درد اس نے جان پر جھیلے تھے، سو وہ جانتا تھاکہ جب Bread نہ ملے تو انسان Cake کیوں نہیں کھاسکتے اور وہ اسحاق ڈار بھی نہ تھا کہ جو دال مہنگی ہونے پر قوم کو مرغی کھانے کا مشورہ دینے لگتا۔ وہ کچھ اور تھا، قطعی مختلف اور بے حد منفرد، اک عام آدمی۔کیا پوری قوم کی اجتماعی اوردلی افسردگی نے ثابت نہیںکر دیا کہ وہ واقعی کچھ اور تھا، عام آدمی، مگر اک اور طرح کا عام آدمی۔
وہ حکمراں نہ تھا، کہ شاہی ان دنوں ظرف سے تہی اور ضمیرسے عاری ادنیٰ تاجروں کے ہاں پیشہ کیا کرتی ہے۔ (الا ماشااللہ!) وہ سماجی رہنما بھی نہ تھا کہ نفیس سوٹ میں ملبوس بیش قیمت گاڑی سے اتر کر کبھی اس نے بدیسی زباں میں اجنبیوں سے داد نہیں سمیٹی۔ وہ خوش ادا اور خوش نوا نام نہاد Human Activist بھی نہ تھا کہ پنج تارہ ہوٹلوں کے یخ کمروں میں جو انسانیت کی لاش پر دو آنسو بہا کے بیرونی چندہ حلال کرتا۔ وہ فلاسفر بھی نہ تھا کہ جو منرل واٹر پیتے انسانیت نوازوں کے حضور چسکیلے نظریۂ ہائے ڈارون و فرائڈ کی ذہنی ورزش کرکے داد پاتا۔ وہ کوئی مذہبی سکالر بھی نہ تھا کہ سیرت و آیاتِ قرآنی سے دکھی انسانیت کی خدمت کے حوالے لا کر مجمع رلاتااور پھر اپنے معمولات ِ زندگی کی طرف لوٹ جاتا۔وہ معاملاتِ مذہب سے بھی زیادہ آگاہ نہ تھاکہ کبھی وہ ایسا بھی کہہ دیتاکہ جس پر حاشیے لگتے اور خرد کی ترازو میں وہ تولا جاتا۔ وہ ایسا ہی تھا۔ وہ ایک عام ہی آدمی تھامگر حوصلہ مندانسان اور رسولِ رحمت کا دردمندامتی بھی۔
یہ ضرور ہوا کہ درد کے کسی بوجھل لمحے اس نے اپنی پیشانی کا لکھا پڑھ لیا اورکا ش انسان کبھی جان پائے کہ عظمت بس یہ ہے کہ آدمی اپنامقصدِ تخلیق جانے ،اپنی صلاحیت پہچانے اور محنت کے مورچے پر مخلصانہ ڈیرہ ڈال دے۔زیادہ نہیں ،اللہ نے اس کی ماں کے ذریعے سے ،اسے صرف دو سبق دیئے تھے اور اس نے جی کر ہی نہیں،مرکربھی ان پر عمل کر کے ثابت کردکھایاکہ بس یہی دو سبق اس کی کامیابی کی شہ کلید تھے۔ اس کی ماں ہمیشہ اسے دو ٹکے دیا کرتی ، ایک خود پر خرچنے اور دوسرا بانٹنے کی غرض سے۔ یہ پہلا سبق تھا،یعنی: ’’تم پر جتنا تممھارے وجود کا حق ہے کم از کم اتنا ہی دوسرے انسانوں کا بھی تسلیم کر لو۔‘‘ ؎
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کم نہ تھے کروبیاں
ایدھی پھر اس سبق کی روح میں اتر گیا۔ اس نے دو جوڑوں، ایک اپارٹمنٹ اور ایک جوتے میں زندگی گزارنا سیکھ لی۔ اس نے کبھی تنخواہ نہیں لی اور کبھی چھٹی نہیں کی۔ یہاں تک کہ وہ ایسے ریکارڈ کا حامل اکلوتا عالمی شخص قرار پایا۔ ریکارڈ بن گیا لیکن چھٹی اس نے پھر بھی نہیںکی تاآنکہ وہ سیارۂ زمیں ہی سے ابدی چھٹی پر روانہ کر دیا گیا۔ 1939ء میں وہ 11سال کا تھا کہ جب بھارتی گجرات میں اس کی ماں مفلوج ہوگئی۔ تب اس نے جانا کہ پھول سا بوجھ ہوتی زندگی کچھ لوگوں پرکیسے زمیں سے دگنا بوجھ بھی بن جایا کرتی ہے اور تبھی اس نے اذیت سہتی اپنی معذور ماں کی کامل 8سال خدمت کرکے اپنا دوسرا اور آخری سبق بھی سیکھ لیا۔ معذوروں اور مجبوروں کے لیے جینے کا سبق۔
47ء کے بٹوارے میں یہ شخص انڈین گجرات سے ساحلِ کراچی پہ آبسا۔ زندگی کی جوئے شیر لانے کو اس نے کچھ ملازمتوں کا تیشہ تھاما مگر پھر جلد ہی،1951میں ایک بنچ کے پاس چند دوائیاں رکھیں اور دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس کی حامل فلاحی تنظیم تک چلنے کا سفر شروع کردیا۔ کراچی میں شب اور بدن میں تھکن اترتی تووہ اسی چوبی بنچ پر کلائی پرتکیہ کرکے سو رہتا۔ اس نے رفاہی کام کی اِک شریک کار نرس بلقیس کوشریکِ حیات کیا اور یوں اللہ نے اسے دو بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازدیا۔ اس نے مگر اپنی اولاد ساری دکھی انسانیت کو سمجھا اور ان کے لئے اس سے بھی بڑھ کر کیاجتنا اپنے والدین کیا کرتے ہیں۔ایدھی کی خدمت کی بانہیںپھر دنیا بھر کے دکھیاروں کے گلوں کا ہار ہونے لگیں اور اس کا دستِ شفقت بلا تفریقِ رنگ و نسل انسانیت کے اشک پونچھتا چلا گیا۔ بالتدریج ایدھی دکھی دلوں کا سہارا اور پاکستانی شناخت کا عالمی منارہ بنتے گئے۔ یوں ایک لٹے پٹے فاقہ مست مسافر نے خدمت کی عالمی گیم اور فیم پاکستان کی قسمت کردی۔ اس کی جیت کی، اس سے اگلی کہانی عام ہے۔ لیکن نہیں، اگلی کہانی ایدھی کی نہیں ،وہ اس قوم کی جیت کی کہانی ہے۔ وہی پاکستانی قوم جو کرۂ ارض کی سب سے بڑی فیاض قوم ثابت ہوئی ہے، لیکن جس کوکچھ دانش وربالتکرار اور بالاصرار کائنات کی بھدی ترین قوم باور کرانے کی تنخواہ پاتے ہیں۔ اس کے باوجود کہ صرف اسی قوم کے ظرف اور زر نے انھیں نام اور کا م دے رکھا ہے۔ کیا انھیں ڈرنا نہیں چاہئے کہ کہیں یہ قوم انھیں دئیے نام کا ’نا‘ اتار کے ان کے ’کام‘کے شروع میںرکھ ڈالے؟ بہرحال اس قوم کے بازوئے اعتماد نے ایدھی کے خواب کی تعبیر بُنی اوراس قوم کے دستِ فیاض نے ایدھی کے تراشیدہ تعمیرِانسانیت کے گھروندے کی اینٹ پر اینٹ جڑی۔نتیجہ معلوم کہ آج یہ 88سالہ بابا یوں فرش ِ کراچی سے یوں اٹھا ہے کہ ہر شہری کے لب پہ اس کا نام اور ہر شہر میں اس کا کام ہے۔کیا اتفاق ہے کہ ایک ملک کا وزیر اعظم لاہور میں اترتااور ایک دکھی دلوں کا حکمران کراچی میں رخصت ہوتا ہے۔ لطف دیکھئے کہ ایک کے لئے سرکار جبراً عوامی ٹریفک روکتی ہے تو دوسرے کے لئے عوام سرکار کا ٹریفک جام کردیتے ہیں۔یوں ایدھی کی زندگی ہی نہیں موت بھی ایک سبق بن جاتی ہے۔
ایدھی نے خود کو مٹی کردیا مگر نشانِ امتیاز سمیت کئی تمغوں اور ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریوں نے اس درویش کا پیچھا کیا۔اس کا اصلی اعزازلیکن محض یہ ہے کہ وہ عام آدمی کے لیے عام آدمی کی طرح جیا۔مسافرت ومہاجرت نے اسے جس زمیں اور جس مشن پر لا دھرا تھا، وہ مر اتواس کے قدموں تلے وہی زمیں، سر پر وہی آسمان اور لبوں پر اسی مشن کا ترانہ ’’غریبوں کا خیال رکھنا‘‘ گونجتاتھا۔
یہ ایدھی تھا، جسے زندگی بھر قوم نے وہ سب دیا جس کی اس نے چاہ کی۔ دل ، دھن اور دولت۔ عزت ، شہرت اور فضیلت۔ لیکن کیا یہ دیالوقوم ایدھی کا دیا ایک سبق بھی لینے کی متحمل ہوسکے گی؟ اس نے گدڑی اور گلیم فقیری میں شاہی کرنے کا ہنر دیا۔ اس نے مٹ کردلوں میں انمٹ ہونے کا سبق دیا۔ اس نے ثابت کیا کہ ہاتھ زبان سے کہیں موثر مبلغ ہیں۔ اس نے بتایا کہ وطن اور وفا کے دامن میں ڈالا سکہ کبھی برباد نہیں ہوتا۔ اس نے ثابت کیا کہ اسرائیلی فوجی اور ائیر پورٹس کے کچھ کارندے گاہ ایدھی کا جسدروک سکتے ہیں، لیکن ایدھی کے مشن کی خوشبو پرکوئی سرحد کبھی روک نہیں لگاسکتی۔ اس نے بتایا کہ کوئی گونگا بھی خدمت پر اتر آئے تو دنیا کی ہر زبان اس کیا قصیدہ کہے گی۔اس نے بتایا کہ کوئی قلاش اور کنگال بھی اگر ٹھان لے تو آدھی دنیا کے قلاشوں کا سائبان بننے سے اسے پوری دنیابھی نہیں روک سکتی۔اس نے بتایا کہ عزت عبدالستار ایدھی کے ساتھ سیلفی لینے سے نہیں عملاعبدالستار ایدھی بننے سے ملتی ہے۔اس نے اس کیپیٹل ازم کے اس دورِ ریاکار میں بھی ثابت کر دکھایا کہ
یہاں ’آدمی‘ کی قیمت ہے ’لباس‘ کی نہیں
ہاں وہ جا چکا ، اگر چہ قرطاسِ دل اور صفحات ِ تاریخ سے وہ کبھی نہ جا سکے گا سوال مگر یہاں محض یہ ہے کہ اس نے صرف دو سبق سیکھے اور انسانیت کچھ سر بلنداور سر و قد ہوگئی۔ کیا ہم بھی اس کی داستانِ لذیذ اور حکایتِ دلپذیر سے عمل کا کوئی درس لے سکیں گے؟ کیا ایسا بڑا شخص واقعی ہم کھو دیں گے؟
تبصرہ لکھیے