Tag: رانا اعجاز حسین چوہان

  • مہنگائی اورمیثاق معیشت- رانا اعجاز حسین چوہان

    مہنگائی اورمیثاق معیشت- رانا اعجاز حسین چوہان

    ان دنوں ملک میں مہنگائی عروج پر ہے ، روز مرہ استعمال کی اشیاء ، خوراک، ایندھن عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں۔ ملک بھر کے عوام آٹے کے لیے اور سیاسی جماعتیں اقتدار کے لیے لائن میں لگی ہیں۔

    چاروں طرف مایوسی اور بے چینی کی فضا ہے ، اور حالات بتا رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں صورتحال مزید خطرناک ہوسکتی ہے۔آئی ایم ایف پروگرام ری شیڈول ہونے کی صورت میں مزید مہنگائی کا طوفان آسکتا ہے۔ بجلی، گیس ، پٹرولیم مصنوعات اور اشیائے خورد نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ مہنگائی میں گھرے عوام سوال کررہے ہیں کہ آخر انہیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم میاں شہباز شریف نے بھی تسلیم کیا ہے کہ مہنگائی عروج پر ہے ،اور حکومت مسائل کے حل کے لیے اقدامات کررہی ہے ۔

    انہوں نے حسب معمول سابق حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ اس کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے معیشت تباہ ہوئی ہے ۔ ان دنوں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان سنگین سیاسی کشمکش اور بیان بازی جاری ہے ، لیکن اس بات پر اتفاق ہے کہ اس وقت پاکستان تاریخ کے بدترین اقتصادی بحران میں مبتلا ہے ۔ ملک کے دیوالیہ ہوجانے کی باتیں ہورہی ہیں، جس کے بارے میں وزیراعظم، وزیر خزانہ اور ان کے ہم خیال مسلسل تردید کررہے ہیں، اور قوم کو یقین دلارہے ہیں کہ ہم ملک کو معاشی بحران سے نکال لیں گے ، حزب اختلاف کا دعویٰ یہ ہے کہ معاشی حالات کی خرابی میں تیزی موجودہ حکومت کے8 ماہ میں آئی ہے ، جب کہ حکومت کا جواب یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی چار سالہ حکومت نے آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کی پابندی نہیں کی جس کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام بحال نہیں ہوسکا اور ہمیں سخت شرائط ماننی پڑ رہی ہیں۔

    اس بیان بازی سے پاکستان کا حکمران طبقہ قومی تباہی کی ذمے داری سے بچ نہیں سکتا۔ معاشی بحران کی وجہ سے قومی سلامتی کے خطرے کے خدشات بھی پیدا ہوگئے ہیں۔ یہ صورت حال ایک دن میں نہیں ہوئی ہے لیکن گزشتہ 20 برسوں میں تیزی آئی ہے ، اس کی وجوہ میں امریکی وار آن ٹیرر کے دوران میں جتنے اقتصادی معاہدے ہوئے ہیں اس میں پاکستان کے مفادات کا خیال نہیں رکھا گیا۔ آئی ایم ایف ایسی شرائط عائد کرتا رہا جس سے پاکستان اقتصادی طور پر کمزور ہوتا رہا۔

    آئی ایم ایف سے مذاکراتی ٹیم سیاسی ہویاتکنیکی کسی نے بھی اس بات کا خیال نہیں رکھا کہ مستقبل میں آنے والے خطرات سے کس طرح بچا جائے گا۔معاشی و اقتصادی تباہی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ طویل مدت سے پاکستان کی وزارت خزانہ اور مرکزی بینک کے اہم ترین منصب پر ایسے پاکستانیوں کو مقرر کیا گیا جن کی نشاندہی عالمی بینک یا آئی ایم ایف نے کی، آج معاشی تباہی کے حوالے سے جو مسائل ہیں جن میں ڈالر کی قیمت میں ناقابل تصور اضافہ اور توانائی کے مہنگے منصوبے انہی معاہدوں کا شاخسانہ ہیں۔ گردشی قرضے کا عنوان تو ان ہی معاہدوں کی دین ہے جس کے تحت بجلی کی پیداوار ناجائز منافع کے ساتھ بیرونی سرمایہ کاروں کے حوالے کردی گئی، جنہوں نے قوم کو خدمات فراہم کرنے کے بجائے لوٹ مار کا بازار گرم کردیا۔

    آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ ملک اقتصادی طور پر تباہ ہوتا رہا اور ملک کی مقتدر اشرافیہ حکومتوں سے زیادہ دولت مند ہوتی رہی۔ سابق اور موجودہ حکمرانوں کے خلاف بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کی جو تفصیلات ذرائع ابلاغ میں آچکی ہیں ان کا ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ پہلے قوم کے سامنے یہ سوال تھا کہ ملک کو قرضوں کی زنجیر سے کیسے آزاد کیا جائے ۔ اب یہ سوال قوم کے سامنے رکھ دیا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کے قرض کا پروگرام کیسے بحال کیا جائے گا۔ حکومت اور حزب اختلاف دونوں ایک دوسرے پر الزام عائد کررہے ہیں کہ اس نے آئی ایم ایف کے حکم کی خلاف ورزی کی جس کی وجہ سے آئی ایم ایف سخت شرائط عائد کررہا ہے اور عالمی اقتصادی بحران اور سیلاب کی قدرتی آفت، کورونا وبا کے اثرات کے باوجود بھی کسی رحم کا مظاہرہ نہیں کررہا۔ اس بہانے سے وہ جواز پیدا کررہے ہیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط تو تسلیم کرنا ضروری ہے ۔

    تا کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافے کی کوئی مزاحمت نہ کی جائے ، معاشی مبصرین اور سیاسی تجزیہ نگار مزید سخت حالات سے خبردار کررہے ہیں۔ اس حوالے سے ٹیکنوکریٹ حکومت کی باتیں کی جارہی ہیں جو ایسے ماہرین پر مشتمل ہو جو عوام سے نمائشی ہمدردی بھی نہ رکھتے ہوں اور پاکستان کے شہریوں پر مہنگائی، افلاس اور بے روزگاری کے کوڑے برساسکیں۔ بلاشبہ اگر ہماری حکومت، مقتدر ادارے ، سیاسی شخصیات خلوص نیت سے ملکی ترقی اور استحکام کے لیے اپنے اپنے دائرہ کار میں سادگی، صداقت، امانت اور دیانت کا پاس رکھتے ہوئے محنت، جدوجہد اور کوشش کریںتو اس بحران پر قابو پانا کوئی مشکل نہیں۔

