جاوید بھائی! بیوپاری اور کھلاڑی میں فرق ہوتا ہے۔ بیوپاری سودے کرتا ہے، مال بکواتا ہے، پیسہ کماتا ہے، اپنا ”کٹ“ بھی بیچ میں ہی رکھتا ہے اور آڑھتی کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے۔ ظاہر ہے جو بیوپاری آڑھتی کی بِکری بڑھائےگا، فائدہ دلوائےگا اور پیسے کا بول بالا کروائےگا، وہی تو آڑھتی کا منظورِ نظر ٹھہرے گا۔
آپ کیا چاہتے ہیں کہ یہ دو دو کوڑی پر مر مٹنے والے بیوپاریوں کا آپ ایسے شاندار کھلاڑیوں سے موازنہ کیا جائے؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ گدھے اور گھوڑے کو ایک ہی ریس میں دوڑایا جائے، اور جبکہ پورا گاؤں، بستی، شہر یا پورا ملک گدھے کی مینگنیاں اٹھاتا پھر رہا ہو، آپ چاہتے ہیں کہ گھوڑے کی شان میں قصائد پڑھ کر پورے کا پورا کاروباری دھندا ٹھپ کر دیا جائے؟ نہیں صاحب! یہ روپیے کا دھندا ہے، یہاں سب سے اہم وہ ہے جو بکتا ہے۔ عقل، نسب، خوبی وغیرہ سب فروعی باتیں ہیں۔ کوئی نہیں یاد رکھےگا کہ جس جاوید میانداد کی لکنت کا مذاق ساری زندگی اڑایا جاتا رہا، اس جاوید میانداد کے بارے میں سر ویوین رچرڈز کے تاثرات یہ ہیں کہ
”Javed Miandad is the one who I'd want to bat for my life“
نہ صرف یہ بلکہ جاتے جاتے بھی جاوید بھائی ایسٹ لندن، جنوبی افریقہ کی مشکل وکٹ پر اس صورتحال میں سو رنز کر کے گئے تھے کہ جب پاکستان کے نوجوان کھلاڑی بھی گھبرائے ہوئے تھے کہ ڈونلڈ اور ڈی ویلیئرز کی طوفانی باؤلنگ کا سامنا کس طرح کرنا ہے تو عظمت و ہمت کے اسی کوہ گراں نے پاکستانی ٹیم کی ڈولتی ہوئی نیَا کو سنبھالا اور نازک موقع پر شاندار سینچری بنا کر قومی ٹیم کی عزت کو داغدار ہونے سے بچایا۔
39 سال کی عمر میں اپنا آخری میچ کھیلنے والے جاوید میانداد اس وقت بھی اپنی قوم کی امیدوں کا مرکز تھے جب انڈیا کے مقابل ورلڈ کپ کوارٹرفائنل کھیلتے ہوئے پاکستانی ٹیم کا مڈل آرڈر ایک بار پھر ریت کی دیوار ثابت ہوا تھا اور جاوید میانداد اکیلے ہی پاکستان کی نیَا کو ایک بار پھر پار لگانے کی کوشش کر رہے تھے۔ تاریخی کتب میں شاید پاکستان کی ٹیم کی ہار کا ذکر ہو، لیکن عوام کے دلوں میں جیتے ہوئے جاوید میانداد ہمیشہ کے لیے امر ہوچکے تھے۔ اس بات کے ثبوت میں راشد لطیف کی اسٹمپنگ پر جاوید بھائی کا ری ایکشن دیکھا جاسکتا ہے۔
پاکستانی کرکٹ میں شاید اب تک صرف دوکھلاڑی ایسے آئے ہیں کہ جن میں عوام کی مرچکی امید کو واپس بیدار کرنے کی صلاحیت تھی۔ ایک تو بلاشبہ جاوید بھائی ہیں اور دوسرے کسی حد تک وقار یونس کا نام لیا جاسکتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق جاوید میانداد نے 124 ٹیسٹ میچز میں 52 رنز کی اوسط سے 8832 اسکور کیے ہیں، جبکہ 233 ون ڈے میچز میں 41 رنز کی اوسط سے 7381 رنز اسکور کیے ہیں۔ 1992ء ورلڈ کپ کے سیمی فائنل اور فائنل میں ففٹی اسکور کرنے کے علاوہ سب سے زیادہ لگاتار ففٹیاں بنانے کا اعزاز بھی جاوید میانداد کے پاس ہے جس میں سے 2 پچاس انہوں نے انڈیا میں اور 3 پچاس سے زائد اسکورز والی اننگز انہوں نے انگلینڈ میں کھیلیں۔ پاکستان کے لیے سب سے زیادہ ٹیسٹ ڈبل سنچریاں بنانے کا اعزاز بھی جاوید میانداد کے پاس ہے جسے حال ہی میں یونس خان نے برابر کیا ہے.
جن صاحب کا خیال ہے کہ جاوید بھائی کا پیسوں کا مسئلہ ہے تو ان کے علم میں ہونا چاہیے کہ جس دور میں وہ پانچ پانچ سو روپے میں برتھ سرٹیفیکٹ اور بے فارم اور 3،3 ہزار روپے میں ”ڈبل میٹرک“ کی باتیں کرتے تھے، اس دور میں جاوید بھائی کے ساتھ تصویریں اتروا کر لوگ اپنے اور پرایوں کو دکھا کر کہا کرتے تھے کہ یہ ہے وہ بندہ جس نے شارجہ میں آخری بال پر چھکا مارا تھا، یا یہ ہے وہ بندہ جس کے بارے میں انڈیا کے سابق کپتان کپل دیو نے کہا تھا کہ جاوید ایک ایسا پلیئر تھا جو پننگا لے کر کھیلتا تھا، اس جیسا پلیئر شاید کسی حد تک ویرات کوہلی ہے، ورنہ اور کوئی بھی نہیں۔ یاد رہے یہ بات وہ شخص کہ رہا ہے جو خود سنیل گواسکر، نوجوت سنگھ سدھو، وینگسارکار، وشواناتھ اور سب سے بڑھ کر کرکٹ کے بےتاج بادشاہ سچن ٹنڈولکر ایسوں کا کپتان رہا ہے۔
39 سال کا جاوید میانداد سنہ 96ء میں بھی شاہد آفریدی ایسوں کے ایوریج اسکور سے زیادہ رنز کرکے ہی آؤٹ ہوا تھا۔ یہ اس کی فائٹنگ اسپرٹ کا کمال تھا کہ جس وقت وہ آؤٹ ہوکر سر جھکا کر گراؤنڈ سے آخری بار رخصت ہورہا تھا، اس وقت بھی پڑوسی ملک کے شائقین زوردار تالیاں بجا کر اسے الوداع کہہ رہے تھے۔
افسوس اس بات کا نہیں کہ گھوڑے کو دیکھ کر گدھے نے ہنکار بھری، افسوس اس بات کا بھی نہیں کہ گاؤں، شہر اور ملک میں رہنے والی عوام کو گدھے سے پیار ہے، بلکہ افسوس تو اس بات کا ہے کو ہجومِ شہرِ ستم گراں میں ایک شخص ایسا نہیں جو اٹھ کر کھرے اور کھوٹے میں تمیز کر سکے۔
تبصرہ لکھیے