آیا ہے تو جہاں میں مثالِ شرار دیکھ
دم دے نہ جائے ہستیء ناپائیدار دیکھ (علامہ اقبال)
۔
انسانی زندگی حادثات و واقعات سے عبارت ہے۔ تباہی ازل سےانسان کے ہم قدم رہی ہے۔ دنیا کو جائےعبرت کہا جاتا ہے اور عبرت کے یہ مناظر ہم ہر روز کسی نہ کسی شکل میں اپنے اِردگرد دیکھتے ہیں۔ کبھی انسان پر انسان کے ہاتھوں ظلم سے اور کبھی قدرتی آفات کی صورت میں المیوں کی ایک بھیانک داستان ہماری نظر کے سامنے سے گزرتی جاتی ہے۔
پاکستان اور دنیا کی تاریخ زلزلوں سے بھری پڑی ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں مختلف درجوں کے زلزلے سارا سال آتے رہتے ہیں اور تباہی وبربادی کے انمنٹ نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ لیکن ایسا ہی ایک زلزلہ پاکستان کے لاکھوں لوگوں کو تہس نہس کر دے گا، یہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔
آٹھ اکتوبر2005ء کو رمضان المبارک کا تیسرا روزہ تھا۔ جمعہ کی صبح آٹھ سے نو بجے کے درمیان پاکستان کے شمال مشرقی پہاڑی علاقے میں7.6 شدت کا زلزلہ آیا۔ اس کے نتیجے میں انسانی جان مال کے ضیاع کی صورت میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ وقوع پذیر ہوا۔ انتہائی کم گہرائی میں ہونے والے اس عظیم ارضیاتی تغیر نے صوبہ سرحد اور آزادکشمیر کے اضلاع میں چہارسو قیامتِ صغریٰ برپا کر دی۔آزاد جموں وکشمیر اور صوبہ سرحد کی پندرہ تحصیلیں صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں۔
ایک منٹ کے اندر زبردست چنگھاڑ کے ساتھ زلزلے کے پےدرپے شدید جھٹکوں نے لوگوں کو گھروں سے باہر نکلنے کی مہلت ہی نہ دی۔ بلندوبالاعمارتیں خس وخاشاک کا ڈھیر بن گئیں، ہزاروں لوگ ٹنوں ملبے تلے دب گئے۔ بہت کم لوگ اپنی جانیں بچانے میں کامیاب ہوئے۔ پہاڑ اپنی جگہ سے سرک گئے، سڑکیں لینڈ سلائیڈنگ کی نذر ہو گئیں اور ان پر رواں دواں گاڑیاں دریا میں جا گریں، رکاوٹوں کے باعث دریا کے بہاؤ تھم گئے اور سیلاب کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ غرض یہ کہ بےچارگی اور بےبسی کی ایک نہ ختم ہونے والی داستان نےجنم لیا۔ جہاں بےشمار لوگ دنیا سے رخصت ہوئے وہیں شدید جسمانی اور ذہنی گھاؤ ہزاروں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محتاجی دے کر زندہ درگور کر گئے۔ خاندان کے خاندان ختم ہو گئے، بچے اپنے پیاروں سے بچھڑ گئے۔ ہزاروں تعلیمی ادارے بچوں کے مدفن بن گئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہوئے، ہزاروں ذہنی اور جسمانی طور پر معذور ہوگئے۔ اس سے بڑھ کر لاکھوں افراد نہ صرف سر پر چھت بلکہ پیروں تلے آبائی علاقوں کی زمین سے بھی محروم ہو گئے۔ ان علاقوں کوزلزلے کے ممکنہ خدشے کے پیشِ نظر رہائش کے لیے خطرناک قرار دے کر ریڈزون کہا گیا۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق اسی لاکھ سے زائد آبادی اس المیے سے متاثر ہوئی۔
کہیں اجڑی اجڑی سی منزلیں کہیں ٹوٹے پھوٹے سے بام ودر
یہ وہی دیار ہے دوستو جہاں لوگ پھرتے تھے رات بھر
آزادکشمیر کا دارالخلافہ مظفرآباد جو حسین وادیوں جہلم اور نیلم کے سنگم پر ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی معیار کا سیاحتی شہر بن رہا تھا، لمحوں میں یہ جیتا جاگتا شہر عہدِ جدید کا آثارِ قدیمہ بن گیا۔ دیکھنے والے اسے نئےعہد کا ہڑپہ کہتے جہاں صدیوں تک دے ہوئے ملبے سے انسانی اعضاءاور تہذیبِ انسانی سے وابستہ دوسری اشیاء برآمد ہو کر آنے والے دور میں تہذیبوں کے لیے عبرت کا سامان بنتی رہیں گی۔ آزادکشمیر کے وزیرِاعظم بےساختہ کہہ اُٹھے کہ میں اب قبرستان کا وزیرِاعظم ہوں۔