    جو ممالک ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ہیں، ان کی حکومت اور قوم نے اپنا مقصد، نصب العین اور رخ ایک متعین کرکے محنت اور کوشش کی، تو وہ منزل مقصود اور مراد تک پہنچ سکے ، اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ ہم سب ملکی ترقی کے لیے یہ کام کریں۔ اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ مل بیٹھ کر ’’میثاقِ معیشت‘‘ ترتیب دیں، اور یقینی بنائیں کہ کسی بھی پارٹی کی حکومت آجائے میثاق معیشت پر کام جاری رہے گا۔

  • انسداد بدعنوانی محض عالمی دن تک محدود – رانا اعجاز حسین چوہان

    انسداد بدعنوانی محض عالمی دن تک محدود – رانا اعجاز حسین چوہان

    اگر پاکستان کے سرکاری اداروں کی صورتحال کا جائزہ لیا جا ئے تو یہاں تعینات بیشتر افسران کرپشن کے بیمار نظر آتے ہیں۔ ملکی سرکاری اداروں میں محض بورڈ پر ضرور لکھا ہوتا ہے ’’Say no to corruption‘‘ مگر یہاں کسی کام کا باحسن و خوبی انجام پانا بغیر رشوت دیے ممکن نہیں۔

    جبکہ ملک و معاشرے سے کرپشن کے ناسور کے خاتمے کے لئے حکومتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی عدم توجہی کے باعث پاکستان بھر میں کرپشن و بدعنوانی کی صورتحال روز بروز سنگین سے سنگین تر ہوتی جارہی ہے۔ کرپشن سے بھرپور تھانہ کلچر،حکومتی اداروں میں کرپشن کا راج، حصول انصاف کا کمزور نظام، مصلحتوں اور بدعنوان افسران کی وجہ سے عوام میں بے بسی اور بے اختیاری کا احساس بڑھتا جارہا ہے ۔ عوام میں عدم اطمنان کے باعث ، حکومتی و سرکاری اور عدالتی اداروں پر ان کے اعتماد میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

    جبکہ ملک میں موجود انسداد بدعنوانی کے محکموں کی مایوس کن کارکردگی،اور ان سے استفادے کا پیچیدہ اور سست رو طریقہ کار، سرکاری اداروں میں کرپشن کا باعث بن رہا ہے۔ اسوقت صورتحال یہ ہے کہ بنیادی سرکاری ادارے مثلاً بجلی ، سوئی گیس ، شہری ترقی کے ادارے، میونسپل کمیٹیاں ، لوکل گورنمنٹ کے دفاتر، سرکاری ادارے کم اور بدعنوانی کی نرسریاں زیادہ دکھائی دیتے ہیں، یہاں تعینات معمولی افسران کے بھی اثاثہ جات، اور عالیشان طرز زندگی دیکھ کر شہری انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں ۔ پاکستان جسے انٹر نیشنل دنیا46 واں کرپٹ ترین ملک قرار دے چکی ہے، یہاں کرپشن اتنی عام ہے کہ بعض مقتدر افراد اور سیاسی رہنماؤں کی جانب سے کرپشن کا دفاع اور کرپشن کو فروغ دیاجا تا ہے۔

    یہاں بر سراقتدار رہنے والے حکمرانوں میں سے بھی بعض کلیدی عہدوں پر فائز سیاسی لیڈر کرپشن میں بری طرح ملوث رہے ہیں ، ان کی کرپشن ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے مگر کہیں سیاسی مصلحتوں اور کہیں کمزور سسٹم کے باعث یہ افراد کرپشن کے تمام الزامات سے اس طرح بری الذمہ ہوجاتے ہیں جیسے دودھ کے دھلے ہوں۔پوری قوم اور میڈیا کرپشن کے خلاف شروع ہی سے آواز بلند کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود حکومت سرکاری اداروں میں کرپشن کے خلاف ٹھوس اقدامات سے گریزاں ہے۔ جبکہ یہاں اقتدار پر قابض رہنے والے بدعنوان حکمرانوں کی لوٹ مار اور بندر بانٹ، اور قر ضوں کے انبار کی وجہ سے مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے اور عام لوگوں کا زندگی گزارنا اجیرن ہو چکا ہے۔

    ایک طرف بڑے بڑے عہدوں پر فائز سرکاری افسر اور حکمران گروہ قومی دولت کی لوٹ مار کے باعث عیش و عشرت میں مگن رہے ہیں اور دوسری طرف غریب اور فاقہ کش لوگ آج بھی خود سوزی اور خودکشی کرنے پر مجبورہیں۔ قومی دولت اور وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے باعث پی آئی اے، پاکستان سٹیل ملز اور پبلک سیکٹر کے کئی ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ پاکستان میں کرپشن اتنی بڑھ گئی ہے ایک سال میں 300ارب روپے سے زائد کرپشن کی نذر ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کے عوام بہت باشعور ہیں اور وہ اکثر میڈیا کے ذریعے منتخب نمائندوں .

