ہوم << تعلیمی سفر ماضی سے حال تک - حمزہ شبیر کشمیری

تعلیمی سفر ماضی سے حال تک - حمزہ شبیر کشمیری

عصر حاضر میں جہاں دوسرے ممالک اپنے تعلیمی نظام کو عروج پر لیے جا رہے ہیں وہاں پاکستانی اور کشمیری عوام بھی بڑے زور و شور سے سینہ چوڑا کر کے یہ بات ہماری سماعتوں کی نظر کرتے ہیں کہ ماضی کی بنسبت ہمارا تعلیمی نظام بہتری کی طرف رواں دواں ہے. آئیے ہم زمانہ ماضی کے تعلیمی نظام کا موازنہ موجودہ تعلیمی نظام سے کر کے دیکھتے ہیں کہ کیا فی الواقع ہم ترقی و بہتری کی راہ پر گامزن ہیں یا پستی و زوال کو عروج سمجھ بیٹھے ہیں.
زیادہ پیچھے جانے کیضرورت نہیں لیکن مناسب ہوگا کہ یہاں برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کے آغاز تعلیمی سلسلہ کا مختصر تعارف کروا دیا جائے.
برصغیر پر جب انگریز قبضہ کلیہ کر چکے اور مسلمان و ہندو عوام مغلوب ہو کر رہ گئے تو اس وقت نازک میں کچھ ارباب فکر و نظر کی فہم عمیق نے جو انگڑائی لی تو وہ اس نتیجہ پر آ کر رک گئی کہ انگریز کے قابض ہونے کی اہم وجہ ان کا تعلیمی عروج ہے، اور مسلمانوں کی پستی و زوال کا سب سے اہم سبب تعلیم سے دوری ہے. اگر چہ مسلم قوم اس وقت بھی حد درجہ اسلامی تعلیمات پر عامل تھی، لیکن غلامی سے نکلنے کے لیے اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ دیگر علوم و فنون کی ضرورت کا انکار بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، لہذا جب یہ بات ارباب فکر کے سامنے روز روشن کی طرح واضح ہوئی تو اس وقت ضرورت محسوس کی گئی اس امر کی کہ مسلمانوں کو تعلیم کی طرف توجہ دلائی جائے تا کہ مسلم قوم غلامی کی اس زنجیر کو مسمار کرتے ہوئے ایک تعلیم یافتہ قوم کی حیثیت سے دنیا کے سامنے کھڑی ہو سکے. چونکہ اس وقت مسٹر اور ملا کی تفریق تو تھی نہیں لہذا اس سلسلہ کی ابتداء کرتے ہوئے ایک ہی مدرسہ کی بنیاد رکھی گئی جو آج بھی دار العلوم دیوبند کے نام سے موسوم ہے، جس کے اندر اس وقت کے معروف تمام علوم فلسفہ ، منطق ، ریاضی ، علم ادب ، علم تفسیر ، علم حدیث ، علم فلکیات ، علم فقہ وغیرہ کی تعلیم دی جاتی تھی، اورچونکہ اس تعلیمی نظام کے پیچھے ہوس دولت نہیں بلکہ ایک فکر عمیق کارفرما تھی، اس لیے فکری تربیت پر بھی بہت زور دیا گیا، اور مسلم معاشرہ کی اصلاح کے لیے ایسے افراد کو تیار کیا گیا جو ذہنی غلامی سے کوسوں دور نظر آئے.
دوسری طرف دیکھیں تو سرسید احمد خان جیسے افراد اس کاوش میں کندھے سے کندھا ملا رہے ہیں. علی گڑھ یونیورسٹی کی بنیاد رکھ کر مسلم قوم کو انگریزی سے باور کرایا گیا تاکہ انگریز کی فکر کو سمجھ کر اس کے تحت جوابی کارروائی عمل میں لائی جائے، لیکن افسوس کہ عصر حاضر میں نتیجہ اس کے بر عکس نکلا. رفتہ رفتہ مزید تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی گئی، ان تعلیمی اداروں نے ایسے افراد تیار کیے جو اپنی مثل آپ تھے، اور جن کا انگریز کو الٹے قدم بھگانے میں اہم کردار ہے. ایسے افراد سے بھلا کون صاحب نا آشنا ہو سکتے ہیں جن کا استقلال پاکستان میں اہم کردار ہے.
