نے الکامل فی ضعفاء الرجال میں (۲۸)، طبرانی نے المعجم الاوسط میں (۲۹)، بیہیقی نے السنن الکبری میں (۳۰)، ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں (۳۱) ، امام دیلمی نے مسند الفردوس میں (۳۲)، امام سیوطی نے الجامع الکبیر میں اور امام مناوی نے الجامع الکبیر کی شرح فیض القدیر میں (۳۳)، امام بخاری نے التاریخ الکبیر میں (۳۴)، امام مزِّی نے تہذیب الکمال میں (۳۵) اور ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں (۳۶)۔
۳۔ حضرت ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ کی دوسری حدیث
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ہندوستان کا تذکرہ کیا اور ارشاد فرمایا:
ضرور تمھارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا، اللہ ان مجاہدین کو فتح عطا فرمائےگا حتی کہ وہ (مجاہدین ) ان (ہندوؤں ) کے بادشاہوں کو بیٹریوں میں جکڑ کر لائیں گے اور اللہ (اس جہاد عظیم کی برکت سے) ان (مجاہدین) کی مغفرت فرما دے گا، پھر جب وہ واپس پلٹیں گے تو عیسیٰ ابن مریم کو شام میں پائیں گے۔
حضرت ابوہریرۃ نے فرمایا: اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنا نیا اور پرانا سب مال پیچ دوں گا اور اس میں شرکت کروں گا، پھرجب اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطا کر دی اور ہم واپس پلٹ آئے تو میں ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا جو ملک شام میں (اس شان سے) آئے گا کہ وہاں عیسی ابن مریم کو پائےگا۔ یارسول اللہ! اس وقت میری شدید خواہش ہوگی کہ میں ان کے پاس پہنچ کر انہیں بتائوں کہ میں آپ ﷺ کا صحابی ہوں، (راوی کا بیان ہے کہ) حضور ﷺ مسکرا پڑے اور ہنس کر فرمایا: بہت مشکل، بہت مشکل۔
اس حدیث کو نعیم بن حماد نے اپنی کتاب ’’الفتن‘‘ میں روایت کیا ہے(۳۷)
اسحاق بن راہویہ نے بھی اس حدیث کو اپنی مسند میں ذکر کیا ہے، اس میں کچھ اہم اضافے ہیں، اس لیے ہم اس روایت کو پیش کررہے ہیں۔
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہندوستان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: بالیقین تمھارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا اور اللہ ان مجاہدین کو فتح دے گا حتی کہ وہ سند ھ کے حکمرانوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے، اللہ ان کی مغفرت فرما دے گا۔ پھر جب وہ واپس پلٹیں گے تو عیسیٰ ابن مریم کو شام میں پائیں گے۔ ابوہریرہؓ بولے: اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنا نیا اور پرانا سب مال بیچ کر اس میں شرکت کروں گا، جب ہمیں اللہ تعالیٰ فتح دے دے گا تو ہم واپس آئیں گے اور میں ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا جو شام میں آئےگا تو وہاں عیسیٰ ابن مریم سے ملاقات کرے گا۔ یا رسول اللہ اس وقت میری شدید خواہش ہوگی کہ میں ان کے قریب پہنچ کر انہیں بتائوں کہ مجھے آپ کی صحبت کا شرف حاصل ہے (راوی کہتا ہے کہ) رسول اللہ ﷺ یہ سن کر خوب مسکرائے۔ (۳۸)
۴۔ حدیث حضرت کعب رضی اللہ عنہ
یہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث ہے، وہ فرماتے ہیں کہ:
بیت المقدس کا ایک بادشاہ ہندوستان کی جانب ایک لشکر روانہ کرے گا جو اسے فتح کرے گا، مجاہدین سرزمین ہند کو پامال کر ڈالیں گے، اس کے خزانوں پر قبضہ کر لیں گے، پھر وہ بادشاہ ان خزانوں کو بیت المقدس کی تزئین و آرائش کے لیے استعمال کرے گا۔ وہ لشکر ہندوستان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر اس بادشاہ کے روبرو پیش کرے گا، اس کے مجاہدین، بادشاہ کے حکم سے مشرق و مغرب کے درمیان کا سارا علاقہ فتح کرلیں گے اور دجال کے خروج تک ہندوستان میں قیام کریں گے۔
