بھولی بھالی صورت والا بلاول بھٹو زرداری خوش قسمت ترین نابغہ روزگار نوجوان ہے، سیلانی کو توبلاول کے چہرے پر ویسے ہی معصومیت دکھائی دیتی ہے جو فلم ٹائی ٹینک کے ہیرو کے چہرے پر تھی۔ بےنظیر بھٹو دبنگ لیڈر تھیں جنہوں نے ولدیت میں بڑا نام رکھنے کے بعد بھی بڑا نام بنایا، ایسا عموما ہوتا نہیں ہے، وہ برگد کے گھنے اور بڑے درخت جیسی تھیں، مجازی خدا ہونے کے باوجود آصف علی زرداری ان کی زندگی میں سیاسی قد کاٹھ نہیں نکال سکے تھے، وہ فطری طور پر مرعوب رہتے تھے اور ان کی یہی مرعوبیت بلاول کی صورت میں بھی نظر آتی ہے۔ بلاول پورا اپنی ماں پر گیا ہے، مزے کی بات یہ کہ وہ اپنی مما کی طرح کراچی میں پیدا ہوا اور پلا بڑھا بیرون ملک، اس نے ماں ہی کی طرح گوروں کی بہترین تعلیمی درسگاہوں سے اسناد سمیٹیں اور واپس آیا دیس میں۔ وہ ماں ہی کی طرح دوسرے گیئر میں اردو اور ٹاپ گیئر میں فرفر انگریزی بولتا ہے، اور اس نے ماں ہی کی طرح اس پاکستان پیپلز پارٹی کی کمان بھی سنبھالی ہے جس میں ان کے نانا کے ساتھی قائم علی شاہ اور اعتزاز احسن جیسے بزرگ متحرک ہیں، موروثیت کے گملے میں جمہوریت اگانے کا اعجاز پیپلز پارٹی ہی کا ہے، اس کے بعد یہ کرشمہ کہیں ہو سکتا ہے تو وہ جاتی امرا ہی ہے۔
سیلانی کو زرداری قبیلے کے بلاول بھٹو نے ہفتہ 8 اکتوبر کے روزنامہ امت کے ذریعے حیران کیا بلکہ ششدر کر دیا تھا سچی بات ہے اسے یقین نہیں آیا کہ بےنظیر بھٹو کا سپوت ایسا بھی کہہ سکتا ہے، اسے لگا کہ بلاول زرداری کے الفاظ توڑ مروڑ کر خبر کے قالب میں ڈھالے گئے ہیں اور ایساہو جاتا ہے، یہ سوچ کر اس نے خبر کا ماخذ تلاش کیا تو پتہ چلا کہ یہ خبرمانیٹرنگ ڈیسک سے لی گئی ہے، یعنی’’امت‘‘ میں الیکٹرانک میڈیا پر نظر رکھنے والے ساتھی نے کسی نیوز چینل پر یہ خبر سنی دیکھی ہوگی اور بنا کر نیوز ڈیسک کو دے دی ہوگی۔ سیلانی نے اب سوچا کہ ہوسکتا ہے ان صاحب سے سننے یا سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو، وہ اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ ہفتے کے روز پیپلز پارٹی کے جیالے وزیر نثارکھوڑو کی نیوز کانفرنس کی اطلاع ملی، اس کا خیال تھا کہ بلاول صاحب کے بیان کے بعد یہ وضاحتی نیوز کانفرنس ہوگی اور کہا جائے گا کہ بلاول بھٹو زرداری کا یہ مقصد نہیں تھا، سیاق و سباق سے ہٹ کر توڑ مروڑ کر میڈیا نے خبر لگائی ہے، وہ شدید گرمی میں سندھ اسمبلی کے کمیٹی روم میں پہنچ گیا، راشد ربانی، وقار مہدی اور نجمی عالم کے ساتھ نثار کھوڑو تشریف فرما تھے، خیال تھا کہ ’’یقینا‘‘ کا تکیہ کلام بےدریغ استعمال کرنے والے نثار کھوڑو ہی یہ کام کریں گے جو کبھی فاروق ستار اپنے سابقہ قائد کے خطاب کے بعد کیا کرتے تھے، وہ بھی وضاحتیں دیا کرتے تھے، یہ بھی صفائیاں دیں گے۔
سیلانی ممکنہ طور پر نثار کھوڑو کی صفائیاں سننے کے لیے کمیٹی روم میں آگیا، جہاں پہلے ہی پچاس کے قریب رپورٹر اور کیمرہ مین اور دیگر افراد موجود تھے، نثار کھوڑو صاحب کے دائیں بائیں کچھ نامانوس چہرے بھی دکھائی دیے جن کا سیلانی نے کوئی نوٹس نہیں لیا، کمرہ اچھا خاصا بڑا تھا لیکن اتنے زیادہ لوگوں کی وجہ سے حبس اور گھٹن سی ہو رہی تھی، ائیرکنڈیشنڈ بلوچستان گورنمنٹ کی طرح غیرفعال تھے، اس گرمی میں نیوز کانفرنس شروع ہوئی اور نثار کھوڑو صاحب نے تمہید باندھنا شروع کی