زلزلے کی تباہ کاریوں سے قریبی شہر دارالحکومت اسلام آباد بھی محفوظ نہ رہا۔ اس کے سیکٹر ایف ٹین میں جدید سہولیات سے آراستہ رہائشی ٹاور پہلے ہی جھٹکے میں زمین بوس ہوگیا جس میں قریباً سو کے قریب افراد جاں بحق ہوگئے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہرفرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
آٹھ اکتوبر کا زلزلہ جہاں ایک بہت بڑی قدرتی آفت تھا وہیں یہ ہر لحاظ سے پوری پاکستانی قوم کا امتحان بھی ٹھہرا۔ گلگت سے کراچی تک اور خیبر سے گوادر تک پاکستانی عوام نے ہر طرح کے اختلافات پسِ پشت ڈال کر متاثرینِ زلزلہ کی بھرپور جانی اور مالی امداد کی۔ جدید مشینری کی عدم دستیابی کے باوجود آہنی عزم کے بل بوتے پر ہمارے جوان زندگیاں بچانے میں پیش پیش رہے۔ ہسپتالوں میں خون دینے والوں کی قطاریں لگ گئیں۔ ایک جذبہ تھا، ایک لگن تھی جس کے پاس جو صلاحیت تھی، اُس نے قوم کے سامنےرکھ دی، نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ بیرونِ ملک سے بھی دردمند پاکستانی کشاں کشاں اپنی قوم کی مدد کو چلے آئے۔ انسانی جذبوں اور اٹوٹ رشتوں کی ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔ اُداسی اور غم کی اندھیری شام کے بعد ایک نیا سورج طلوع ہوا جس نے فرقہ واریت، لسانی تعصب، علاقائی تفریق اور سیاسی گروہ بندیوں سے قوم کو آزاد کر دیا۔ اہلِ پاکستان نے پوری دنیا سے یہ منوا لیا کہ عام حالات میں یہ قوم جس قدر بکھری ہوئی اور الگ الگ راستوں کی مسافر نظر آتی ہے، مصائب اور آفات کے وقت تسبیح کے دانوں کی طرح جُڑ جاتی ہے۔علامہ اقبال نے بہت پہلے اس حقیقت کا ادراک ان الفاظ میں کیا۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
آٹھ اکتوبر کو آنے والے زلزلے کے بعد اگر پاکستانی قوم کا جذبۂ خدمت اُبھر کر سامنے آیا تو انسان کی سفاکی اور بےحسی کے لرزہ خیز واقعات نے انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا۔جب مرتے ہوئے جسموں سے زیورات نوچے گئے تو کہیں بہت سے بےسہارا بچےاور خواتین نامعلوم افراد کی خباثت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ سینکڑوں ابھی تک لاپتہ ہیں جن کی موت یا زندگی کے بارے میں ان کے پیارے شاید ہمیشہ شک و شبے کا شکار رہیں گے۔
اس ہولناک زلزلے کو آئے ایک عشرہ گذر گیا، اور آج یہ عالم ہےکہ اِن علاقوں کے بہت سے لوگ اب بھی خیموں اورعارضی مکانوں میں مقیم ہیں۔ زلزلے سے منہدم ہو چکے تعلیمی ادارے بمشکل پچاس فیصد بحال ہوئے۔ صوبہ سرحد میں وادی کاغان کا سیاحتی دروازہ بالاکوٹ کا شہر جو تقریباً پورا کا پورا تباہ ہو گیا تھا، فالٹ لائن پر ہونے کی وجہ سے یہاں حکومت کی طرف سے کوئی ترقیاتی کام نہیں کیا گیا۔ حکومتی سطح پر بحالی کے اقددامات صرف دعوؤں اور وعدوں کی حد سے آگے نہ بڑھ سکے۔ اپنی نسلوں کو حرام کی دولت وراثت میں دینے والے اہلِ اقتدار نے کرپشن اور لوٹ مار کی بہتی گنگا میں اپنا حسہ خوب وصول کیا، وقت گزرنے سے مالی اور معاشی زخم تو کسی حد تک مندمل ہو ہی گئے لیکن ایک قومی سانحہ محض ان خاندانوں کی ذاتی یاد بن کر رہ گیا جن کے اپنے اس زلزلے کی نذر ہو گئے تھے۔
رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے
نَے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
ہلکے پھلکھے مزاحیہ انداز میں اچھا جواب تھا۔ ماشاء اللہ