آئن سٹائن کے ’’نظریۂ خصوصی اضافیت‘‘یعنی ۱۹۰۵ کے بعد کی تمام تر فزکس کو جدید فزکس کہا جاتا ہے۔ اس سے پہلے کی فزکس کو قدیم فزکس یا کلاسیکل فزکس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جدید فزکس کو دنیا میں وارد ہوئے ایک صدی سے زیادہ وقت گزرچکاہے لیکن ابھی تک دنیائے علوم میں زیادہ تر راج قدیم فزکس کا ہی ہے۔ اکیڈمیا پر قدیم فزکس کی بالادستی کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ روٹی، کپڑا اور مکان۔ بالفاظِ دِگر زیادہ سے زیادہ توانائی کا حصول۔ نیوٹن نے میکانیات کے جو قوانین مقرر کیے اُن کی مدد سے مشینیں بنتی ہیں۔ مشینیں ہرطرح کی پیداوارکا ذریعہ ہیں۔
اس کے برعکس جدید فزکس کا سب سے بڑاحصہ فقط نظری فزکس پر مشتمل ہے جو پیداوار بڑھانے یا توانائی کے حصول میں کچھ خاص مددگار نہیں۔ اسی طرح جدید فزکس کا ایک اور بڑا حصہ یعنی فلکیات ِجدیدہ بھی سردست نِری انویسٹمنٹ ہی ہے۔ اگرچہ فی زمانہ زمین کے مدار میں مواصلاتی سیّاروں کی ایک پوری فوج موجود ہے جو سیّارۂ زمین کے مواصلاتی نظام کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے چکی ہے لیکن پھر بھی ماڈرن ایسٹرونومی سے پیداواری ذرائع میں ویسا اِضافہ ممکن نہیں جیسا فزکس کی دیگر شاخوں سے ممکن ہے۔
جدید فزکس کے باقی شعبوں میں پارٹیکل فزکس سب سے اہم ہے۔ ایٹمی توانائی کے حصول کی دوڑ میں فقط وہی قوم زیادہ جلدی آگے بڑھ سکتی ہے جو پارٹیکل فزکس کی تعلیم میں سبقت لے جائے۔ غرض آج بھی کلاسیکل فزکس کا غلبہ ہے تو اس لیے کہ انسان ابھی تک سروائیول کی جنگ میں مصروف ہے۔ انسان ابھی تک جہد ِ للبقا ٔ کی اُس اِضافی مشکل سے خود کو نکال نہیں سکا جس میں کیڑے مکوڑوں سے لے کر اشرف المخلوقات تک، ہرنوعِ حیات روزِ اوّل سے محصور ہے۔ اگر کبھی انسان کو فقط سروائیو کرنے سے بڑھ کر حقیقی معنوں میں زندگی جینے کا ڈھنگ آگیا تو بہت ممکن ہے کہ انسان جدید فزکس کے عجائبات سے کماحقہُ استفادہ کرسکے۔
اگر ہم اپنا وقت بچانے کے لیے فزکس کی تاریخ میں زیادہ پیچھے تک نہ جائیں اور فقط جدید فزکس کا پس منظر جاننا چاہیں تو نیوٹن سے آئن سٹائن تک فزکس کی ساری تاریخ ہمارے مطالعہ کا حصہ ہوگی۔ یوں تو یہ تاریخ بھی خاصی طویل ہے لیکن ہم اپنی توجہ فقط اُن موضوعات تک محدود کرسکتے ہیں جو دورِ حاضر میں جدید فزکس کے گرما گرم مباحث ہیں۔ مثلاً زمان و مکاں، مادہ و توانائی، بنیادی ذرّات، موجیں یا حرکت وغیرہ جو اصل میں فزکس سے زیادہ فلسفہ کے موضوعات ہیں۔ ہمیں فقط اتنا دیکھنا ہے کہ آئن سٹائن سے پہلے اِن موضوعات پر قدیم فزکس کیا کہتی تھی۔
