دورِ جدید میں باب الفتن اور ملاحم کی روایات کا زیادہ تر اطلاق افغانستان پر ہوا ہے۔ سوویت یونین کے خلاف مزاحمت سے لے کر طالبان کے ظہور تک، مسلمانوں کو بتایا گیا کہ ان روایات میں قرب ِقیامت کے باب میں جو پیش گوئیاں کی گئی ہیں، آج کا افغانستان ان کا مصداق ہے۔ اس سلسہ ءمضامین کے پہلے حصے میں، میں نے ”جہادِ افغانستان سے ظہورِ مہدی تک“ کے عنوان سے شائع ہونے والے ایک کتابچے کا ذکر کیا تھا۔ یہ ابو عبداللہ آصف مجید نقشبندی صاحب کا مرتب کردہ ہے۔2002ء سے 2005ء تک اس کے پانچ ایڈیشن شائع ہوچکے۔ اس کتابچے پر لاہور اور حاصل پور کے پانچ مقامات کے پتے درج ہیں جہاں سے یہ کتابچہ مل سکتا ہے۔
اس میں درج ایک روایت کے مطابق، جو مستدرک حاکم سے لی گئی ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: تمہارے خزانے کے لیے تین اشخاص جنگ کریں گے۔ یہ تینوں خلیفہ کے لڑکے ہوں گے۔ یہ خزانہ ان میں سے کسی کی طرف منتقل نہیں ہوگا۔ پھر مشرق کی جانب سے سیاہ جھنڈے نمودار ہوں گے اور وہ ان سے اس شدت کے ساتھ جنگ کریں گے جو پہلے کسی نے نہیں کی ہوگی۔“ اس کتابچے میں اس روایت کو اپنے عہد پر منطبق کرتے ہوئے لکھا گیا: ” شاہ فہد کے تین بھائی ہیں۔ یہ تینوں بادشاہت کے امیدوار ہیں۔ شہزادہ عبداﷲ چونکہ امریکہ کی پالیسیوں کے سخت خلاف ہیں اور سب سے پہلے طالبان کی حکومت کو انہوں نے ہی تسلیم کیا تھا، اس لیے امریکہ شہزادہ عبداﷲ کو ہرگز برداشت نہیں کرے گا۔ وہ یقیناً دوسرے دو بھائیوں میں سے کسی کو آگے لانا چاہے گا۔ جس کے بعد یہ تینوں خلفا کے لڑکے آپس میں جنگ کریں گے لیکن حکومت کسی کے ہاتھ نہ آئے گی۔ ایسے حالات میں حرمین شریفین کو خطرہ لاحق ہوگا۔ حرمین شریفین کی حفاظت کے لیے افغانستان کے مجاہدین سیاہ پرچم کے ساتھ نمودار ہوں گے۔“(صفحہ 71) شاہ عبداﷲ کا انتقال ہو چکا۔ امریکہ نے ان کو ہٹانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ ’شہزادوں‘ میں کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ وہاں کی روایت کے عین مطابق، اقتدار دوسرے بھائی کو منتقل ہو گیا۔ سوال یہ ہے کہ جنہوں نے روایت کے اس مصداق کو درست مانتے ہوئے، افغانستان میں اپنی جان دی، اس کی ذمہ داری کس پر ہے؟
ایک اور روایت دیکھیے:یہ مشکوۃ سے لی گئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فر مایا: ” قیامت نہیں ہوگی جب تک دریائے فرات سونے کے پہاڑ سے نہ سرک جائے۔ لوگ اس کے حصول کے لیے لڑیں گے۔ (لڑائی اتنی سخت ہوگی کہ) سو میں سے ننانوے مارے جائیں گے۔“ کتابچے کے مصنف نے اس کا اطلاق کرتے ہوئے لکھا: ”دریائے فرات عراق میں ہے۔ صدام حسین نے دریائے فرات کے رخ کو موڑ دیا ہے جس کی وجہ سے ایک طرف سے دریا کا پانی خشک ہونا شروع ہو گیا ہے۔ وہ دن دور نہیں، جب دریائے فرات سونے کے پہاڑ کو ظاہر کر دے گا جس کے حصول کے لیے جنگ ہوگی۔“ دلچسپ بات یہ ہے کہ مصنف روایت کا ان واقعات پراطلاق کرتے ہیں اور ساتھ ’واللہ اعلم‘ بھی کہتے ہیں۔ جب ہر بات کا اصل علم اللہ کے پاس ہے تو ہم لوگوں کو کس دلیل کی بنیاد پر مقتل بھیج رہے ہیں؟ اس کا اذن ہمیں کس نے دیا ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی سند پر بغیر تحقیق لوگوں کو جنگ کا ایندھن بنا دیں؟