    اور سرکاری افسران کی بدعنوانیوں کو بے نقاب کرتے رہتے ہیں، تاہم حکومت اور اداروں کی مصلحتوں کے باعث ان انکشافات کی روشنی میں موثر کارروائی نہیں ہوتی کیونکہ حکومت کو منتخب ایوانوں میں اپنی عددی اکثریت برقرار رکھنی ہوتی ہے ۔ یقینا بدعنوانی کا خاتمہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں موجودہ حکومت ابھی تک کسی قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی۔ ایف آئی اے اور نیب جیسے ادارے محض روایتی انداز میں کام کر رہے ہیں جن پر عوام کو اعتماد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اداروں کو بھی نئے ٹاسک دئیے جائیں ، ان کو جدیدخطوط پر استوار کیا جائے اور ان کی کارکردگی کو تیز تر کیا جائے۔

    خوش قسمتی سے پاکستان جغرافیائی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ملک ہے اور اسے ہم اپنی بد قسمتی کہیں یا ستم ظریفی کہ ہمارے حکمران یہاں دستیاب وسائل سے بھر پور استفادہ نہیں کررہے، ہم اس بدنصیبی اور بدقسمتی کو اپنی خوش قسمتی میں بدل سکتے ہیںاور اپنے پیارے پاکستان کو جنت نظیر خطہ بنا سکتے ہیں اگر اداروں میں میرٹ کو فروغ دیا جائے، ہر سرکاری ادارے سے رشوت ستانی کا مکمل خاتمہ کرنے کی کوشش کی جائے ، سستے اور فوری انصاف کو فروغ دیا جائے اور عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کرتے ہوئے ان پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے، اور ملکی مفاد کو ذاتی اور انفرادی مفاد پر ترجیح نہ دی جائے۔

    سفارشی کلچر کا خاتمہ ، امیری اور غریبی کے سٹیٹس کو مٹانے کے لئے کلیدی کردار اداکیا جائے ، ملک سے سندھی،
    پنجابی،بلوچی،پٹھان اور کشمیری کے سٹیٹس کو مٹاکر سب سے پہلے پاکستان کی بات کی جائے ، ٹیکس چوری کا خاتمہ ،قرضے معافی اور بجلی چوری جیسے اقدامات سے پرہیز کیا جائے تو حقیقی طور پر پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے جس سے ہر پاکستانی خوشحال ہوگا۔ موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ بدعنوان عناصر کے خاتمے کے لئے نئے موثر قوانین کا اطلاق کرے .

    اور انسداد رشوت ستانی کے تمام اداروں کو مکمل فعال کیا جائے اور ان اداروں کی کارکردگی میں تیزی اور بہتری لائی جائے۔ اور کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے والوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے، بلاشبہ ملک سے کرپشن کے ناسور کے مکمل خاتمے تک ملک و قوم کی حقیقی ترقی ممکن نہیں۔

  • طبیعت پریشان کیوں- رانا اعجاز حسین چوہان

    طبیعت پریشان کیوں- رانا اعجاز حسین چوہان

    جب طبیعت پریشان ہو، کسی کام میں دل نہ لگے، دماغ خالی خالی ہو، آپ کوئی کام یکسوئی کے ساتھ نہ کرسکیں تو ظاہری اسباب کے ساتھ اپنے گناہوں پر غور کریں ، اور غور کریں کہ کہیں ہمارا خالق حقیقی ہمارا معبود حقیقی ہم سے ناراض تو نہیں۔

    اور پھر اپنی طبیعت میں سدھار کے لیے اللہ ربّ العزت کے حضور تو بہ کریں ۔ بلاشبہ توبہ ہی کی بدولت تمام پریشانیاں ختم ہوتی ہیں، اور اللہ ربّ العزت کو توبہ کرنے والوں سے خصوصی محبت ہے۔ جب انسان گنا ہ کرتا ہے، غلطیاں کرتا ہے ،ظلم کرتا ہے، لیکن جب وہ اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں جھک جاتا ہے ، توبہ کرتا ہے، عاجزی کرتا ہے، روتا ہے اور تو یقینا توبہ قبول ہوتی ہے۔ اور پھر یہ توبہ باعث رحمت اور باعث نجات بنتی ہے۔ محققین کے نزدیک کامل توبہ کی چند شرائط ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر ، انسان اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے جملہ گناہوں، برائیوں اور نافرمانیوں سے شرمندہ اور تائب ہو کر اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کرکے دنیا اور آخرت میں عذاب الٰہی سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔

    توبہ کی بنیادی شرط یہ ہے کہ انسان اپنے گناہ، طور طریقوں اور برے اعمال پر شدید پشیمانی اور شرمندگی محسوس کرے، جو کہ درحقیقت برے کاموں سے کنارہ کشی کی طرف پہلا قدم ہے۔ ندامت کے صحیح ہونے کی علامات میں دل کا نرم ہو جانا اور کثرت سے آنسوؤں کا جاری ہونا ہے کیونکہ جب دل کو اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی کا احساس جکڑلے ،اور بندہ پر عذاب الٰہی کا خوف طاری ہو جائے تو یہ گریہ و زاری کرنے والا اور غم زدہ ہوجاتا ہے۔ اسی لئے حضور نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے ’’ندامت ہی توبہ ہے۔‘‘ جمہور محققین کے نزدیک خالص ندامت ہی توبہ کی اصل ہے جو کہ خلوص دل سے کوشش کے بغیر ممکن نہیں۔

    توبہ کی دوسری شرط ترک گناہ و معصیت ہے۔ برے فعل پر شرمندگی اور پشیمانی کے احساس کے بعد بندے کے دل میں گناہ ترک کرنے کا داعیہ جنم لیتا ہے اور بندہ شرم محسوس کرتا ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی ایک کمزور اور حقیر ترین مخلوق ہو کر اس کے ساتھ اپنے تعلق بندگی کی حیاء نہ کی اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا، یہ احساس ترک گناہ پر منتج ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے ’’مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کر لی وہ سنور گئے.

