ہوم << جو ہو ذوق یقیں پیدا - حنا تحسین طالب

جو ہو ذوق یقیں پیدا - حنا تحسین طالب

سیرت نبوی ﷺ میں ایک مشہور واقعہ ملتا ہے کہ مسلمانوں کے قافلے نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا، نبی کریمﷺ آرام کی غرض سے اپنی تلوار ایک درخت پر لٹکا کر درخت کے سائے میں آرام فرمانے لگے، کہ اتنے میں ایک شخص دبے قدموں آکر نبی کریم ﷺ کی تلوار اپنے قبضے میں لیتا ہے اور بےنیام تلوار نبی کریم ﷺ پر تان کر آپ ﷺ کو للکارتا ہے. اس دوران جو گفتگو نبی ﷺ اور مذکورہ شخص کے درمیان ہوتی ہے، اس کا مفہوم کچھ یوں ہے،
”اے محمد! اب تمھیں مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟“
نبی کریم ﷺ بغیر کسی خوف اور گبھراہٹ کے نہایت اطمینان سے ارشاد فرماتے ہیں ”میرا اللہ“.
یہ الفاظ سننے کی دیر تھی کہ اس شخص کے جسم پر لرزہ طاری ہوگیا اور شدت رعب کے باعث اس کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ کر گر پڑی.
نبی کریم ﷺ تلوار ہاتھ میں لے کر جو فرماتے ہیں، اس کا مفہوم ہے کہ،
”اب تجھے مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟“
اس موقع پر نبی کریم ﷺ مذکوره شخص پر دسترس پانے کے باوجود اسے معاف فرما دیتے ہیں.
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت نبی کریم ﷺ بغیر اسلحے کے تھے، قریب میں کوئی جاں نثار صحابی بھی موجود نہ تھے، بظاہر آپ کے پاس کوئی سبب موجود نہ تھا اور آپ کا دشمن بظاہر اسباب کے ساتھ آپ ﷺ پر مکمل قادر تھا، اور آپ ﷺ کے قتل کا ارادہ رکھتا تھا، پھر وہ کون سی طاقت تھی جس نے مذکورہ شخص کو اس قدر مرعوب کردیا کہ اس کی قوتوں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا، نبی ﷺ نے تو محض چند الفاظ ادا کیے تھے.
تو جواب یہ ہے کہ یہ یقین کی طاقت تھی، وہ محض الفاظ نہیں تھے جو زبان سے ادا کر دیے گئے، بلکہ وہ نبی کریم ﷺ کے اللہ پر توکل اور کامل یقین کے عکاس تھے.
اس بات پر یقین کہ کل نفع و نقصان کا اختیار صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ توکل و اعتقاد جس کی تلقین ایک موقع پر نبی کریم ﷺ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کو ان الفاظ میں کی تھی کہ
”یہ یقین جانو کہ اگر پوری دنیا والے تمھیں نفع پہنچانے کے لیے جمع ہو جائیں تو تمھیں اتنا ہی نفع پہنچا سکیں گے جتنا اللہ تعالی نے تمھارے لیے لکھ رکھا ہے، اور اگر ساری دنیا والے تمھیں نقصان دینے پر تل جائیں تو اتنا ہی نقصان دے سکیں گے جتنا اللہ تعالی نے تمھارے لیے لکھ رکھا ہے، قلم اٹھا لیے گئے ہیں اور صحیفے خشک ہو گئے ہیں" ( یعنی اب یہ بات بدلی نہیں جائے گی).( مسند احمد)“
دراصل خوف اور لالچ دو ایسے جذبے ہیں جو انسان کو کمزور کر دیتے ہیں، نقصان پہنچ جانے کا خوف، نفع حاصل کرنے کا لالچ. مگر جس شخص کا یہ نظریہ پختہ ہو کہ ہر نفع و نقصان کا مالک اللہ ہے، اللہ کے اذن کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا تو ان دونوں جذبوں کی جڑ کٹ جاتی ہے. وہ اس نفسیاتی قید سے آزاد ہو جاتا ہے، وہ اپنے ہی جیسے بےاختیار انسان سے نہ خوف زدہ ہوتا ہے نہ ان سے کسی نفع کا لالچ رکھتا ہے، وہ مخلوق سے بے نیاز ہو کر صرف اللہ کا ہو جاتا ہے.
یہی بے نیازی اور اللہ پر یقین کی طاقت انسان کو ایسا اعتماد عطا کرتی ہے کہ پھر دشمن کے پاس ہر طرح کے وسائل ہونے کے باوجود انسان خوف زدہ یا نا امید نہیں ہوتا. اپنے حق پر ہونے کا یقین انسان کو اعتماد بخشتا ہے، پھر یہی اعتماد مخالف پر ایسا رعب طاری کرتا ہے کہ مکمل دسترس پانے کے باوجود، وہ انسان کو نقصان نہیں پہنچا سکتا.
اپنے نظریے کی حقانیت پر یقین، حق پر ہونے کا یقین، اللہ کی مدد سے ناممکن کو ممکن میں بدل سکنے کا یقین، اور اس یقین سے حاصل ہونے والا اعتماد انسان کو باطل کے سامنے جھکنے نہیں دیتا، اور کردار کی یہی جرات مخالف کو مرعوب کر دیتی ہے. دراصل، اصل طاقت یقین و کردار کی ہوتی ہے جس کے سامنے بڑی سے بڑی طاقت ہار جاتی ہے.
آج ہم مسلمانوں کو اپنے اندر یہی یقین پیدا کرنے کی ضرورت ہے. اسی یقین کے بل پر عرب کے صحرا نشینوں نے ایک دنیا پر حکومت کی، اور آج بھی اسی یقین کے بل پر انسان زندگی کے مسائل و چیلنجز کا مقابلہ جرات مندی سے کرتا ہے. شخصیت کی اسی خود اعتمادی کو علامہ اقبال یقین کا نام دیتے ہیں، فرماتے ہیں.
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

Comments

Click here to post a comment