آئن سٹائن سے پہلے فزکس کا سب سے بڑا اِمام’’نیوٹن‘‘ ہے۔ نیچرل سائنسز کے لوگ نیوٹن کو بابائے میکانیات جبکہ سوشل سائنسز کے لوگ اُسے بابائے مادیات کے لقب سے یاد کرتےہیں۔ یہ اتفاق کی بات ہے یا قدرت کی کوئی تدبیر کہ نیوٹن اُسی سال پیدا ہوا جس سال گیلیلیو (Galileo )کی وفات ہوئی۔ 8 جنوری 1642 گیلیلیوکی وفات ہے جبکہ 25 دسمبر 1642 نیوٹن کی پیدائش ہے۔
نیوٹن کا پیشرو یعنی گیلیلیو کون تھا؟ یہ وہ شخص ہے جس نے سب سے پہلے عدسے کی مدد سے دُور بین ایجاد کی اور اُس کااستعمال کرکے زمین سے باہرکی دنیا میں ایک ایسی کھڑکی کھول دی جس سے نظرآنے والی کائنات بالکل مختلف تھی۔اُس نے دیکھا کہ فقط زمین ہی تمام سیّاروں ، ستاروں کا مرکز نہیں تھی بلکہ زمین کے علاوہ اور بھی لاکھوں سیّارے ستارے تھے۔زمین تو خود سورج کے گرد گھوم رہی تھی۔اُس نے دیکھا کہ سیّارہ مُشتری(جوپیٹر) کے گرد چھوٹے چھوٹے چاند گردش کررہے تھے۔ گیلیلیو اپنے وقت کی جدید ترین فزکس کا بانی تھا۔گیلیلیو ہی نے سب سے پہلے اہل ِ زمین کو بتایا کہ فطرت کے قوانین ریاضی کی زبان میں لکھے ہوئے ہیں۔گیلیلیو نے لکھا،
’’فلسفہ، اِ س عظیم ترین کتاب میں لکھا ہوا ہے جسے کائنات کہتے ہیں۔ یہ ریاضی کی زبان میں لکھا گیا ہے اور اس کے حروف اور ہندسے، دائرہ، مثلث اور جیومیٹری کی دیگر اشکال وغیرہ ہیں‘‘
نیوٹن جوان ہوا تو اپنے وقت کا سب سے بڑا علمی انقلاب اس کے سامنے تھا۔ اب زمین کائنات کا مرکز نہیں تھی، نہ ہی اب سُورج زمین کے گرد گردش کر رہا تھا بلکہ اب زمین سُورج کے گرد گردش کر رہی تھی۔ وہ کیا وجہ تھی کہ زمین سُورج کے گرد گردش کر رہی تھی؟ نیوٹن کے لیے یہ سوال ہر شے سے زیادہ اہم تھا۔ اور یہی سوال نیوٹن کے لیے کششِ ثقل (گریوٹی) کی دریافت کا باعث بنا۔ سیّاروں کی حرکت نے اُسے مجبور کیا کہ وہ ہرشے کی حرکت کا راز معلوم کرے۔ اُس نے مادے کی حرکت کے قوانین مرتب کیے۔ الجبرا اور جیومیٹری کو مِلا کر ایک نئی قسم کی ریاضی دریافت کی جو اُس کے پیشرو یعنی گیلیلیو کے بقول کائنات کی زبان تھی۔ آج سائنس کے طلبہ اُس نئی قسم کی ریاضی کو کیلکولس کے نام سے جانتے ہیں۔ اشیا ٔ کی حرکت مکان میں تھی چنانچہ نیوٹن کے لیے مکان یعنی سپیس کو سمجھنا اور بیان کرنا ناگزیرتھا۔ اِسی طرح اشیا ٔ کی حرکت زمانے (ٹائم) کے وقفوں اور تواتر کے بغیر بیان کرنا ناممکن تھی سو نیوٹن کے لیے ٹائم کو سمجھنا اور کیلکولس کی زبان میں بیان کرنا بھی ناگزیرتھا۔ غرض کلاسیکل فزکس کے قوانین کی جو تدوین نیوٹن نے کی وہ ایک لحاظ سے اتنی مکمل تھی کہ صدیوں تک پھر کسی نئی تدوین کی ضرورت پیش نہ آئی۔ نیوٹن نے کششِ ثقل کی قوت کو بھی ٹھیک ٹھیک معلوم کرلیا اور حرکت کے قوانین بھی ایک کنکر سے لے کر ایک سیّارے یا ستارے تک ٹھیک ٹھیک دریافت کرلیے۔ نیوٹن کی میکانیات سے انڈسٹریل عہد کا آغاز ہوا اور انسانیت مشینوں پر انحصار کی عادی ہوگئی۔
اگرچہ نیوٹن کی فزکس نے اُن تمام سوالوں کے ٹھیک ٹھیک جواب دے دیے تھے جو گیلیلیو کے عہد تک، فلسفہ اور طبیعات کے ماہرین کو درپیش رہے۔ لیکن نیوٹن کی فزکس نے خود بہت سے نئے سوالات کو جنم دے دیا تھا۔ مثلاً یہ کہ چاند زمین کے گرد کشش ِ ثقل کی وجہ سے گردش کرتا ہے اور زمین سورج کےگردکششِ ثقل کی وجہ سے گردش کرتی ہے لیکن یہ کششِ ثقل کیا ہے؟ یہ کشش کہاں سے آئی ہے؟ کیا سُورج زمین کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے؟ اگر سُورج زمین کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے تو کیسے؟ ایسی کوئی رسّی یعنی توانائی ہمیں کیوں نظر نہیں آتی جس نے زمین کے منہ میں لگام ڈال رکھی ہے۔ اسی طرح نیوٹن کے قوانین جو بظاہر آفاقی نوعیت کی سچائیاں تھیں، کہیں کہیں ٹوٹ جاتے تھے۔ مثلاً نیوٹن کا پہلا قانونِ حرکت یہ ہے کہ،
’’جو چیز جہاں پڑی ہے ہمیشہ وہیں پڑی رہیگی اگر اسے کوئی بیرونی قوت ہِلا نہ دے اور جو چیز حرکت میں ہے ہمیشہ حرکت میں رہیگی اگر کوئی بیرونی قوت اُسے روک نہ دے‘‘
اگرچہ یہ قانون بنیادی طور پر شیخ الرئیس بوعلی سینا کا پروجیکٹائیل موشن کا قانون تھا لیکن بوعلی سینا کے زمانے میں اس کی جانب کسی کی توجہ نہ گئی۔ جب نیوٹن نے یہ قانون دریافت کیا تو میکانیات کی دنیا میں ایک انقلاب برپا ہوگیا۔ بہرحال نیوٹن کا یہ قانون ایک موقع پر خاموش ہوجاتاہے۔ جب ہم گاڑی میں بیٹھے ہوتے ہیں اور اچانک بریک لگتی ہے تو ہم آگے کی طرف گرتے ہیں اور اگر اچانک گاڑی چل پڑے تو ہم پیچھے کی طرف گِرتے ہیں۔ نیوٹن کے بقول کوئی چیز جو رُکی ہوئی ہے ہمیشہ رُکی رہے گی جب تک اُس پر کوئی بیرونی قوت اثر انداز نہ ہو تو پھر جب گاڑی کی بریک لگتی ہے تو وہ کون سی بیرونی قوت ہے جو ہم پر اثر انداز ہوتی ہے، ہمیں دھکا دیتی ہے اور ہم آگے کی طرف گِرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ نہیں ہے کہ وہ قوت گاڑی کے اچانک لگنے والے بریکس ہیں۔ ہمارا نچلا دھڑگاڑی کے ساتھ جُڑا ہوا ہے جبکہ ہمارا اُوپر کا دھڑ آزاد ہے۔ دھکا اُوپر کے دھڑ کو لگتاہے۔ بریک لگنے سے آگے کی طرف اور اچانک گاڑی چلنے سے پیچھے کی طرف۔ ہمارے اُوپر کے رُکے ہوئے دھڑ کو خالی خولی فضا میں کون سی قوت نے آکر اتنے زورسے دھکا دیا؟