اب ذرا آگے چلتے ہیں. جب دو کاپیاں، دو کتابیں، اردو اور حساب، ایک تختی گاچی اور سلیٹ اور سلیٹی ہوا کرتی تھی، تعلیم تو تب بھی تھی مگر تب استاد کما حقہ استاد تھا، اس کا احترام واجب سمجھا جاتا تھا، والدین استاد کی عزت اور قدر کرتے تھے۔ استاد تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی نظر رکھتے تھے بلکہ اگر میں کہوں کہ کم سلیبس کے ساتھ بہترین تربیت تو بےجا نہ ہوگا. اب ہم تعلیمی اعتبار سے ترقی یافتہ ہوگئے مگر تربیت ہماری زوال پذیر ہے. ہر تعلیمی ادارہ بہترین تعلیم و تربیت کا دعوی کرتا ہے مگر معاشرے کے ادب و آداب اور اخلاقی زوال کے پیش نظر مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ ہم ناکام اور دو رخی رویہ کا شکار ہیں، ہمارے بچے بھی حالانکہ انہیں مضبوط اور مستند شخصیت میں ڈھلنا چاہیے۔ قوانین ہر جگہ ایک جیسے ہوتے ہیں، بس ہمیں ان کی عملداری کو خود پہ لاگو کرنا آنا چاہیے اور اسے بوجھ نہیں بلکہ فرض سمجھ کے ان کی روشنی میں اپنی اور اپنی نسل کی شخصیت کو سنوارنا چاہیے۔
اب ذرا اس سے بھی آگے بڑھ کر دیکھتے ہیں. آج سے تقریبا 14 ، 15 برس قبل کہ جب میں اپنے گاؤں کے ایک اسکول میں زیر تعلیم تھا. تب بھی میں دیکھا کرتا تھا کہ اساتذہ ایسے شفیق کہ شفقت میں اپنی مثل آپ تھے. استاد کی شفقت روزانہ کا کام خوشی سے کرتے، پہلی کلاس میں ہی 6 کلمے، نماز وغیرہ زبانی یاد ہو چکے تھے. تعلیمی سفر پر گامزن جب جماعت ہفتم تک پہنچا تو اساتذہ کی تعداد بڑھ چکی تھی، اسباق زیادہ ہو چکے تھے، مگر اساتذہ کی شفقت اسی طرح قائم تھی، اور تعلیم کے ساتھ ساتھ ہماری تربیت کا بھی خاص خیال کیا جاتا تھا.
پھر یوں ہوا کہ گردش زمانہ نے کروٹ بدلی اور ہماری کالج لائف کا آغاز ہوا. وقت گزرتا رہا اور میں دیکھتا رہا، اور عالم تحیر میں ڈوبتا چلا گیا کہ یہ گردش دوراں نے آخر ایسا کون سا جام اساتذہ کو پلا ڈالا جو طلبہ کی تعلیم و تربیت سے بےخبر دولت کی ہوس میں ڈوبتے نظر آ رہے ہیں. کیا وجہ ہے کہ ہمارے سکولز، کالجز اور مدارس ہمارے معاشرہ کے لیے ایسے افراد تیار نہیں کر پا رہے جس کی عصر حاضر میں مسلم معاشرہ کو ضرورت ہے. کیا وجہ ہے کہ اساتذہ کی توجہ صرف ذہین طلبہ تک محدود ہے کہ وہ ان کے ادارہ کا نام روشن کریں گے، اور پھر یوں مزید لوگوں کو بھی بیوقوف بنانےکا موقع ملے گا.