    اورانہوں نے اللہ سے مضبوط تعلق جوڑ لیا اور انہوں نے اپنا دین اللہ کے لیے خالص کر لیا تو یہ مومنوں کی سنگت میں ہوں گے اور عنقریب اللہ مومنوں کو عظیم اجر عطا فرمائے گا‘‘ (سورۃ النساء)۔ اس آیت مبارکہ کے الفاظ بندے کی توجہ اس طرف مبذول کروا رہے ہیں کہ اس کی سابقہ زندگی میں جس قدر بھی غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوئیں وہ سچے دل کے ساتھ توبہ کا طلب گار بن کر اپنے گناہوں پر ندامت محسوس کرتے ہوئے گڑگڑا کر اللہ ربّ العزت کی بارگاہ سے عفو و درگزر کی دراخواست کرے۔

    بندہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور پختہ عہد کرے کہ جن نافرمانیوں، خطاؤں اور گناہوں کا ارتکاب وہ کر چکا ہے آئندہ یہ اس کی زندگی میں کبھی داخل نہیں ہوں گے، کیونکہ توبہ کی ابدی سلامتی کا انحصار اس پر ہے کہ وہ کس قدر اپنے عہد پر پختہ رہتا ہے۔ اس لئے پکا عزم کرے کہ آئندہ یہ گناہ ہر گز نہیں کروں گا۔ اگر شیطان کان میں کہے کہ تو دوبارہ یہ گناہ کرے گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ تقوی کا عزم قبولیت توبہ کے لئے کافی ہے بشرطیکہ اس عزم کو توڑنے کا ارادہ نہ ہو۔بس توبہ کے وقت اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر لیا جائے کہ اے اللہ میں آپ کے بھروسہ پر پکا عزم کرتا ہوں کہ آئندہ یہ گناہ نہیں کروں گا، تو بندہ جب تک گناہوں پر نادم اور تائب رہے گا اللہ تعالیٰ کی رحمت اس پر سایہ فگن رہے گی۔

    اس کے علاوہ حقوق العباد میں سے اگر کسی کیساتھ ناانصافی یا ظلم کر بیٹھے تو اولاً اس کے حقوق ادا کرے اور اگر یہ توفیق نہیں پاتا تو پھر اس سے معافی کا خواستگار ہو اور اللہ تعالیٰ سے عفو و درگزر کے لئے دست بہ دعا رہے۔آج بدقسمتی سے مذہبی اور دنیوی امور کو علیحدہ علیحدہ پلڑوں میں رکھنے کے باطل طریقہ کار نے ہمارے معاشرے میں نیکی کے تصور کو دھندلا دیا ہے، بیک وقت لوٹ کھسوٹ، ظلم و ناانصافی، حق تلفی اور مفاد پرستی بھی جاری ہے اور عبادت کے ساتھ ساتھ محض لفظی توبہ بھی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس منافقانہ طرزِ عمل کی موجودگی میں ترکِ گناہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔

    حدیث نبوی ہے کہ ’’گناہ سے باز آئے بغیر توبہ کرنا جھوٹے لوگوں کی توبہ ہے‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ عالم الغیب ہے اس کے علم میں ہے کہ کون اپنی توبہ میں سچا اور کون جھوٹا ہے۔ حقیقی توبہ اسی وقت ہوگی جب توبہ کے بعد گناہ کو بھی مکمل طور پر ترک کر دیا جائے۔ بلاشبہ صحیح توبہ وہی ہے جو انسان کے شب و روز، افعال و اعمال اور حالات و کیفیات کو یکسر بدل کر رکھ دے۔ بندہ عبادت و ریاضت کا پیکر بن جائے ۔

    ایسی کامل توبہ کے بعد زندگی کی مشکلیں آسان ہوتی ہیں ، ترقی کی نئی راہیں کھلتی ہیں ، معاشرے کو آفات سے امان ملتی ہے اور ربّ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے ، ایسی رحمت جوکہ دونوں جہانوں کے لیے خیر و برکت کا باعث بنتی ہے۔

  • مبلغین اسلام کا عالمی اجتماع. رانا اعجاز حسین چوہان

    مبلغین اسلام کا عالمی اجتماع. رانا اعجاز حسین چوہان

    دین اسلام کی دنیا بھر میں تبلیغ و اشاعت کے لئے سالانہ اجتماع ہر سال رائے ونڈ میں منعقد ہوتا ہے ۔ بلاشبہ حج کے بعد یہ عالم اسلام کا دوسرا بڑا اجتماع ہے جس میں لاکھوں فرزندان اسلام ذہن میں تبلیغ اسلام کی فکرلیے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے شہروں ، قصبوں، دیہاتوں اور بیابانوں سے شرکت کرتے ہیں۔

    منتظمین تبلیغی جماعت نے عوام کے بڑھتے ہوئے رش کے پیش نظر اجتماع کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے مرحلے میں اجتماع 3 نومبر سے شروع ہے ہوکر 7 نومبر تک ، اور دوسرے حصے کا اجتماع جمعرات10 نومبر سے شروع ہوکر 14 نومبر جاری رہے گا۔ مبلغین اسلام کے اجتماع رائے ونڈ میں ملکی، سرحدی، صوبائی امتیازات، قومی لسانی تعصبات اور گروہ بندیاں سب خاک میں مل جاتے ہیں یہاں سب بحیثیت مسلمان، امیر و غریب، حاکم و محکوم، پنجابی و پٹھان، بلوچی و سندھی، گورا ہو یا کالا، عربی ہو یاعجمی، رنگ و نسل کے اختلافات سے بے نیاز ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے اور سجدہ ریز ہو کر پوری دنیا کے انسانوںکی ہدایت کے لئے دعا، اور تبلیغ کے موثر طریقہ کار پر حکمت عملی مرتب کرتے ہیں۔

    بلاشبہ دین اسلام اور خالق کائنات اللہ تعالیٰ کی عبادت طرف دعوت دینا انبیاء علیہم السلام اور علمائے ربانین کا طریقہ ہے، جوکہ سب سے بڑی نیکی اور سب سے بہترین کام ہے ۔ ظاہر ہے جو لوگ اسلام کی دعوت دیں گے ان کی پہلی زمہ داری ہوگی کہ وہ خود اس پر عمل بھی کریں گے، نیک بنیں گے اور اپنے اعمال وکردار سے دین حق کی سچائی کو ثابت کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی تبلیغ کے لئے انبیاء علیہم السلام کو بھیجا ،جنہوں نے پتھروں کے جواب میں پتھر نہیں برسائے اور گالیوں کا جواب گالم گلوچ سے نہیں دیے بلکہ حکمت سے کام لیتے ہوئے بڑے احسن انداز سے فریضہ تبلیغ سر انجام دیا۔

    خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا کہ جہاں جس انداز میں سمجھانے کی ضرورت ہوتی وہی انداز اختیار فرماتے، اور احساس رکھتے کہ دعوت کا ایسا انداز نہ ہو کہ جس سے مدعوئین اکتاہٹ محسوس کرنے لگیں۔ اور اب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ، اب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئی کتاب قرآن مجید اور نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی بطور نمونہ ہمارے سامنے ہے۔ اور دین اسلام کی تبلیغ کاکام آپ کے اور ہمارے بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے ذمہ ہے جو کہ ہماری بنیادی ذمہ داری ہے ۔ تبلیغ اسلام کاکام ہرزمانے میں جاری رہا اور موجودہ حالات میں بھی اس کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ پہلے تھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیتے ہوئے فرمایا ’’(اے نبی) آپ کہہ دیجیے یہ میرا راستہ ہے ،میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں بصیرت کے ساتھ ،میں اور میرے ساتھی بھی۔ اللہ پاک ہے اورشرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں‘‘ (سورۃیوسف:108 )۔

    یہی امت کا اصل مشن ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ امت مسلمہ میں ہر دور میں کم از کم ایک ایسی جماعت کا وجود ضروری ہے جو عام لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہونے چاہیے جونیکی کی طرف بلائیں ، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے ‘‘ (سورۃ آل عمران:104 )۔

    فرداً فرداً سارے ہی مسلمان ان احکامِ قرآن کے مخاطب ہیں اور ان کا فرض بنتا ہے کہ اللہ کی طرف بلانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں ، دین اسلام دعوت کو لے کر پوری دنیا پر چھاجائیں، اور غیر مسلم لوگوں کو اللہ کی بندگی واطاعت کی طرف بلائیں۔ امت مسلمہ کو دیکھ کر دنیا کو یہ معلوم ہوناچاہئے کہ اس دنیا میں بسنے والے انسانوں کی زندگی کا مقصد کیاہے ؟ اور انسانیت کے لیے حقیقی راہِ نجات کیاہے ؟ اس گواہی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کا حق ادا کیا ، پوری زندگی اللہ کا پیغام انسانوں تک پہنچاتے رہے اسی طرح اس کا حق ادا کیا جائے اور پوری زندگی اس مشن کوزندہ اور قائم رکھاجائے ۔ شرح وتفسیر میں مفسرین کی یہ صراحت ملتی ہے کہ ہم مسلمانوں کوروزمحشر اللہ کی عدالت میں اس بات کی شہادت دینی ہوگی کہ اے اللہ تیرے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہم کوجو ہدایت ملی تھی، ہم مسلمانوں نے اسے تیرے عام بندوں تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔اے اللہ! ترے آخری نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے ہم کوجو دین حق ملا تھا، ہم نے اسے من وعن پوری دنیا تک پہنچادیا اور اسے قبول کرنے کی عام دعوت دی۔

    ظاہر ہے اس دنیا میں اگر ہم نے دعوت دین کاکام نہیں کیا اور اللہ کے بندوں تک دین حق کاپیغام لے کرنہیں پہنچے اور ان کو قبول اسلام کی دعوت نہیں دی تو آخرت میں اللہ کے دربار میں یہ گواہی ہم کیسے دے سکیں گے ؟ آخری خطبہ میں بھی آپ صلی اللہ عیہ وسلم نے پورے مجمع سے گواہی لی تھی کہ تم سب اس بات کے گواہ رہنا کہ مجھ پر تبلیغ دین کی جو زمہ داری تھی، میں نے اسے ادا کردیا ہے ۔ اسی طرح آج دنیا کے عام انسانوں تک اس ہدایت کو پہنچانے کی یہ زمہ داری ہم مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے ۔غور کیجیے ! کیا امت مسلمہ پوری دنیا کو مخاطب کرکے کہہ سکتی ہے کہ اے دنیا والو!تم سب گواہ رہنا کہ اللہ تعالیٰ نے بحیثیت امت مسلمہ ہم پرتبلیغ دین کی جو ذمہ داری ڈالی تھی، وہ زمہ داری ہم نے ادا کردی ہے ۔ ہمارے بہت سے مسلمان بھائی بہنیں اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ اللہ صرف ہمارا معبود ہے .

    قرآن مجید صرف ہماری کتاب ہے اور آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف ہم مسلمانوں کے نبی اور رسول ہیں۔جبکہ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے ، حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کل کائنات کے خالق و مالک و مختار کل ہیں، اور خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم پوری دنیا کے انسانوں کے نبی ہیں، اسی طرح دین اسلام صرف مسلمانوں کا دین نہیں ہے بلکہ یہ پوری انسانیت کا دین ہے اور اس دین کو اپنانے والے مسلمان کہلاتے ہیں،دنیا کا ہر انسان اس کا مخاطب ہے۔ اس لیے ہمارا فرض ہے کہ غیر مسلم بھائیوں کو اس دین سے متعارف کروائیں اور ان کو اسلام اختیار کرنے کی دعوت دیں۔

  • محمد ؐ سا نہیں کوئی –  رانا اعجاز حسین چوہان

    محمد ؐ سا نہیں کوئی – رانا اعجاز حسین چوہان

    ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم پورے عالم کے محسن ہیں کہ جن کے ذریعے سے دین ہم تک پہنچا اور ہم نے ربّ کو پہچانا۔ آپ ؐ کے ذریعے سے ہمیں نیکی و بدی، اچھائی اور برائی ، گناہ اور ثواب کا فرق معلوم ہوا۔

    آپؐ کے ذریعے سے ہی ہمیں جینے کا سلیقہ اور شعور اور آخروی زندگی کی وعید ملی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سردار الانبیاء ، امام الانبیاء اور خاتم المرسلین ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے مقام کی عظمت و رفعت کا کیا ٹھکانہ ، جہاں باری تعالیٰ کا نام آتاہے ، وہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ و سلم کا نام مبارک آتاہے ۔ کلمہ طیبہ آپؐ کے شرف کی دلیل ، کلمہ شہادت آپؐ کی صداقت کاثبوت ہے ۔

