یہ قول ہم نے بچپن سے سن رکھا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا واقعی ہم اس نصف ایمان کے حامل ہیں۔ گھر اور ماحول کی صفائی کو تو فی الحال چھوڑیں ہم اپنے جسم کی صفائی کا ہی جائزہ لیں کہ ہم خود کو کتنا صاف رکھتے ہیں۔
آداب مجلس میں ایک یہ بھی ہے کہ انسان سے کسی بھی قسم کی کوئی بدبو نہ آ رہی ہو۔ اور اگر وہ دینی مجلس ہو یا نماز باجماعت تو پھر صفائی کی اہمیت اور دوچند ہو جاتی ہے۔ ہر نماز سے پہلے وضو کرنا صفائی کی اہمیت واضح کرتا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ مسواک کرنے کی تاکید جس شدت سے احادیث میں آئی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر میں اپنی امت پر مشقت محسوس نہ کرتا تو ہر نماز سے پہلے مسواک کو فرض قرار دے دیتا۔
انسان خواہ چند منٹ کے لیے سو جائے یا زیادہ دیر کے لیے، اس کے منہ سے نیند کے دوران ایسے مادے خارج ہوتے ہیں جن کی بو ناخوشگوار ہوتی ہے، اگر نیند سے اٹھ کر مسواک یا برش نہ کیا جائے تو وہ خود تو شاید محسوس نہ کرے لیکن دوسرے انسانوں کے لیے یہ بو ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ اسی طرح کھانے پینے کے بعد اگر دانت صاف نہ کیے جائیں تو بھی بہت بری مہک دوسروں کے لیے تکلیف کا سبب بنی رہتی ہے۔
ہمارا دین پاک اور صاف رہنے کی بہت تلقین کرتا ہے اور خاص طور پر منہ کی صفائی بہت اہم ہے یہاں تک کہ حدیث میں ارشاد ہے کہ اگر لہسن یا پیاز کھایا ہو تو مسجد میں مت جاؤ کہ ان کی بو ناخوشگوار ہوتی ہے اور دوسرے نمازیوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔
اب تو میڈیکل سائنس نے بھی منہ کی صفائی کی اہمیت اور زیادہ واضح کر دی ہے۔ اور ڈاکٹر حضرات ہر کھانے کے بعد مسواک یا برش کرنے پر زور دیتے ہیں۔ اگر ہم یہ کام سنت رسول سمجھ کر کریں تو دہرا فائدہ ہے کہ ثواب بھی ملے گا اور صفائی بھی ہو جائے گی۔
ہم ویسے تو مہنگے پرفیوم اور دیگر کاسمیٹکس استعمال کرتے ہیں لیکن دانتوں کی صفائی اور ان سے آنے والی بو کو نظر انداز کیے رکھتے ہیں حالانکہ جب بھی انسان بات کرنے کے لیے منہ کھولے گا تو دوسروں کو فوری طور پر ناخوشگوار بو کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور یہ ایسی بات ہے کہ مروت میں بندہ کہہ بھی نہیں سکتا کہ تمہارے منہ سے بدبو آ رہی ہے۔
مسکراہٹ ہر انسان کی شخصیت کا ایک مثبت پہلو ہے لیکن اگر دانت صاف نہ ہوں اور منہ سے کوئی بھی بری مہک آ رہی ہو تومسکراہٹ بھی اچھی نہیں لگتی۔
آئیے ہم سب اپنا اپنا جائزہ لیں کہ دین کے احکام کے مطابق صفائی کے معاملے میں ہم کس مقام پر کھڑے ہیں اور اگر اس تحریر کو پڑھنے سے پہلے کبھی یہ احساس نہیں ہوا تھا تو آج ہی سےاس کا خیال رکھنا شروع کریں تاکہ ہمیں کسی بھی وقت شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
تبصرہ لکھیے