اس روایت کو نعیم بن حماد استاذِ امام بخاری نے اپنی کتاب ’’الفتن‘‘ میں نقل کیا ہے۔ اس میں حضرت کعب سے روایت کرنے والے راوی کا نام نہیں ہے بلکہ ’’المحکم بن نافع عمن حدثہ عن کعب‘‘ کے الفاظ آئے ہیں، اس لیے یہ حدیث منقطع شمار ہوگی(۳۹)
۵۔حضرت صفوان بن عمرو رحمہ اللہ کی حدیث
پانچویں حدیث حضرت صفوان بن عمرو رحمہ اللہ سے مروی ہے۔ اور حکم کے لحاظ سے مرفوع کے درجہ میں ہے۔ کہتے ہیں کہ انہیں کچھ لوگوں نے بتایا کہ نبیﷺ نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ ہندوستان سے جنگ کریں گے، اللہ تعالیٰ ان کو فتح عطا فرمائےگا حتی کہ وہ ہندوستان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑے ہوئے پائیں گے، اللہ ان مجاہدین کی مغفرت فرمائے گا، جب وہ شام کی طرف پلٹیں گے تو عیسیٰ ابن مریم کو وہاں موجود پائیں گے۔
اس حدیث کو امام نعیم بن حماد نے ’’الفتن‘‘ میں روایت کیا ہے۔(۴۰)
الحمد للہ ہم نے اللہ کریم کی توفیق و عنایت سےغزوہ سِندھ و ہند سے متعلق جملہ احادیث کو آپ کے سامنے پیش کر دیا ہے، اب ہم ان احادیث مبارکہ کے معنی و مفہوم، اشارات و دروس پر ایک نظر ڈالیں گے۔
غزوہ سِندھ و ہند کے متعلق نبوی ہدایات و اشارات پر ایک نظر
یہ پانچوں احادیث، جن کے مآخذ، صحت وضعف کے اعتبار سے علم حدیث میں ان کا مقام پہلے بیان کرچکے ہیں، ان میں سچی پیش گوئیاں، بلند علمی نکات اور بہت سے اہم، ماضی و مستقبل کے حوالے سے واضح اشارات موجود ہیں، جن میں عام مسلمانوں کے لیے بالعموم اور برصغیر کے مسلمانوں کے لیے بالخصوص خوشخبریاں اور بشارتیں پائی جاتی ہیں۔ لیکن ان بشارتوں اور خوشخبریوں کی حلاوت و لذت کو وہی لوگ پوری طرح محسوس کرسکتے ہیں جنہیں اللہ تعالی نے کسی نہ کسی انداز سے اس مبارک نبوی غزوہ میں شریک ہونے کی سعادت بخشی ہے۔ ذیل میں ہم ان تمام اسباق و نکات کا بالترتیب ذکر کریں گے جو ان احادیث سے مستنبط کیے گئے ہیں۔
۱۔ نبی کریم ﷺ کی محبت ایمان کی شرط اوّل ہے
ان احادیث میں نبی کریم ﷺ کی محبت کا بیان ہے جو حضرت ابوہریرۃ کے الفاظ ’’حدثنی خلیلی‘‘ سے مترشح ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کی محبت ایمان کا اوّلین تقاضا، اس کی دلیل، اس کی علامت اور اس کا ثمرہ ہے، محض محبت بھی کافی نہیں بلکہ ایسی والہانہ محبت چاہیے کہ ایک مؤمن کی نظر میں نبی اکرم کی ذات گرامی کائنات کی ہر چیز سے بلکہ اس کی اپنی جان سے بھی زیادہ اسے محبوب ہوجائے۔ یہی مضمون حضرت انس کی حدیث میں وارد ہوا ہے جس میں آپؐ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے، اس کے ماں باپ اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب اور پیارا نہ ہوجاؤں۔
عبداللہ بن ہشام سے روایت ہے کہ ہم ایک موقع پر حضور صلی اللہ کے ساتھ تھے، آپ ؐ نے حضرت عمر کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا کہ حضرت عمر بولے یارسول اللہ! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں سوائے اپنی جان کے، حضورؐ نے فرمایا: نہیں عمر! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، جب تک میں تمہیں تمہاری اپنی جان سے بھی بڑھ کر محبوب نہ ہوجاؤں (تمہارا ایمان مکمل نہ ہوگا)، اس پر حضرت عمر نے کہاکہ اب آپ خدا کی قسم مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ یہ سن کر حضورؐ نے فرمایا: اب بات بنی ہے عمر!!
