سیلانی کو زرداری قبیلے کے بلاول بھٹو نے ہفتہ 8 اکتوبر کے روزنامہ امت کے ذریعے حیران کیا بلکہ ششدر کر دیا تھا سچی بات ہے اسے یقین نہیں آیا کہ بےنظیر بھٹو کا سپوت ایسا بھی کہہ سکتا ہے، اسے لگا کہ بلاول زرداری کے الفاظ توڑ مروڑ کر خبر کے قالب میں ڈھالے گئے ہیں اور ایساہو جاتا ہے، یہ سوچ کر اس نے خبر کا ماخذ تلاش کیا تو پتہ چلا کہ یہ خبرمانیٹرنگ ڈیسک سے لی گئی ہے، یعنی’’امت‘‘ میں الیکٹرانک میڈیا پر نظر رکھنے والے ساتھی نے کسی نیوز چینل پر یہ خبر سنی دیکھی ہوگی اور بنا کر نیوز ڈیسک کو دے دی ہوگی۔ سیلانی نے اب سوچا کہ ہوسکتا ہے ان صاحب سے سننے یا سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو، وہ اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ ہفتے کے روز پیپلز پارٹی کے جیالے وزیر نثارکھوڑو کی نیوز کانفرنس کی اطلاع ملی، اس کا خیال تھا کہ بلاول صاحب کے بیان کے بعد یہ وضاحتی نیوز کانفرنس ہوگی اور کہا جائے گا کہ بلاول بھٹو زرداری کا یہ مقصد نہیں تھا، سیاق و سباق سے ہٹ کر توڑ مروڑ کر میڈیا نے خبر لگائی ہے، وہ شدید گرمی میں سندھ اسمبلی کے کمیٹی روم میں پہنچ گیا، راشد ربانی، وقار مہدی اور نجمی عالم کے ساتھ نثار کھوڑو تشریف فرما تھے، خیال تھا کہ ’’یقینا‘‘ کا تکیہ کلام بےدریغ استعمال کرنے والے نثار کھوڑو ہی یہ کام کریں گے جو کبھی فاروق ستار اپنے سابقہ قائد کے خطاب کے بعد کیا کرتے تھے، وہ بھی وضاحتیں دیا کرتے تھے، یہ بھی صفائیاں دیں گے۔
’’پیپلز پارٹی اپنے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں اور زیادہ تندہی اور لگن کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے، تنظیمی کام کو آگے بڑھایا جا رہا ہے، پارٹی تاریخ میں پہلی بار تمام وارڈ، ضلعی، صوبائی تنظیمیں تحلیل کی گئی ہیں کہ۔‘‘
اس کے بعد سیلانی اف کر کے رہ گیا۔ نثار کھوڑو صاحب کی تمہید کسی قوالی کے دورانیے سے کم کی نہیں ہوتی اور آج تو کچھ زیادہ ہی لمبی لگ رہی تھی، وہ چاہ رہا تھا کہ وہ جلد از جلد اپنی بات سمیٹیں اور مطلب پر آئیں، خدا خداکر کے ان کی تمہید مکمل ہوئی اور پھر وہ چوہا برآمد ہو ہی گیا جس کے لیے پہاڑ کھوداگیا تھا، کونسلروں کی سطح کے دو ’’لیڈر‘‘ پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر رہے تھے، ان میں ایک صاحب یونین کونسل مؤمن آباد اورنگی ٹاؤن کے ٹاؤن ناظم رہ چکے تھے اور دوسرے عوامی نیشنل پارٹی سے تائب ہو کر جیالا بھرتی ہو رہے تھے۔ نثار کھوڑو نے انہیں پارٹی میں خوش آمدید کہہ کر صحافیوں کو سوال جواب کے لیے دعوت دی۔ حسب روایت تیز لہجوں اور اونچی آواز میں بولنے والے دوستوں نے سب سے پہلے ان کی توجہ حاصل کی اور کھوڑو صاحب سے سوال جواب کرنے لگے، ایک دوست نے پوچھا کہ پیپلز پارٹی 18 اکتوبر کو ریلی نکالنے جا رہی ہے، اس کے شرکاء لاکھوں کی تعداد میں ہوں گے یا ہزاروں میں؟ دوسرے دوست کو پرویز مشرف کا انٹرویو یاد تھا، اس نے سوال کیا کہ سابق آمر جمہوریت کو پاکستان کے لیے موزوں قرار نہیں دے رہے، اس پر آپ کی پارٹی کا کوئی بیان آیا؟