    اللہ ربّ العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا بنایا کہ نہ اس سے پہلے ایسا کوئی بنایا ہے نہ بعد میں کوئی بنائے گا۔ سب سے اعلیٰ، سب سے اجمل، سب سے افضل، سب سے اکمل، سب سے ارفع، سب سے انور، سب سے آعلم، سب سے احسب، سب سے انسب، تمام کلمات مل کر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو بیان کرنے سے قاصر ہیں،اگر سارے جہاں کے جن و انس ملکر بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان اقدس اور سیرت طیبہ کے بارے میں لکھنا شروع کریں تو زندگیاں ختم ہو جائیں مگر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان کا کوئی ایک باب بھی مکمل نہیں ہو سکے گا۔

    کیونکہ اللہ ربّ العزت نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے ’’اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کر دیا ہے۔جس ہستی کا ذکر مولائے کائنات بلند کرے،جس ہستی پر اللہ تعالیٰ کی ذات درودوسلام بھیجے، جس ہستی کا ذکر اللہ رحمن و رحیم ساری آسمانی کتابوں میں کرے، جس ہستی کا، چلنا ،پھرنا ،اٹھنا، بیٹھنا،سونا، جاگنا،کروٹ بدلنا، کھانا، پینا مومنین کیلئے باعث نجات، باعث شفاء، باعث رحمت ،باعث ثواب،باعث حکمت، باعث دانائی ہو، اور اللہ ربّ العزت کی ذات نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات کبریا کو مومنین کیلئے باعث شفاعت بنا دیا ہو، اس ہستی کا مقام اللہ اور اللہ کا نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی جانتے ہیں۔ پھر اس ہستی کے متعلق سب کچھ لکھنا انسانوں اور جنوں کے بس کی بات نہیں۔

    اللہ تعالیٰ نے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بے شمار خصوصیات عطافرمائی ہیں جن کو لکھنا تو در کنارسارے جہان کے آدمی اور جن ملکر گن بھی نہیں سکتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس الفاظ اور ان کی تعبیرات سے بہت بلند وبالا تر ہے۔ آپ کا ئنات کا مجموعہ حسن ہیں، آپ کا قد نہ زیادہ لمبا تھا نہ پست ، ماتھا کشادہ تھا، سر بہت خوبصورتی کے ساتھ بڑا تھا، آپ کے بال نیم گھنگریالے تھے، آپ کی بھوئیں گول خوبصورت تھیں جہاں وہ ملتی ہیں وہاں بال نہ تھے وہاں ایک رگ تھی جو کہ غصے میں پھڑکتی تھی، آنکھ مبارک کے بارے میں ہے کہ آپ کی آنکھیں لمبی، خوبصورت، سرخ ڈوروں سے مزین تھیں، موٹی اور سیاہ، سفیدی انتہائی سفید، آپ کی پلکیں بڑی دراز، آپ کی ناک مبارک آگے سے تھوڑا اٹھا ہوااور نتھنوں سے باریک ، ایک نور کا ہالہ تھا جو ناک پر چھایا رہتا تھا ، آپ کے ہونٹ انتہائی خوبصورت تراشیدہ، تھوڑے دہانے کی چوڑائی کے ساتھ ، دانت بڑے خوبصورت اور متوازی اور ان میں کسی قسم کی کوئی بے ربطگی نہ تھی، انتہائی باہم مربوط، پہلے چار دانتوں میں خلا تھا، جب آپ مسکراتے تو دانتوں سے نور نکلتا ہوا سامنے پڑتا تھا، گال مبارک نہ پچکے ہوئے نہ ابھرئے ہوئے ، چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا ہوا گول تھا، داڑھی مبارک گھنی تھی۔

    علامہ قرطبی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال میں سے بہت تھوڑا ساظاہر فرمایا اگر سارا ظاہر فرماتے تو آنکھیں اس کو برداشت نہ کرسکتیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا سارا حسن ظاہر کیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن کی چند جھلکیاں دکھائی گئیں اور باقی سب مستور رہیں، کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو اس جمال کی تاب لا سکتی، اس لئے ہم وہی کچھ کہتے ہیں جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر ہم تک پہنچایا۔

    براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی اس بات کو حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ شاعر رسول اللہ نے ان الفاظ میں بیان کیا’’ آپ جیسا حسین میری آنکھ نے نہیں دیکھا ، آپ جیسے جمال والا کسی ماں نے نہیں جنا ، آپ ہر عیب سے پاک پیدا ہوئے ، آپ ایسے پیدا ہوئے جیسے آپ نے خود اپنے آپ کو چاہا ہو‘‘۔ غرضیکہ آپ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں سب سے زیادہ رحمت اللعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت پیدا فرمائے آمین۔

  • تعمیر انسانیت میں اساتذہ کا کردار – رانا اعجاز حسین چوہان

    تعمیر انسانیت میں اساتذہ کا کردار – رانا اعجاز حسین چوہان

    انسانیت کی تعمیر و علمی ارتقاء میں اساتذہ کا بنیادی کردار ہے ، جو کہ اپنے علم کے ذریعے عقل کو روشن کرنے کا ہنر سکھاتے آئے ہیں۔ اساتذہ قوم کے معمار ہیں اور نوجوانوں کی سیرت کو سنوارنے، انہیں مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور ان کی کردار سازی میں اہم ترین فریضہ سر انجام دیتے آئے ہیں۔

    اور اپنی انتھک محنت سے نوجوانوں کو محقق، ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان، سیاستدان اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارہائے منصبی پر فائز کرتے چلے آئے ہیں۔اساتذہ انسان کو ربّ رحمن سے آشنا کرتے ، دنیا میں انسانیت سے محبت، امن،اور اخوت کا پرچار کرتے، اور جہالت کے اندھیروں کو علم کی روشنی سے ختم اور علم کی قندیلوں سے قندیلیں روشن ومنور کرتے چلے آئے ہیں۔ بلاشبہ درس و تدریس وہ پیشہ ہے جسے صرف اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہب اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ لیکن یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ دنیائے علم نے معلم کی حقیقی قدر و منزلت کو کبھی اس طرح اجاگر نہیں کیا جس طرح اسلام نے انسانوں کو معلم کے بلند مقام و مرتبے سے آگاہ کیا ہے۔