۲۔ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ صحابہ کرام کی والہانہ محبت
ان احادیث میں آنحضرتؐ کے ساتھ صحابہ کرام کی الفت و محبت کا احوال بھی بیان ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کو آپؐ کے ساتھ والہانہ عقیدت اور بے پناہ محبت تھی اور وہ اس محبت اور تعلق پر فخر کیا کرتے تھے اور اپنی گفتگو میں اور خصوصاً احادیث روایت کرتے وقت اس قلبی تعلق کا مختلف انداز سے اظہار کرکے خوشی محسوس کرتے تھے۔ اور یہ محض ایک زبانی دعویٰ ہی نہیں تھا بلکہ ان کی تمام عملی زندگی میں اس محبت اور چاہت کے واضح اور نمایاں اثرات نظر آتے تھے۔ حتی کہ عروہ بن مسعود ثقفی نے صلح حدیبیہ کے موقع پر جب اس والہانہ عشق کا مظاہر دیکھا تو وہ بھی اس حقیقت کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکا کہ محمد کے ساتھی ان سے جس طرح کی محبت کرتے ہیں وہ ہمیں دنیا کے کسی شاہی دربار میں نظر نہیں آئی۔
۳۔ صحابہ کرام کو نبی کریم ﷺ کی سچائی پر پختہ یقین تھا
ان احادیث مبارکہ میں یہ چیز بھی نظر آتی ہے کہ صحابہ کرام کو آنحضرت کی ہر بات اور ہر خبر کے سچا ہونے کا اٹل یقین تھا خواہ وہ ماضی کے متعلق ہو یا مستقبل کے حوالے سے، خواہ اس کا ذریعہ وحی الہی ہو یا کچھ اور، یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام نے اس قسم کی خبریں اور پیشین گوئیاں صرف روایت و نقل کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہیں ایک ہونی شدنی حقیقت جان کر اپنے دلوں میں آرزوئیں پالتے رہے، اللہ تعالی سے دعائیں کرتے رہے، انہیں غزوہ ہند اور غزوہ سندھ میں شریک ہونے کی سعادت عطا فرمائے۔
۴۔ سندھ کا وجود
حدیث ابوہریرۃ ؓ اس بات کی دلیل ہے کہ حضورؐ کے زمانے میں ایک ایسا خطہ ارض دنیا میں موجود تھا جسے سندھ (تقریبا موجودہ پاکستان) کے نام سے جانا جاتا تھا۔
۵۔ ہندوستان کا وجود
اسی طرح اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عہد رسالت میں روئے زمین پر ایک ایسا ملک بھی موجود تھا جسے ہند کہا جاتا تھا۔
۶۔ سندھ سرزمین عرب کے پڑوس میں اور اس پر چڑھائی غزوہ ہند سے پہلے ہوگی. یہ حدیث جس میں غزوہ سندھ و ہند کا ذکر آیا ہے، اس میں یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ سندھ کا علاقہ عرب کے پڑوس میں واقع ہے نیز یہ کہ عزوہ سندھ غزوہ ہند سے پہلے ہوگا۔
۷۔ سندھ اور ھند پر کفار کا قبصہ
مزید یہ کہ عہد رسالت مآبؐ میں سندھ اور ہند دو ایسے خطوں کے طور پر معروف تھے جن پر کفار کا قبضہ اور تسلط تھا اور زمانہ نبوت کے بعد بھی ایک عرصہ تک باقی رہا، جبکہ ہندوستان پر مزید، غیرمعلوم مدت تک ان کا قبضہ برقرار رہنے کا امکان ہے.