آج جب بچے کو اسکول میں داخل کروایا جاتا ہے تو سب سے پہلے جو ہدایات دی جاتی ہیں، ان میں یہ بات سرفہرست ہوتی ہے کہ بچے کا اسکول یونیفارم، کتب، بستہ وغیرہ اسکول سے ہی خریدنا ہوگا. یہ اسکول ہے یا مارکیٹ؟ 2، 3 برس تک تو بچہ ایک ہی کلاس جن کو مختلف نام دے دیے گئے، میں ہی سسکتا نظر آئے گا، اور 3 برس کے بعد ہی پہلی کلاس تک پہنچ پائے گا. چاہے بچہ کتنا ہی ذہین کیوں نہ ہو. لیکن اگر اسی کلاس کی پوری فیس ادا کر دی جائے تو آپ کا لخت جگر 1 ہی سال بعد پہلی جماعت تک رسائی کر سکتا ہے خواہ کتنا ہی کند ذہن کیوں نہ ہو. آج شفقت اور پیار نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی، والدین نے بچوں سے جان چھڑانی ہے اور اساتذہ کو تنخواہ سے مطلب ہے.
اس وجہ سے ایک غریب شخص اپنی اولاد کو تعلیم دلانے سے قاصر ہے، اور تعلیم بھی مثل دولت اصحاب ثروت کی میراث بن کر رہ گئی ہے. ہم بظاہر ترقی کی طرف رواں دواں ہیں اور گذشتہ سالوں میں ملکی تعلیمی شرح میں قابل قدر اضافہ ہوا ہے۔ اسکولز کی تعداد بڑھی ہے مگر جس طرح مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے، اسی طرح تعلیمی اداروں کے بڑھنے سے فیسوں میں اضافہ ہوا اور ماڈرن تعلیم غریب اور متوسط طبقے کی پہنچ سے دور ہو گئی، ان کے حصے میں وہی سرکاری اسکولز آئے جہاں ٹاٹ تختی کا استعمال اب بھی عام ہے۔
کیا وجہ ہے کہ اسکولز، کالجز کا نصاب تعلیم اسلامی تعلیمات سے کوسوں دور نظر آتا ہے ؟
انگریزی و مغربی مضامین نے طلبہ کے اذہان کو مغلق کر کے رکھ دیا، طلبہ کو کھیل کی فرصت نہیں، بزرگوں سے ادبی تعلیم سیکھنے کا وقت کہاں سے ملے؟
کیا وجہ ہے کہ قومی زبان اردو کے بجائے انگریزی زبان کو اپنا رکھا ہے؟
ایسے کئی ایک افراد سے واسطہ پڑا جو انگریزی تو مادری زبان کی طرح ہماری سماعتوں کی نظر کرتے ہیں لیکن اردو ادب سے نا آشنا ہیں. اگر اردو ادب کے حوالے سے موازنہ کرنا چاہتے ہیں تو زمانہ ماضی کے کسی بھی مصنف کی تصنیف بھی اٹھا کر پڑھ لیجیے اور اب کے مصنف کی بھی، فرق آپ خود محسوس کریں گے.
آج بچوں کے کندھوں پر کتب کا بوجھ لاد کر انہیں اسکول کی طرف روانہ کر دیا جاتا ہے اور گمان یہ ہوتا ہے کہ بچہ علامہ بننے کو جا رہا ہے، مگر یہ کتب محض ایک بوجھ بن کر رہ گئی ہیں، اسکول میں کمپیوٹر، سائنس، انگریزی کے مضامین کے بہانے طلبہ کو گھر میں بھی موبائل فون اور انٹرنیٹ وغیرہ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے، اور پھر والدین بھی دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہو کر بچے کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں، اور بچے تو پھر بچے ہیں، ان اشیاء کے استعمال نے ان کی صحت کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاق کا بھی جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے. والدین کی توجہ اس امر سے کوسوں دور رہتی ہے کہ بچہ ان سہولیات کا استعمال کس طرح کر رہا ہےاور کیا اثر پڑ رہا ہے. یہ تعلیمی عروج ہے یا زوال، فیصلہ آپ خود کیجیے.