’’پیپلز پارٹی اپنے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں اور زیادہ تندہی اور لگن کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے، تنظیمی کام کو آگے بڑھایا جا رہا ہے، پارٹی تاریخ میں پہلی بار تمام وارڈ، ضلعی، صوبائی تنظیمیں تحلیل کی گئی ہیں کہ۔‘‘
اس کے بعد سیلانی اف کر کے رہ گیا۔ نثار کھوڑو صاحب کی تمہید کسی قوالی کے دورانیے سے کم کی نہیں ہوتی اور آج تو کچھ زیادہ ہی لمبی لگ رہی تھی، وہ چاہ رہا تھا کہ وہ جلد از جلد اپنی بات سمیٹیں اور مطلب پر آئیں، خدا خداکر کے ان کی تمہید مکمل ہوئی اور پھر وہ چوہا برآمد ہو ہی گیا جس کے لیے پہاڑ کھوداگیا تھا، کونسلروں کی سطح کے دو ’’لیڈر‘‘ پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر رہے تھے، ان میں ایک صاحب یونین کونسل مؤمن آباد اورنگی ٹاؤن کے ٹاؤن ناظم رہ چکے تھے اور دوسرے عوامی نیشنل پارٹی سے تائب ہو کر جیالا بھرتی ہو رہے تھے۔ نثار کھوڑو نے انہیں پارٹی میں خوش آمدید کہہ کر صحافیوں کو سوال جواب کے لیے دعوت دی۔ حسب روایت تیز لہجوں اور اونچی آواز میں بولنے والے دوستوں نے سب سے پہلے ان کی توجہ حاصل کی اور کھوڑو صاحب سے سوال جواب کرنے لگے، ایک دوست نے پوچھا کہ پیپلز پارٹی 18 اکتوبر کو ریلی نکالنے جا رہی ہے، اس کے شرکاء لاکھوں کی تعداد میں ہوں گے یا ہزاروں میں؟ دوسرے دوست کو پرویز مشرف کا انٹرویو یاد تھا، اس نے سوال کیا کہ سابق آمر جمہوریت کو پاکستان کے لیے موزوں قرار نہیں دے رہے، اس پر آپ کی پارٹی کا کوئی بیان آیا؟
اس نوع کے سوالات کے بعد ایک ساتھی نے سیلانی کے منہ کی بات چھین لی ’’کھوڑو صاحب یہ فرمائیے گا کہ بلاول بھٹو زرداری نے الطاف حسین کو غدار کہنے سے انکار کر دیا ہے، اگر وہ غدار نہیں تھے تو پھر سندھ اسمبلی میں ان کے خلاف قرارداد کیوں پاس ہوئی؟‘‘
سیلانی ہمہ تن گوش ہو گیا کہ کھوڑو صاحب نے جواب دینے کے لیے چند سیکنڈ کا توقف کیا اور کہنے لگے’’سندھ اسمبلی کی قرارداد میں الطاف حسین کی نفرت انگیز تقریر کے خلاف وفاق سے کارروائی کی استدعا کی گئی تھی جس کے جواب کے آپ بھی منتظر ہیں اور ہم بھی‘‘۔ سوال واضح اور جواب مبہم تھا، سیلانی سے رہا نہ گیا، وہ کیمرہ مینوں کی بھیڑ چیرتا ہوا آگے بڑھا اور کھوڑو صاحب کو مخاطب کر کے کہنے لگا ’’جناب! نہ ادھر ادھر کی بات کر تیری رہبری کا سوال ہے۔ آپ صرف یہ بتا دیں کہ پاکستان کو ناسور کہنے والا شخص غدار ہے یا نہیں؟‘‘سوال جتنا واضح اور صاف تھا، اس کا جواب بھی انہوں نے اتنا ہی گول مول دیا، موصوف نے فرمایا کہ ’’آج ہی کے اخبار میں محمود خان اچکزئی کا بیان لگا ہوا ہے کہ آپ کسی سے زبردستی نعرہ نہیں لگوا سکتے، آپ اس بارے میں کیا کہیں گے‘‘۔
سیلانی نے مزید کیا کہنا تھا، اسے یقین آگیا کہ امت کے مانیٹرنگ ڈیسک سے غلطی نہیں ہوئی، غلطی پیپلز پارٹی کے محمد بن قاسم سے ہوئی ہے، نثار کھوڑو جس پر جان نثار کرنے کا دعوی ٰ کرتے ہیں، اس پیر جواں مرد نے پاکستان کو تاریخی غلطی، عذاب اور ناسور کہنے والے کو انکل پکارا ہے اور غدار کہنے کی تردید کی ہے۔’’بھتیجے‘‘ نے انکل کو خوش کرنے والا یہ بیان مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے بعد دیا تھا اور کہا تھا کہ انہوں نے انکل کو کبھی غدار نہیں کہا، وہ ایک سیاسی حقیقت تھے اور ہیں۔ پیپلزپارٹی کے ’’محمد بن قاسم ‘‘ کے بیان کے بعد ان کے سرداروں نے بھی گھوڑوں کا رخ بدلنا ہی تھا، سو نثار کھوڑو نے بھی رخ بدل لیا، لیکن یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے ہیوی ویٹ بتائیں کہ آئین کا آرٹیکل 6 کس کالج مدرسے کی دیوار کی جانب پیشاب کرنے سے لگتا ہے؟ اس دشت کی سیاحی میں عمر گزارنے والے بوڑھے شمشیر زن بتائیں کہ اسمبلی میں قرارداد پیش کرتے ہوئے انہوں نے آرٹیکل 6 نہیں پڑھا تھا؟ انہیں خبر نہیں تھی کہ یہ مجروں میں پی جانے والی شراب کا نام ہے یا آئین کی کوئی شق ہے؟ بےشک انہوں نے مطالبہ وفاق سے کیا تھا جو آرٹیکل 6 کے تحت ہی کارروائی کا تھا، دفعہ 144 کے تحت نہیں۔ سندھ اسمبلی نے الطاف حسین کو غدار سمجھا تھا تو آئین کی اس شق کے تحت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا، سیلانی کو یاد ہے کہ وہ اس روز اسمبلی ہی میں تھا، اور اس روز کھوڑو صاحب نے بھی سفید لباس میں اس قرارداد پر خوب گرج برس کر تقریر کی تھی۔ کھوڑو صاحب تو وہ پرانے پارلیمنٹیرین ہیں جنہیں آئین قانون کی شقیں زبانی یاد رہتی ہیں۔ اپوزیشن کو تو گلہ ہی یہ رہتا ہے کہ وہ بات بات پر اسمبلی رولز کی کتاب کھول کر ان کی پیش کی جانے والی تحریکوں کے پاؤں باندھ دیتے ہیں، حیرت ہے وہ بھول گئے کہ آرٹیکل چھ آئین شکنی پر اور غداری کے الزام میں ہی لگتا ہے۔
یہ وہی مطالبہ ہے جو پیپلز پارٹی پرویزمشرف کے لیے کرتے چلی آرہی ہے جن پر الزام آئین توڑنے کا ہے، یہاں تو بلاول کے انکل اپنے ساتھیوں کو پاکستان توڑنے کے لیے اسرائیل بھارت اور ایران سے مدد مانگنے کے احکامات دے رہے ہیں، سرعام پاکستان کو ناسور، دہشت گردی کی نرسری اور عذاب قرار دے رہے ہیں، بلاول نے کل انہیں غدار نہیں کہا تو اس پر انہیں افسوس اور شرمندگی ہونی چاہیے، اور اگر وہ پاک وطن کو ناسور کہنے والے کے لیے کوئی راستہ نکالنا چاہ رہے ہیں تویہ ان کی بدقسمتی ہوگی، اور وہ لوگوں کے دلوں سے نکل کر ملکی سیاسست کے محمود خان اچکزئی بن جائیں گے۔ بلاول کے اتالیقوں کو متحرک ہونا اور بلاول کو سمجھانا ہوگا، اور اگر یہ لائن ہی ان کی دی ہوئی ہے تو پھر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ زرداری قبیلے کے اس نوجوان نے اپنے گھوڑے کا رخ دلدلی زمینوں کی طرف کر دیا ہے۔ ابھی بھی وقت ہے، لگامیں کھینچی جا سکتی ہیں ورنہ دلدلیں زمین کی تہہ میں کھینچ لیتی ہیں۔ یہ سوچتے ہوئے سیلانی رنگ بدلتے نثار کھوڑو کو طنزیہ مسکان کے ساتھ دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
پہلے بہت زیادتیاں کیا کرتے تھے بچوں کو اخلاق کا درس دیا جاتا تھا ان کی طبعیت میں نرمی احترم بھرا جاتا تھا ۔ آج کے بچے یہ سب بردشت نہیں کرتے اچھا مزہ چکھا دیتے
میرے ایک بھائی تھے انہیں ڈاکٹری کے آخری سال سات سال تک پاس نہیں کیا گیا ضرف اس لئے کہ انہوں نےپہلی بار ڈاکٹری کے آخری امتحان میں میں اچھا لکھا تھا ایک بار پیپر دیکھکر کیا غلطی کی جاننا چاہتا ہوں کہا تھا ۔۔ ان کا کیریر بھی خراب کردے کورنمنٹ جاب عمر نکل جانے سے مل نہ سکی خیر آپ کی اس پوسٹ سے کئی لوگوں کو نقصان ہونے سے ڈر کر امید کہ طالبِعلم کو بھی اپنے بچوں کی طرح دیکھا کرینگے۔