۸۔ نبی کریم ﷺ ان حقائق سے آگاہ تھے
ان احادیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضورؐ ان تمام حقائق سے آگاہ اور واقف تھے خواہ اس کا ذریعہ وحی الہی ہو یا تجارتی تعلقات یا دونوں ہوں، یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے جاسوسوں اور خفیہ انٹیلی جنس کے ذریعے آپ نے یہ معلومات حاصل کی ہوں کیوں کہ عزوات میں آپ یہ طریقہ کار اختیار کیا کرتے تھے۔ اگرچہ پہلے دو احتمال زیادہ قرین قیاس ہیں لیکن تیسرا احتمال بھی ناممکن نہیں ہے لیکن اس کے لیے ہمارے پاس کوئی منقولی دلیل نہیں ہے۔
۹۔ دونوں ملکوں کی تاریخ
ان احادیث میں ان دونوں ممالک (سندھ اور ہندوستان) میں مستقبل میں پیش آنے والے بعض تاریخی واقعات کا حوالہ ہے اس کے ساتھ یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ آئندہ زمانے میں مسلمان ان ممالک سے جنگ کریں گے۔
۱۰۔غیب کی خبریں، پیشین گوئیاں
سندھ اور ہندوستان کی طرف ایک اسلامی لشکر کی روانگی اور جہاد اور پھر کامل فتح کی بشارت کی شکل میں ان احادیث میں مستقبل بعید کی خبر اور پیش گوئی بھی موجود ہے۔
۱۱۔ رسالت محمدیؐ کی حقانیت کا ثبوت
مخبر صادقؐ کی پیش گوئی آج ایک حقیقت بن چکی ہے۔ خلافت راشدہ اور پھر خلافت امویہ اور عباسیہ کے ادوار میں غزوہ ہند کی شروعات ہوئیں اور پھر ہندوستان پر انگریزی راج کے دوران بھی یہ جہاد جاری رہا، اور آج تقسیم ہند کے بعد بھی جاری ہے اور ان شاء اللہ اس وقت تک جاری رہےگا جب تک کہ مجاہدین سرزمین ہند سے کفار کا قبضہ و تسلط ختم کرکے، ان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکر کر خلیفۃ المسلمین کے سامنے نہ لے آئیں۔ ان میں سے بعض واقعات کا حدیث نبوی کے مطابق پیش آجانا حضرت محمد ﷺ کی نبوت کی صداقت کی دلیل ہے۔
۱۲۔ بیت المقدس کی بازیابی اور مسجد اقصی کی آزادی کی بشارت
ان احادیث میں غزوہ ہند اور فتح بیت المقدس دونوں واقعات کو مربوط انداز میں ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ بیت المقدس کا مسلمان حاکم ایک لشکر روانہ کرے گا جسے اللہ تعالی ہندستان پر فتح عطا فرمائے گا۔ اس میں پوری امت مسلمہ کے لیے بیت المقدس کی آزادی اور مسجد اقصی کی بازیابی کی بشارت عظمی ہے، اور یہ پیش گوئی بھی موجود ہے کہ اس غزوہ کے دوران مجاہدین ہند اور مجاہدین فلسطین کے مابین زبردست رابطہ اور باہمی تعاون موجود ہوگا۔ اس سے یہ حقیقت ازخود واضح ہوجاتی ہے کہ ہندوستان کے بت پرست اور سرزمین معراج پر قابض یہودی عالم اسلام کے مشترک اور بدترین دشمن ہیں، آپسی رابطے میں ہیں، انہیں ہندوستان اور فلسطین کے مسلم علاقوں سے بےدخل کرنا واجب ہے۔
۱۳ جہاد تا قیامت جاری رہے گا
ان احادیث میں غزوہ اور جہاد کو کسی خاص زمانے اور خاص وقت کے ساتھ مقید نہیں کیا گیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ جہاد آخر زمانے تک جاری رہے گا حتی کہ سیدنا عیسی ابن مریم آسمانوں سے اتر کر دجال کو قتل کردیں گے، اور یہ بات صحیح اجادیث سے ثابت ہے کہ دجال اعظم کے اکثر پیروکار یہودی ہوں گے۔
۱۴۔ جہاد دفاعی بھی ہے اور اقدامی بھی