    اسلام نے معلم کو بے حد عزت و احترام عطا کیا ہے۔ اللہ ربّ العزت نے قرآن مجید فرقان حمید میںنبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بحیثیت معلم بیان کی ہے۔ خود خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیاہے‘‘۔خالق کائنات نے انسانیت کی رہنمائی اور تعلیم کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا ء کرام کو بھیجا، ہر نبی شریعت کامعلم ہونے کے ساتھ ساتھ کسی ایک فن کا ماہر بھی ہوتا تھاجیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام دنیا میںزراعت ، صنعت کے معلم اوّل تھے ،کلام کو ضبط تحریر میں لانے کا علم سب سے پہلے حضرت ادریس علیہ السلام نے ایجاد کیا،حضرت نوح علیہ السلام نے لکڑی سے چیزیں بنانے کا علم متعارف کروایا،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے علم مناظرہ اور حضرت یوسف علیہ السلام نے علم تعبیر کی بنیاد ڈالی۔

    خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے معلم کو انسانوں میں بہترین شخصیت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایاتم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سیکھائے۔ اس سے ظاہرہوتا ہے کہ اسلام میں معلم کا مقام و مرتبہ بہت ہی اعلی و ارفع ہے۔ اسلام نے استاد کو معلم و مربی ہونے کی وجہ سے روحانی باپ کا درجہ عطا کیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول استاد کی عظمت کی غمازی کرتا ہے کہ ’’جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا میں اس کا غلام ہوں، وہ چاہے مجھے بیچے، آزاد کرے یا غلام بناکررکھے‘‘۔ پانچ اکتوبر کا دن دنیا بھر میں ’’ورلڈ ٹیچرز ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے ۔

    یہ دن جہاں اساتذہ کرام کی قدر ومنزلت کے پہچاننے کا دن ہے وہیں اساتذہ کے لئے غور کرنے کا دن ہے کہ وہ اپنے فرائض منصبی کو احسن طور پرسر انجام دے رہے ہیں یا نہیں۔وہ اپنے طلباء کی صحیح سمت میں رہنمائی کررہے ہیں یا اپنی خدمات کو محض ایک ڈیوٹی سمجھ کر انجام دے رہے ہیں۔ایک استاد کے لئے طلباء کی تربیت،انہیں صحیح راستہ دکھانا، زندگی کے نشیب و فراز سے آشنا کرنا، مشکلات سے نمٹنے کا سلیقہ سکھانا، آگے بڑھنے کے لئے حوصلہ افزائی کرنا اور معاشی و اقتصادی ترقی کے لئے ہنر مندی کی اہلیت پیدا کرنا، بطور معلم اہم ترین فریضہ ہوتا ہے۔ اور نہ صرف طالب علم بلکہ والدین ، رشتہ دار اور سب سے بڑھ کر ملک و قوم اساتذہ کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہوتے ہیںکہ وہ اپنے کردار سے سماجی اور قومی قدروں میں اضافہ کریں گے۔ بلاشبہ اساتذہ کی محنت سے قوموں کی تقدیریں بدل جاتی ہیں۔

    ہمارے معاشرے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہاں تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے لئے رکھے گئے اساتذہ کوپیشہ ورانہ اور معاشی نقصان پہنچا کر ان کا استحصال کیا جاتارہا ہے، اساتذہ کو فریضہ تدریس کی ادائیگی کی بجائے گھروں سے بچے اکٹھے کرنے، پولیو کے قطرے پلانے، ووٹنگ لسٹ بنانے ،مردم شماری کرنے، اینٹوں کے بھٹوں پر بچوں کے والدین کو لیجا کر ان کے کارڈ بنوانے کا کام لے کر بچوں کو تعلیم کے حقیقی ثمرات سے محروم کیا جا رہا ہے، اور پھر ان حالات کی ذمہ داری اساتذہ پر ڈال کر ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرکے اساتذہ کی تذلیل کی جاتی ہے۔

    افسران تعلیم کی جانب سے اساتذہ کو بلاجواز سزائیں دی جاتی ہیں، پنجاب میں ایگزامینیشن کمیشن کے غیر معیاری امتحان کے غیر معیاری نتائج کی بنیاد پر اساتذہ کی انکریمنٹس سلب کر لی جاتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اساتذہ کو پرسکون طریقہ سے تدریس کا عمل جاری رکھنے کے لئے ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں بند کی جانی چاہیے۔ بہتر کارکردگی دیکھانے والے ایجوکیٹرز کو مستقل کیاجانا چاہیے ، اساتذہ کی ہیلتھ انشورنس کی جانی چاہیے تاکہ اساتذہ بہتر طور پر تدریسی خدمات سرانجام دے سکیں۔

  • عظیم لیڈر، محمد علی جناح –  رانا اعجاز حسین چوہان

    عظیم لیڈر، محمد علی جناح – رانا اعجاز حسین چوہان

    اہل پاکستان کو ایک آزاد مملکت کا تحفہ دینے والے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ کا74 واں یوم وفات 11 ستمبر کو انتہائی عقیدت و احترام سے منایا جارہاہے ، ملک بھر کی مساجد میں بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کی روح کو ایصال ثواب کیلئے قرآن خوانی، اور اہل پاکستان کی جانب سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی شاندار خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جائے گا۔

    برصغیر کے مسلمانوں کی زندگی میں تین قد آور شخصیات نے انقلابی تبدیلیاں برپا کیں، اور آخرمیں تینوں کی جدوجہد ایک علیحدہ وطن کے قیام پر منتج ہوئی جبکہ آغاز میں یہ تینوں راہنما ہندومسلم اتحاد کے داعی تھے۔ سرسیّد نے پورے خلوص سے اتحاد کی کوششیں کیں مگر بالآخر وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ’’اگر ہندوستان میں برطانوی جمہوریت آئی تو ہندوستانی مسلمان خود کو ہندوؤں کے رحم وکرم پر پائیں گے ‘‘۔مشرق کے بے مثل شاعر اور مفکر علامہ محمد اقبالؒ نے بھی ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘جیسے ترانے لکھے مگر اسی ہندوستان کی اکثریتی آبادی کی تنگ نظری کو بھانپ کر انہوں نے خود ایک علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا۔ محمدعلی جناحؒ کئی سالوں تک ہندومسلم اتحاد کے سب سے بڑے وکیل رہے.