اس سوال کا جواب نیوٹن نے ٹھیک سے نہ دیا تھا۔ نیوٹن نے اِس قوت کو ’’سُوڈوفورس‘‘ یعنی نقلی قوت کا نام دے کر کام چلایا۔ اِسی طرح زمین پر گرنے والی چیزیں کششِ ثقل کے زیر اثر ہیں۔ زمین گول ہے۔ تو کیا زمین پر گرنے والی چیزوں کے ثقلی خطوط آپس میں متوازی نہیں ہیں؟ سیارہ عطارد جسے انگریزی میں مرکری کہتے ہیں، کی گردش اور اس کا مدار بھی نیوٹن کی کششِ ثقل کی گرفت میں آنا ممکن نہیں ہے۔ کئی دیگر سوالات جن کا ذکرہمارے آئندہ مضامین میں تفصیل کے ساتھ آئےگا ایسے تھے جو نیوٹن کے قوانین سے حل ہوتے دکھائی نہ دیتے تھے۔ غرض جدید فزکس سے پہلے کی فزکس جو بجا طور پر نیوٹن کی فزکس ہے اور جو آج تک اپنی پوری قوت کے ساتھ رائج ہے قوانین کی دریافت کے عہد کی فزکس ہے۔ اس کے برعکس جدید فزکس جو آئن سٹائن سے شروع ہوتی ہے قوانین کی دریافت سے زیادہ تھیوریز(نظریات) کی فزکس ہے۔ یہ بہت بڑا فرق ہے جو ہمیں آئندہ صفحات میں مسلسل ملحوظِ خاطر رکھناہوگا۔
بہرحال نیوٹن فقط کسی انسان کا نام نہیں بلکہ زمین پربرپا ہونے والے ایک بہت ہی بڑے انقلاب کا نام ہے۔ نیوٹن سے شروع ہونے والا سلسلہ کہیں رُکا نہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ کلاسیکل فزکس نے بھی ترقی کا سفر جاری رکھا اور آئن سٹائن کی جدید فزکس سے پہلے پہلے تک کئی ایسے بڑے بڑے نام دنیائے فزکس کے ستارے بنے کہ ان میں سے ہر ایک کا کام اُس سلسلہ کی ایک کڑی کا درجہ رکھتاہے جو آئن سٹائن تک چلا آیا۔ اگر ہم ان ناموں میں سے کسی ایک کو بھی نکال دیں تو کلاسیکل فزکس کبھی بھی جدید فزکس تک نہیں پہنچ پائے گی۔ مثلاً اگر ’’مائیکل فراڈے(Michael Faraday)‘‘ نے مقناطیسی فیلڈ دریافت نہ کی ہوتی تو’’ جیمز کلرک میکس ویل (James Clerk Maxwell)‘‘ کبھی بھی الیکٹرومیگنٹزم دریافت نہ کر سکتا تھا اور آئن سٹائن کبھی بھی روشنی کو اپنا موضوع بنا کر اتنی بڑی بڑی اور عظیم دریافتیں نہ کرسکتا تھا۔ اسی طرح اگر ’’ہینڈرِک لورینٹز (Hendrik Lorentz) نے نسبتی حرکت یعنی ریلیٹو موشن کی ’’ٹرانسفارمیشن‘‘ دریافت نہ کی ہوتی تو آئن سٹائن کبھی بھی سپیشل تھیوری آف ریلیٹوٹی پیش نہ کر سکتا تھا۔ یہ سب نام ایک زنجیر کی مختلف کڑیاں ہیں۔
تبصرہ لکھیے