یہ پانچوں احادیث اس پر واضح طور پر دلالت کر رہی ہیں کہ غزوہ ہندوستان میں جہاد صرف دفاع تک محدود نہیں ہوگا بلکہ اس میں حملہ آوری اور پیش قدمی ہوگی اور دارالکفر کے اندر گھس کر کفار سے جنگ کی جائے گی۔ غزوہ اور بعث کے دنوں الفاظ اس باب میں صریح ہیں۔ غزوہ کا لغوی مفہوم اقدامی جنگ ہے۔ جنگ دو طرح کی ہوتی ہے اوّل دعوتی و تہذیبی جنگ، دوم عسکری و فوجی جنگ، اور اسلام کی نظر میں دونوں طرح کی جنگ مطلوب ہے، یہ دونوں قسم کا جہاد پہلے بھی ہوا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا، البتہ مذکورہ احادیث میں جس غزوہ اور جنگ کی پیش گوئی کی گئی ہے اس سے مراد عسکری اور فوجی جہاد ہے۔ واللہ اعلم
۱۵۔ دشمنوں کی پہچان
ان احادیث میں اسلام اور مسلمانوں کے دو بدترین دشمنوں کی پہچان کرائی گئی ہے، ایک بت پرست ہندو اور دوسرے کینہ پرور یہودی۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ حضورؐ نے غزوہ ہند اور سندھ کا ذکر فرمایا اور ظاہر ہے کہ غزوہ اور جہاد صرف کفار کے خلاف ہی ہوسکتا ہے اور آج ہندوستان میں حکمران کفار، بت پرست ہندو ہیں اور حدیث ثوبان ؓ میں یہ بیان ہوا ہے کہ سیدنا عیسی ابن مریم اور ان کے ساتھی دجال اور اس کے یہودی رفقاء کے خلاف لڑیں گے۔ اس طرح گویا ایک طرف حدیث میں کفر اور اسلام دشمنی کی قدر مشترک کی بنا پر یہود و ہنود کو ایک قرار دے دیا گیا اور دوسری طرف مسلم اور مجاہد فی سبیل اللہ کی قدر مشترک کی وجہ سے مجاہدین ہند اور سیدنا عیسی اور ان کے اصحاب کو ایک ثابت کردیا گیا۔
۱۶۔نبوی اور صحابہ کرام کی مجالس میں ہندوستان کا تذکرہ
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمؐ اور صحابہ کرام ؓ اپنی مجلسوں میں ہندوستان کا تذکرہ فرمایا کرتے تھے اور یہ تذکرہ اکثر ہوا کرتا تھا۔ اور ظاہر ہے کہ یہ تذکرہ صرف جہاد اور غزوہ کے ضمن میں ہی ہوتا ہوگا نہ کہ سفر تجارت یا سیروسیاحت کی غرض سے۔
۱۷۔غزوہ ہندوستان کے بارے میں حضورؐ کی نیت و آرزو
نبی کریمؐ اور ان کے صحابہ کرام چونکہ اکثر اوقات غزوہ ہند کا تذکرہ کیا کرتے تھے لہذا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آنحضرت ؐ اور آپ کے صحابہ اس غزوہ میں شرکت کے آرزو مند تھے اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے اس سلسلے میں غور و فکر کرکے اس کے لیے کوئی ابتدائی منصوبہ بندی بھی کی ہو اور اپنے صحابہ کو اس کی رغبت بھی دلائی ہو۔
۱۸۔ غزوہ ہندوستان نبی ﷺ کا وعدہ ہے
حدیث میں دو الفاظ آئے ہیں (۱) وعدنی مجھ سے وعدہ کیا (۲) وعدنا ہم سے وعدہ کیا۔ اور وعدہ سے مراد کسی عمل خیر کا وعدہ ہے اور وعدے میں نیت اور ارادہ لازماً پائے جاتے ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں غزوہ ھند کی نیت اور قصد موجود تھا اور آپ ھندوستان پر چڑھائی کا ارادہ رکھتے تھے۔ آپؐ نے اپنا یہ ارادہ کبھی فرد واحد کے سامنے اور کبھی پوری مجلس کے سامنے ظاھر فرمایا تاکہ تمام صحابہ کرام بلکہ قیامت تک آنے والے تمام مسلمانوں کے علم میں آجائے۔
۱۹۔ یہ اللہ تعالی کا وعدہ بھی ہے
ابو عاصم کی روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں وعدنا اللہ و رسولہ الخ، یہ الفاظ دلیل ہیں کہ یہ صرف حضورؐ کا وعدہ ہی نہیں بلکہ یہ اللہ تعالی کا وعدہ بھی ہے اور اللہ اپنے وعدے کی کبھی خلاف ورزی نہیں کرتا [pullquote](وعد اللہ لایخلف اللہ وعدہ ولکن اکثر الناس لایعلمون)[/pullquote] ۲۰۔ جنگ و جہاد کی ترغیب