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ لوگوں نے تاریخی واقعات کو دینی سند فراہم کر نے کے لیے ان روایات کو استعمال کیا ہو۔ ہماری تاریخ ایسی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ میں نے گزشتہ مضمون میں جب ’خلافت علیٰ منہاج النبوت‘ کے باب میں ماضی کی بعض آرا کا ذکر کیا تھا تو مقصد ان کی تائید نہیں، یہی نکتہ واضح کر نا تھا۔ میں نے لکھا: ”مجھے اس پر اصرار نہیں کہ ماضی میں لوگوں نے ان روایات کاجو مصداق طے کیا، وہ درست تھا۔ کل بھی یہ قیاس تھا، آج بھی قیاس ہے“۔ اس کے بعد یہ سوال بےمعنی ہے کہ سیوطی کی ’تاریخ الخلفا‘ مصدقہ ہے یا نہیں۔ میں نے جس کتابچے کا ذکر کیا ہے، اس میں بھی افغانستان میں ملا عمر کی حکومت کو اسی روایت کا مصداق مانا گیا ہے جس میں’ خلافت علیٰ منہاج النبوت‘ کاذکر ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ دین قیاس یا ظن پر نہیں کھڑا کہ اس کے مصداق کا تعین ہی نہ ہوسکے۔ جن باتوں کا تعلق ایمان سے ہے، اللہ تعالیٰ اور رسالت مآبﷺ نے اس طرح واضح کردی ہیں کہ قیامت کی صبح تک، ان کی سند اور ان کے مصدقہ ہونے کے بارے میں ابہام نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے اس امت کی تاریخ میں اخبارِ آحاد سے دین کو ثابت نہیں کیا گیا۔
مولانا مودودی نے یہ بات اس بلاغت کے ساتھ بیان کرد ی ہے کہ شاید میں اس پر کچھ اضافہ نہ کرسکوں۔ انہوں نے لکھا: ”یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جن چیزوں پر کفر و اسلام کا مدار ہے، اور جن امور پر انسان کی نجات مو قوف ہے، انہیں بیان کرنے کا اللہ تعالیٰ نے خود ذمہ لیا ہے۔ وہ سب قرآن میں بیان کی گئی ہیں اور قرآن میں بھی ان کو اشارتا یا کنایۃ بیان نہیں کیا گیا بلکہ پوری صراحت اور وضاحت کے ساتھ ان کو کھول دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے: ان علینا للھدیٰ(اللیل۲۹:۲۱) ”(اور ہمارا کام سمجھا دینا ہے)۔ لہذا جو مسئلہ بھی دین میں یہ نوعیت رکھتا ہو، اس کا ثبوت لازماً قرآن ہی سے ملنا چاہیے۔ مجرد حدیث پر ایسی کسی چیز کی بنا نہیں رکھی جا سکتی جسے مدارِ کفر و ایمان قرار دیا جائے۔ احادیث چند انسانوں سے چند انسانوں تک پہنچتی ہیں جن سے حد سے حد اگر کوئی چیز حاصل ہوتی ہے تو وہ گمانِ صحت ہے نہ کہ علمِ یقین۔ اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس خطرے میں ڈالنا پسند نہیں کرتا کہ جو امور اس کے دین میں اتنے اہم ہوں کہ ان سے کفر اور ایمان کو فرق واقع ہوتا ہو، انہیں صرف چند آدمیوں کی روایت پر منحصر کر دیا جائے۔“ (رسائل و مسائل، صفحہ 124 )۔
میں نے اپنی بات کو ان روایات کے اطلاق تک محدود رکھا تھا۔ ان کی صحت کے بارے میں ابھی کچھ نہیں لکھا۔ مولانا مودودی ایک اصولی بات کہہ رہے ہیں کہ یہ روایات جس طرح چند افراد کی روایت سے ہم تک پہنچی ہیں، ان کی بنیاد پر انہیں اسلام و کفر کے لیے قولِ فیصل نہیں مانا جا سکتا۔ مولا نا تو اس سے بھی آگے کی بات کہہ رہے ہیں۔ ان کے نزدیک خبر واحد (جس کے روایت کرنے والوں صرف چند افراد ہوں) دین کے باب میں یقین کا فائدہ نہیں دیتی۔ ممکن ہے بعض ناقدین اسے انکارِ حدیث قرار دینے کے لیے بےتاب ہوں۔ ان سے صبر کی درخواست کے ساتھ یہ کہنا ہے کہ یہ رائے صرف مولانا مودودی کی نہیں ہے، جمہور احناف کی ہے۔ خود مولانا نے شمس الآئمہ امام سرخسی کی رائے کو اپنی تائید میں نقل کیا ہے۔
مولانا مودودی امام مہدی سے متعلق روایات کے بارے میں کیا کہتے ہیں، وہ بھی پڑھ لیجیے: ”اب ’مہدی‘ کے متعلق خواہ کتنی ہی کھینچ تان کی جائے، بہر حال ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ اسلام میں اس کی یہ حیثیت نہیں ہے کہ اس کے جاننے اور ماننے پر کسی کے مسلمان ہونے اور نجات پانے کا انحصار ہے۔ یہ حیثیت اگر اس کی ہوتی تو قرآن میں پوری صراحت کے ساتھ اس کا ذکر کیا جاتا اور نبیﷺ بھی دو چار آدمیوں سے اس کو بیان کر دینے پر اکتفا نہ فرماتے بلکہ پوری امت تک اسے پہنچانے کی سعی بلیغ فرماتے اور اس کی تبلیغ میں آ پ کی سعی کا عالم وہی ہوتا جو ہمیں توحید اور آخرت کی تبلیغ کے معاملے میں نظر آتا ہے۔ درحقیقت جوشخص علومِ دینی میں کچھ بھی نظر اور بصیرت رکھتا ہو، وہ ایک لمحے کے لیے بھی یہ باور نہیں کر سکتا کہ جس مسئلے کی دین میں اتنی اہمیت ہو، اسے محض اخبارِآحاد پر چھوڑ دیا جائے اوراخبارِآحاد بھی اس درجے کی کہ امام مالک اورامام بخاری جیسے محدثین نے اپنے حدیث کے مجموعوں میں سرے سے ان کا لینا ہی پسند نہ کیا ہو۔“ (رسائل و مسائل،صفحہ124)
یہ کسی منکرِ حدیث کی رائے نہیں، اس شخص کا موقف ہے جس نے پاکستان میں منکرینِ حدیث و سنت کے خلاف سب سے بڑا علمی معرکہ لڑا۔ ہمارے ہاں جب کوئی صاحبِ علم کسی روایت کی صحت پر گفتگو کرتا ہے تو عام لوگوں کی کم علمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، ان کے مذہبی جذبات کا استحصال کیا جاتا ہے اور ایسے عالم پر منکرِحدیث کا فتویٰ لگا دیا جا جاتا ہے۔ میں نے یہ بات مو لا نا مودودی کے حوالے سے اسی لیے بیان کی ہے کہ ہما شما کو ہدف بنانا آسان ہو تا ہے۔ اب کوئی ہمت کرے اور کہے کہ مو انا مودودی منکرِ حدیث تھے۔
جب کسی روایت پر جرح ہوتی اور اسے رد کیا جاتا ہے تویہ حدیثِ رسول پر جرح نہیں ہوتی۔ کوئی مسلمان یہ کیسے سوچ سکتا ہے کہ وہ اللہ کے رسول کی بات پر جرح کرے۔ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ۔ یہ جرح دراصل اس بات پر ہوتی ہے کہ روایت کی رسول اللہ ﷺسے نسبت ثابت ہے یا نہیں۔
اگر امام مہدی جیسی روایات کا معاملہ، مولانا مودودی جیسے عالم کے نزدیک یہ ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کالے جھنڈوں جیسی روایات کی روایتی اور درایتی حیثیت کیا ہوگی۔ اسی لیے میں لوگوں سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ کسی بات کو رسول اللہﷺ کی طرف نسبت دیتے وقت سو بار سوچنا چاہیے۔ جہاں لاکھوں لوگوں کے ایمان، جان اور مال کا معاملہ ہو تو وہاں زیادہ احتیاط اور خدا خوفی کی ضرورت ہوتی ہے۔ میرا حسنِ ظن ہے کہ یہ باتیں اخلاصِ نیت سے کی جا تی ہوں گی لیکن کسی بات کی صداقت کے لیے محض اخلاص کافی نہیں، ضروری ہے کہ اس کی عقلی توجیہ ممکن ہو۔ دین کے نام پر کچھ کہنے کے لیے یہ لازم ہے کہ اللہ اور اس کے رسول سے اس کی سند بھی ثابت ہو۔ محض ظنی علم کی بنیاد پر لوگوں کے ایمان اور جان و مال کو خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔
ہمارے ہاں چونکہ ارتکازِ توجہ کے ساتھ علمی مباحث کا رواج نہیں، اس لیے بحثیں اکثر خلطِ مبحث کا شکار ہوجا تی ہیں۔ اسی نوعیت کا ایک اعتراض اس وقت سامنے آتا ہے جب کسی صاحبِ علم کی کوئی بات تائید میں نقل کی جاتی ہے۔ اب اس رائے کی صحت پر کچھ کہنے کے بجائے، یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ اسی صاحبِ علم کی فلاں بات آپ کیوں نہیں مانتے۔ میں نے مو لانا مودودی کی ایک رائے نقل کی تو کہا جائے گا کہ ان کی فلاں رائے بھی ہے، آپ اسے تو نہیں مانتے۔ جیسے پچھلے کالم کے حوالے سے سیوطی کے بارے میں کہا گیا۔ یہ ایک غیر علمی بات ہے۔ اگر ہم فزکس میں نیوٹن کی بات کو درست کہتے ہیں تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم مسیحت کے بھی قائل ہو جائیں کیونکہ وہ مسیحی تھا۔
ملاحم اور باب الفتن کی روایات کی صحت اور ان کے اطلاق پر عمومی گفتگو کے بعد، ان شااللہ اگلے مضمون میں اس سوال کو موضوع بنایا جائے گا کہ کیا پاکستان کا قیام کوئی الہی منصوبہ تھا اور اس کے قیام سے کیا غزوہ ہند کی روایات کا کوئی تعلق ہے؟
تبصرہ لکھیے