ہوم << قصور وار کون ہے؟ قدسیہ مدثر

قصور وار کون ہے؟ قدسیہ مدثر

جس معاشرے میں غربت ایک گالی بن گئی ہو، غریب فاقوں کے سبب خود کشی کر لے، غربت کا مارا بچہ والد کے انتقال کے بعد خاندان کا واحد کفیل بن کر دیہاڑی کے چند روپے کمائے تا کہ بیمار ماں کا علاج کروا سکے مگر دواؤں کی قیمتوں میں اضافے کے سبب وہ علاج نہ کروا سکے اور بےبسی کی تصویر بنے ماں کو قبر میں اتار دے تو اس کا قصور وار کون ہے؟
تھر میں خوراک اور علاج کی ناقص سہولیات کی وجہ سے موت کی آغوش میں جانے والے بچوں کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہو۔ سرکاری ہسپتال چوہوں کی آماجگاہ بن چکے ہوں اور آئے روز بچوں کے ہاتھ ناک کاٹ رہے ہوں۔ سرکاری ہسپتال میں معذور بچی کی بھی عزت محفوظ نہ ہو اور حکومت ان سب پر عملا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہو تو سمجھاؤ، کس کا گریبان پکڑیں، قصور وار کون ہے؟
فیصل آباد الائیڈ ہسپتال میں خراب مشینری کے سبب ٩ ماہ میں ٢ہزار ٩٨ بچے جاں بحق ہو جائیں، بہاولنگر ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر اسپتال میں ١٢٢ بچوں کی ہلاکت سامنے آئے، لاہور میں صحت،تعلیم، نکاسی آب کی ٧٨٨ اسکیمیں فنڈز کی منتظر ہوں اور لاہور کے کسی سرکاری ہسپتال میں کالے یرکان اور بون سکین ٹیسٹ کی سہولت میسر نہ ہو، اور عوام بےبسی اور لاچاری سے حکمرانوں کی طرف سوالیہ نشان بنے دیکھ رہے ہوں تو بتائیں قصور وار کون ہے؟
ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بےروزگاری کے سبب ایک دیہاڑی دار مزدور مجبور باپ جب خالی ہاتھ گھر لوٹے اور بچوں کی منتظر نگاہیں باپ کے ہاتھوں میں پھل اور گوشت تو دور کی بات سوکھی روٹی نہ دیکھ پائیں، بھوک سے بلک اور ترس رہے ہوں تو سمجھائیں کہ قصور کس کا ہے؟
ملک کے سنگین معاشی اعداد و شمار کے بعد جب یہ خبر پڑھنے کو ملے کہ ملک کے وزیراعظم نے خاندان سمیت غریب عوام کا پیسہ بیرونی ممالک کے اکاؤنٹس میں جمع کروا رکھا ہے، بےنام ناموں سے بزنس کمپنیاں قائم ہو چکی ہیں اور بچے چند سالوں میں اربوں کے مالک بن گئے ہیں جبکہ دوسری طرف غریب عوام 3 سالوں میں مزید 500 ارب قرضوں میں پھنس چکے ہوں، اور پھر بھی وہ کرسی پر قوم کا مقدر بن کر بیٹھے رہیں تو بتائیے کہ قصوروار کون ہے؟
قوم کو تعلیم اور علاج سے محروم رکھ کر، اسے میٹرو کی لال بتی کے پیچھے لگانے والے حکمران خود معدے جیسی معمولی بیماری کے علاج کے لیے بھی بیرون ملک فرار ہو جاتے ہوں، تو اس جمہوریت نما بادشاہت کا ذمہ دار کون ہے، یہ بادشاہت کس کے کندھوں پر قائم ہے، قصورا کون ہے؟
کیا یہ المیہ نہیں کہ حکمرانوں کے اثاثہ جات پانامہ لیکس میں عیاں ہو رہے ہیں، دنیا کے بہت سے ممالک میں ان کی جائیدادیں ملک کی لوٹی ہوئی دولت کا منہ بولتا ثبوت ہیں، خاندانوں کے خاندان اور وزیروں کے وزیر کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں، جن کے لیے اپنے ملک کی قدر چند میٹرو بسوں اور سڑکوں کے سوا کچھ نہیں۔ ذرا غور تو کرنا چاہیے نا کہ یہ سب کس کی بدولت ممکن ہو رہا ہے اور کون قصور وار ہے؟
سچی بات یہ ہے کا قصوروار کوئی اور نہیں یہی مجبور، بےبس، تعلیم و علاج اور سہولیات سے محروم عوام ہے جو بار بار ان کو لا بٹھاتی ہے اور یہ عد میں اسی کرسی اقتدار تک لانے والی عوام کا خون چوستے ہین۔ اب تو سب کچھ بےنقاب ہو چکا ہے، چہروں سے ماسک ہٹ چکا ہے، اب بھی اگر میرے وطن کی عوام مسیحا کی تلاش میں پھر انھی حکمرانوں کو مسیحا سمجھے تو میں کس کو قصوروار سمجھوں، کس کا گر یبان پکڑوں اور کس سے اپنے ملک کی شکستہ خالی کا رونا روؤں؟

Comments

Click here to post a comment