ان احادیث مبارکہ میں نبی ﷺ نے مسلمانوں کو جنگ اور جہاد کی رغبت دلائی ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: (ترجمہ) اے نبی! ایمان والوں کو جہاد کی ترغیب دو، اگر تم میں سے بیس آدمی ثابت قدم ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں سے سو آدمی ہوں گے تو وہ ایک ہزار کافروں پر غالب آئیں گے کیونکہ وہ کفار سمجھ نہیں رکھتے۔ جنگ و جہاد کی یہ ترغیب صحابہ کرام ، تابعین اور قیامت تک آنے والے تمام مسلمانوں کے لیے عام ہے۔
۲۱۔ سامراجی قوتوں کا علاج
اس میں امت کے لیے یہ رہنمائی بھی ہے کہ دنیا میں کفارومشرکین کے غلبہ و سامراجی، استعماری طاقتوں اور استبدادی کارروائیوں کا علاج بھی جنگ و جہاد ہی میں مضمر ہے۔ اس کے سوا اس مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے، مذاکرات، عالمی اداروں میں مقدمہ بازی اور کسی دوست یا غیرجانبدار ثالث کی کوئی کوشش یا مداخلت ضیاعِ وقت کے سوا کچھ نہیں
۲۲۔ غزوہ ہند میں مال خرچ کرنے کی فضیلت
ان احادیث میں غزوہ ہند میں مال خرچ کرنے کی بڑی فضلیت بیان ہوئی ہے۔ اگرچہ راہ جہاد میں مال خرچ کرنا اعلی درجے کا انفاق ہے لیکن غزوہ ہند میں خرچ کرنے کی فضیلت عمومی انفاق فی سبیل اللہ سے کہیں زیادہ ہے۔ اسی فضیلت کی بنا پر سیدنا ابوہریرہ بار بار یہ خواہش کرتے تھے کہ اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنی جان اور اپنا نیا پرانا سب مال اس میں خرچ کردوں گا۔
۲۳۔ غزوہ ھند کے شہداء کی فضیلت
مذکورہ احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس غزوہ میں شریک ہونے والے شہداء کی بھی بہت بڑی فضیلت ہے کیونکہ ان کے آنحضرتؐ نے ’’افضل الشہداء‘‘ اور ’’خیر الشہداء‘‘ کے الفاظ بیان فرمائے ہیں۔
۲۴۔ مجاہدین ہند کے لیے جہنم سے نجات کی بشارت
ان احادث میں ان مجاہدین کی جہنم سے آزادی کی بشارت آتی ہے جو اس غزوہ میں شریک ہوں گے اور غازی بن کر لوٹیں گے۔ آپؐ نے دو جماعتوں کا ذکر فرمایا کہ اللہ تعالی نے انہیں آگ سے محفوظ کردیا ہے اور پہلی جماعت کے متعلق یہ صراحت فرمائی کہ’’وہ ہندوستان سے جنگ کرے گی‘‘ اور حضرت ابوہریرۃ کے الفاظ بھی اس پر دلالت کرتے ہیں کہ اگر میں اس غزوہ میں غازی بن کر لوٹا تو میں ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا جسے اللہ نے جہنم سے آزاد کر دیا ہوگا۔
۲۵۔ آخری جنگ میں فتح کی بشارت
ان میں یہ بشارت بھی موجود ہے کہ آخر زمانے میں جب حضرت مہدی اور سیدنا عیسی ابن مریم بھی دنیا میں موجود ہوں گے، اللہ تعالی مجاہدین ہند کو عظیم الشان فتح عطا فرمائے گا اور وہ کفار کے سرداروں اور بادشاہوں کو گرفتار کرکے قیدی بنائیں گے۔
۲۶۔ مال غنیمت کی خوشخبری
اللہ تعالی ان مجاہدین کو بیش بہا مال عنیمت سے بھی نوازے گا۔
۲۷۔ سیدنا عیسی علیہ السلام سے ملاقات کی بشارت
ایک بشارت ان احادیث میں یہ ملتی ہے کہ جو مجاہدین اس مبارک غزوے کے آخری مرحلے میں برسر پیکار ہوں گے وہ سیدنا عیسی ابن مریم علیہ السلام کی زیادرت باسعادت اور ملاقات بابرکات سے مشرف ہوں گے۔
۲۸۔ ہندوستان کے ٹکڑے ہوں گے
آخری اور سب سے بڑی بشارت ان احادیث میں یہ ہے کہ اس غزوہ کے نتیجے میں ہندوستان ٹکڑے ٹکرے ہوکر متعدد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم ہوجائے گا، جن پر ایک متفقہ بادشاہ کے بجائے کئی بادشاہ بیک وقت حکمرانی کر رہے ہوں گے۔
اس کے علاوہ اہل علم نے اور بھی کئی بشارتیں ان احادیث سے مستنبط کی ہیں، البتہ ہم نے ان احادیث کی تخریج اور ان کے دروس و اشارات، اور نبوی ہدایات اِجمالا اہلِ علم کی خدمت میں پیش کردی ہیں۔ و فیہ الکفایۃ۔ واللہ اعلم