    مگر ھندوذہنیت کو اچھی طرح جانچنے اور پرکھنے کے بعد اس قدر بدظن ہوئے کہ سیاست سے ہی کنارہ کش ہوکر برطانیہ چلے گئے اور جب واپس آئے تو مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن کی تحریک کا پرچم اٹھالیا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا اہل پاکستان پر احسان عظیم ہے کہ انہوں برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک آزاد ، خودمختار ریاست کے قیام کے لئے بھر پور جدوجہد کی، جس کے نتیجے میں برصغیر کے مسلمان مسلم لیگ کے جھنڈے تلے یکجا ہوئے۔ بانی پاکستان نے اپنی مضبوط قوت ارادی، دانشورانہ صلاحیتوں، گہرے مدبرانہ فہم و ادراک اور انتہائی مضبوط و فولادی اعصاب اور انتھک محنت سے برصغیر کے مسلمانوں کے گلے سے صدیوں کی غلامی کا طوق ہمیشہ کے لئے اتارا ۔

    قائد اعظم محمد علی جناح ایک عہد آفرین شخصیت، عظیم قانون دان، بااصول سیاستدان اور بلند پایہ مدبر تھے، ان میں غیر معمولی قوت عمل اور غیر متزلزل غرم، ارادے کی پختگی کے علاوہ بے پناہ صبر و تحمل اور استقامت و استقلال تھا۔ قائد اعظم کی بھر پور جدوجہد کی بدولت آخر کارتحریک آزادی رنگ لائی اور انگریزوں کو ہندو مسلم علیحدہ قومیت یعنی دو قومی نظریہ تسلیم کرنا پڑا ۔ اور 3 جون 1947ء کو ہندوستان کے آخری وائسرائے اور گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے آل انڈیا ریڈیو سے تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان کیا۔ جبکہ یہ ایک امر حقیقی ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی طرف سے شروع کی جانے والی جدوجہد آزادی کے مختلف مراحل پر کسی بھی مسلمان رہنما کو اپنی قوم کی طرف سے اطاعت شعاری کا وہ جذبہ اور مظاہرہ نصیب نہیں ہوا جو بابائے قوم کو حصول پاکستان کے لیے کی جانے والی بے لوث اور شبانہ روز جدوجہد کے دوران میسر آیا۔

    پر عزم جدوجہد آزادی کے ساتھ ساتھ بانی پاکستان کی صحت گرتی رہی ، قائد اعظم محمد علی جناح1930 ء سے تپ دق کے مرض کا شکار چلے آرہے تھے اور اس بیماری سے متعلق صرف ان کی بہن اور چند قریبی ساتھی جانتے تھے مگر بانی پاکستان نے بیماری کی حالت میں بھی جدوجہد آزادی کا کوئی جلسہ ترک نہیں کیا ۔ قیام پاکستان کے صرف ایک سال ایک ماہ بعد بانی پاکستان کی وفات ایک ایسا قومی المیہ ہے جس کے اثرات آج تک محسوس کئے جا رہے ہیں، کیونکہ قیام پاکستان کے بعد قوم کو درپیش سنگین مسائل کے حل اور اندرونی و بیرونی سازشوں سے نمٹنے کیلئے قائداعظم کی رہنمائی کی اشد ضرورت تھی۔ اور بھارت کی اثاثوں کی تقسیم میں ریشہ دوانیوں، بائونڈری کمیشن کی غیرمنصفانہ کارروائیوں (جن کے نتیجے میں کشمیر کے تنازعہ نے جنم لیا) اور دیگر ناگزیر حالات کی وجہ سے ملکی آئین کی تدوین اور ملک کی مختلف اکائیوں کے مابین بنیادی معاملات پر اتفاق رائے کے حصول میں جو تاخیر ہوئی وہ قائد کی وفات کی وجہ سے مزید الجھ گئے۔

    قائداعظم کی زندگی میں نہ تو سول اور خاکی بیوروکریسی کو جمہوری اداروں اور سیاسی نظام میں دخل اندازی کا موقع ملتا اور نہ ملک کے مختلف سیاسی و مذہبی طبقات اور جغرافیائی اکائیوں میں اختلاف کی خلیج گہری ہوتی، کیونکہ قوم کے بھرپور اعتماداحترام اور عقیدت کے علاہ خداداد بصیرت کی وجہ سے قائد اعظم نہ صرف اتحاد و یکجہتی کی علامت تھے بلکہ مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت سے بھی مالامال تھے۔ بانی پاکستان قائداعظم نے پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب میں فرمایا ’’اگر ہم عظیم مملکت پاکستان کو خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو پوری توجہ لوگوں بالخصوص غیر طبقہ کی فلاح و بہبود پر مرکوز کرنی پڑے گی،ہر شخص خواہ وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتا ہو اس کا رنگ ، نسل ، مذہب کچھ بھی ہو اول اور آخر مملکت کا شہری ہے۔

    اس کے حقوق مراعات اور ذمہ داری مساوی اور یکساں ہے‘‘۔ آزادی کی طویل جدو جہد میں قائد اعظم کی شخصیت اور ولولہ انگیز قیادت روشنی کے ایک بلند مینار کی حیثیت رکھتی ہے جس کی روشنی سے پاکستان کو حقیقی طور پر منور کرنے کی ضرورت ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ قائداعظم کے بتائے ہوئے اصول و ضوابط پر سختی سے عمل پیرا ہو کر وطن عزیز کی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا کیا جائے، نئے یا پرانے پاکستان کی بحث میں الجھنے کی بجائے پاکستان کو قائد کا پاکستان بنایا جائے ، تا کہ ہمارا یہ پیارا وطن معاشی ترقی و استحکام حاصل کر کے وہ مقام حاصل کرسکے جس کا خواب شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے دیکھا تھا، اور جس کی تکمیل کے لئے مسلمانوں کے عظیم رہنما قائد اعظم محمد علی جناح نے جدوجہد کی تھی۔