اس نوع کے سوالات کے بعد ایک ساتھی نے سیلانی کے منہ کی بات چھین لی ’’کھوڑو صاحب یہ فرمائیے گا کہ بلاول بھٹو زرداری نے الطاف حسین کو غدار کہنے سے انکار کر دیا ہے، اگر وہ غدار نہیں تھے تو پھر سندھ اسمبلی میں ان کے خلاف قرارداد کیوں پاس ہوئی؟‘‘
سیلانی ہمہ تن گوش ہو گیا کہ کھوڑو صاحب نے جواب دینے کے لیے چند سیکنڈ کا توقف کیا اور کہنے لگے’’سندھ اسمبلی کی قرارداد میں الطاف حسین کی نفرت انگیز تقریر کے خلاف وفاق سے کارروائی کی استدعا کی گئی تھی جس کے جواب کے آپ بھی منتظر ہیں اور ہم بھی‘‘۔ سوال واضح اور جواب مبہم تھا، سیلانی سے رہا نہ گیا، وہ کیمرہ مینوں کی بھیڑ چیرتا ہوا آگے بڑھا اور کھوڑو صاحب کو مخاطب کر کے کہنے لگا ’’جناب! نہ ادھر ادھر کی بات کر تیری رہبری کا سوال ہے۔ آپ صرف یہ بتا دیں کہ پاکستان کو ناسور کہنے والا شخص غدار ہے یا نہیں؟‘‘سوال جتنا واضح اور صاف تھا، اس کا جواب بھی انہوں نے اتنا ہی گول مول دیا، موصوف نے فرمایا کہ ’’آج ہی کے اخبار میں محمود خان اچکزئی کا بیان لگا ہوا ہے کہ آپ کسی سے زبردستی نعرہ نہیں لگوا سکتے، آپ اس بارے میں کیا کہیں گے‘‘۔
یہ وہی مطالبہ ہے جو پیپلز پارٹی پرویزمشرف کے لیے کرتے چلی آرہی ہے جن پر الزام آئین توڑنے کا ہے، یہاں تو بلاول کے انکل اپنے ساتھیوں کو پاکستان توڑنے کے لیے اسرائیل بھارت اور ایران سے مدد مانگنے کے احکامات دے رہے ہیں، سرعام پاکستان کو ناسور، دہشت گردی کی نرسری اور عذاب قرار دے رہے ہیں، بلاول نے کل انہیں غدار نہیں کہا تو اس پر انہیں افسوس اور شرمندگی ہونی چاہیے، اور اگر وہ پاک وطن کو ناسور کہنے والے کے لیے کوئی راستہ نکالنا چاہ رہے ہیں تویہ ان کی بدقسمتی ہوگی، اور وہ لوگوں کے دلوں سے نکل کر ملکی سیاسست کے محمود خان اچکزئی بن جائیں گے۔ بلاول کے اتالیقوں کو متحرک ہونا اور بلاول کو سمجھانا ہوگا، اور اگر یہ لائن ہی ان کی دی ہوئی ہے تو پھر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ زرداری قبیلے کے اس نوجوان نے اپنے گھوڑے کا رخ دلدلی زمینوں کی طرف کر دیا ہے۔ ابھی بھی وقت ہے، لگامیں کھینچی جا سکتی ہیں ورنہ دلدلیں زمین کی تہہ میں کھینچ لیتی ہیں۔ یہ سوچتے ہوئے سیلانی رنگ بدلتے نثار کھوڑو کو طنزیہ مسکان کے ساتھ دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
پہلے بہت زیادتیاں کیا کرتے تھے بچوں کو اخلاق کا درس دیا جاتا تھا ان کی طبعیت میں نرمی احترم بھرا جاتا تھا ۔ آج کے بچے یہ سب بردشت نہیں کرتے اچھا مزہ چکھا دیتے
میرے ایک بھائی تھے انہیں ڈاکٹری کے آخری سال سات سال تک پاس نہیں کیا گیا ضرف اس لئے کہ انہوں نےپہلی بار ڈاکٹری کے آخری امتحان میں میں اچھا لکھا تھا ایک بار پیپر دیکھکر کیا غلطی کی جاننا چاہتا ہوں کہا تھا ۔۔ ان کا کیریر بھی خراب کردے کورنمنٹ جاب عمر نکل جانے سے مل نہ سکی خیر آپ کی اس پوسٹ سے کئی لوگوں کو نقصان ہونے سے ڈر کر امید کہ طالبِعلم کو بھی اپنے بچوں کی طرح دیکھا کرینگے۔