حواشی و حوالہ جات
(۱) غزواتِ نبوی کی تعداد مختلف کتبِ حدیث و سیر میں بیان ہوئی ہے، ہم نے مشہور مالکی فقیہ امام ابن الجزي الغرناطي سے لی ہے، ملاحظہ ہو ان کی کتاب: القوانین الفقہیۃ ۲/۲۷۲۔۲۷۳
(۲ )ملاحظہ ہو: صحیح بخاري‘ کتاب الجہاد والسیر‘ باب قتال الترک: ۲۷۱۱‘ اور صحیح مسلم‘ کتاب الفتن‘ باب لاتقوم الساعۃ حتی یمر الرجل بقبر الرجل فیتمنی:۵۱۸۷
(۳) یہ حدیث محدثین کے ہاں (حدیث الأعماق) کے نام سے معروف ہے‘ کیونکہ اس میں اعماق اور دابق، موجودہ ملک شام کے شہر حلب کے قریب واقع۔ دو ایسی جگہوں کا تذکرہ آیا ہے جہاں (ملحمۃ الأعماق) قرب قیامت سے پہلے وقوع پذیر ہوگا جس میں صلیبی عیسائیوں اور مجاہدینِ اسلام کے درمیان خونریز معرکہ ہوگا، حضرت حذیفہ ؓ کی ایک حدیث کے مطابق اس معرکہ میں کام آنے والے (افضل ترین شہداء امتِ محمدیہ) ہوں گے۔ ملاحظہ ہو:السنن الواردۃ فی الفتن وغوائلھا و الساعۃ وأشراطھا۵/۱۰۹۶ ‘ لأبی عمرو عثمان بن سعید المقرئ الدانی(۳۷۱۔۴۴۴ہ)تحقیق:رضاء اللہ مبارکپوری‘ معجم البلدان للحموي ۲/۲۲۲‘ و سیر أعلام النبلاء ۶/۳۵۷
(۴) ملاحظہ ہو: صحیح مسلم‘ کتاب الفتن ‘ باب فتح القسطنطینیۃ: ۵۶۵۷
(۵) ملاحظہ ہو: مسند احمد / مسند بشر بن سحیم الخثعمیؓ:۱۸۱۸۹‘ المستدرک علی الصحیحین ۴/۴۶۸حدیث:۱۴۸۲حاکم نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے‘ فضیل بن عیاض کا خواب ذھبی نے سیر أعلام النبلاء ۸/۵۴۲۔۵۴۳ میں نقل کیا ہے
(۶) ملاحظہ ہو: مسند احمد ۲/۳۶۹ مسند ابو ھریرۃ ؓ:۸۴۶۷‘ البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر‘ الابار عن غزوۃ الہند۶/۲۲۳ بقول ابن کثیر، یہ الفاظ صرف امام احمد نے نقل کیے ہیں
(۷) ملاحظہ ہو: مسند احمد ‘ تحقیق وشرح: احمد شاکر ۱۷/۱۷حدیث:۸۸۰۹
(۸) ملاحظہ ہو: السنن المجتبی ۶/۴۲‘ کتاب الجھاد باب غزوۃ الھند:۳۱۷۳‘ ۳۱۷۴‘ السنن الکبری للنسائی ۳/۲۸باب غزوۃ الھند:۴۳۸۲۔۴۳۸۳
(۹) ملاحظہ ہو: السنن الکبری للبیہقي ۹/۱۷۶ ‘ کتاب السیر‘ باب ما جاء فی قتال الھند:۱۸۵۹۹
(۱۰) ملاحظہ ہو: دلائل النبوۃ و معرفۃ أحوال صاحب الشریعۃ ‘ باب قول اللہ : وعد اللہ الذین آمنوا و عملوا الصالحات منکم لیستخلفنہم۶/۳۳۶
(۱۱) ملاحظہ ہو: الخصائص الکبری للسیوطی۲/۱۹۰
(۱۲) ملاحظہ ہو: مسند احمد تحقیق و شرح احمد شاکر۱۲/۹۷حدیث نمبر:۷۱۲۸
(۱۳) ملاحظہ ہو: مسند احمد ۲/۲۲۹ مسند ابو ہریرۃؓ حدیث:۶۸۳۱‘ البدایۃ والنھایۃ ‘ الأخبار عن غزوۃ الھند۶/۲۲۳
(۱۴) ملاحظہ ہو: حلیۃ الأولیاء ۸/۳۱۶۔۳۱۷
(۱۵) ملاحظہ ہو: المستدرک علی الصحیحین‘ کتاب معرفۃ الصحابۃ ‘ ذکر ابی ھریرۃ الدوسی۳/۵۱۴ حدیث:۶۱۷۷
(۱۶) ملاحظہ ہو: السنن لسعید بن منصور ۲/۱۷۸‘ حدیث نمبر:۲۳۷۴
(۱۷) ملاحظہ ہو: تاریخِ بغداد ۱۰/۱۴۵ تذکرہ ابوبکر بن رزقویہ نمبر:۵۲۹۱
(۱۸) ملاحظہ ہو: الفتن غزوۃ الھند۱/۴۰۹ حدیث:۱۲۳۷
(۱۹) ملاحظہ ہو: الجھاد‘ فضل غزوۃ البحر ۲/۶۶۸ حدبث:۲۹۱
(۲۰) ملاحظہ ہو: العلل ۱/۳۳۴ ترجمہ:۹۹۳
(۲۱) ملاحظہ ہو: التاریخ الکبیر ۲/۲۴۳ تذکرہ جبر بن عبیدۃنمبر:۲۳۳۳
(۲۲) ملاحظہ ہو: تھذیب الکمال ۴/۴۹۴ تذکرہ جبر بن عبیدۃ:۸۹۳
(۲۳) ملاحظہ ہو: تھذیب التھذیب ۲/۵۲ تذکرہ جبر بن عبیدۃ الشاعر:۹۰ ابن حجر کہتے ہیں: میں نے امام ذھبی کے ہاتھ کی تحریر دیکھی، لکھا تھا: پتہ نہیں یہ کون ہے؟ اس کی روایت کردہ خبر منکر ہے‘‘۔ ابن حبان نے ان کا ذکر ثقات میں کیا ہے.
(۲۴) ملاحظہ ہو: مسند احمد ۵/۲۷۸ حدیث ثوبان ؓ:۲۱۳۶۲
(۲۵) دیکھیے: السنن المجتبی للنسائی ۶/۴۳ کتاب الجھاد ‘ باب غزوۃ الھند:۳۱۷۵ نیز ملاحظہ ہو: صحیح سنن النسائی ۲/۶۶۸ حدیث:۲۵۷۵
(۲۶) ملاحظہ ہو: السنن الکبری للنسائی ۳/۲۸ باب غزوۃ الھند :۴۳۸۴
(۲۷) ملاحظہ ہو: الجھاد ۲/۶۶۵ فضل غزوۃ البحر حدیث:۲۲۸ محققِ کتاب نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے
(۲۸) ملاحظہ ہو: الکامل فی ضعفاء الرجال ۲/۱۶۱ تذکرہ جراح بن ملیح البھرانی :۳۵۱
(۲۹) ملاحظہ ہو: المعجم الأوسط ۷/۲۳۔۲۴ حدیث:۶۷۴۱‘ امام طبرانی کہتے ہیں : اس حدیث کو حضرت ثوبان ؓ سے اسی سند کے ساتھ روایت کیا گیا ہے ‘ اس کے ایک راوی الزبیدی اس کی روایت میں اکیلے ہیں۔
(۳۰) ملاحظہ ہو: السنن الکبری للبیہقي ۹/۷۶‘ کتاب السیر ‘ باب ما جاء فی قتال الھند:۱۸۶۰۰
(۳۱) ملاحظہ ہو: البدایۃ والنھایۃ ‘ الأخبار عن غزوۃ الھند:۶/۲۲۳
(۳۲) ملاحظہ ہو: الفردوس بماثور الخطاب ۳/۴۸ حدیث:۴۱۲۴
(۳۳) ملاحظہ ہو: الجامع الکبیر مع شرحہ فیض القدیر۴/۳۱۷ امام مناوي نے ذھبی کی الضعفاء کے حوالہ سے امام دارقطنی کا یہ قول نقل کیا ہے: الجراح راوي حدیث کچھ بھی نہیں ہے
(۳۴) ملاحظہ ہو: التاریخ الکبیر ۶/۷۲ تذکرہ عبد الأعلی بن عدي البھرانی الحمصی :۱۷۴۷
(۳۵) ملاحظہ ہو: تھذیب الکمال ۳۳/۱۵۱ تذکرہ ابوبکر بن الولید بن عامر الزبیدي الشامي:۷۲۶۱
(۳۶) ملاحظہ ہو: تاریخ دمشق ۵۲/۲۴۸
(۳۷) ملاحظہ ہو: الفتن ‘ غزوۃ الھند ۱/۴۰۹۔۴۱۰ حدیث:۱۲۳۶۔۱۲۳۸
(۳۸) ملاحظہ ہو: مسند اسحاق بن راھویہ ‘ قسم اول۔سوم ج۱/۴۶۲ حدبث:۵۳۷
(۳۹) ملاحظہ ہو: الفتن ‘ غزوۃ الہند ۱/۴۰۹ حدیث:۱۲۳۵
(۴۰) ملاحظہ ہو: الفتن ۱/۳۹۹‘ ۴۱۰ حدیث:۱۲۰۱‘ ۱۲۳۹