میں موم بتی ہوں، موم سے بنی ہوں اور روشنی پھیلاتی ہوں۔ میری زندگی خدمت خلق اور ایثار کا نمونہ ہے۔ میں دوسروں کی زندگی میں اجالا کرنے کے لیے اپنی زندگی داؤپر لگا دیتی ہوں۔ میری شکل و صورت کچھ کچھ تراشیدہ پنسل کی مانند ہے، اگرچہ جسامت میں اس سے زیادہ ہوں۔ ادب کی زبان میں مجھے شمع بھی کہا جاتا ہے۔ میرا تعلق چراغ کے خاندان سے ہے۔
میری اہمیت کے پیش نظر اکثر عظیم شعرا نے اپنے کلام میں میرا تذکرہ کیا ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال تو مجھ سے اتنے متاثر تھے کہ میرے جیسا ہی بننا چاہتے تھے۔ اسی لیے تو کہا
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
میرا تو یہ خیال ہے کہ اقبال مجھ پر رشک بھی کرتے تھے۔ انھوں نے جب میرے بارے میں فرمایا
پروانہ تجھ سے کرتا ہے اے شمع پیار کیوں؟
یہ جان بے قرار ہے تجھ پر نثار کیوں؟
تو مجھے بہت حیرت ہوئی۔ اقبال سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ جو اپنی زندگی دوسروں کے لیے وقف کر دیتے ہیں، ان سے محبت کرنے والوں کی کمی نہیں ہوتی۔
میں اپنی استقامت اور بہادری کی وجہ سے بھی معروف ہوں۔گھٹاٹوپ اندھیرا، بےپناہ تاریکی، ہر سو ظلمت، میرے عزائم کو مات نہیں دے سکتے۔ میں سیاہی کو سپیدی میں بدلنے تک جدوجہد کرتی رہتی ہوں۔ میں لڑتے لڑتے زندگی کی بازی ہار جاتی ہوں لیکن راہ فرار اختیار نہیں کرتی۔ غالب جیسا شاعر بھی مجھے خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
میری طبیعت میں نرمی بہت زیادہ ہے۔ میں ضد کیے بغیر بہت جلد اس حالت میں ڈھل جاتی ہوں جس حالت میں کوئی مجھے ڈھالنا چاہے اور اپنی اس خصوصیت کی بنا پر میں پاکستان کے آئین سے بھی مشابہ ہوں۔ فرق صرف یہ ہے کہ مجھے ہر شخص اپنےمطلوب ڈیزائن میں ڈھال سکتا ہے جبکہ آئین کو اپنی من پسند شے بنانے کا حق صرف ڈکٹیٹروں اور اشرافیہ کو حاصل ہوتا ہے۔
تاریخی طور پر بھی میرا بہت اہم کردار رہا ہے۔ بہت سے اہل علم نے رات گئے مطالعے کے لیےمیری خدمات حاصل کیں اور دنیا میں بلند مقام پایا۔ میں نے بارہا اندھیرے میں بھولے بھٹکے قافلوں کی رہنمائی کا فریضہ بھی سرانجام دیا۔ میں نے فرض شناس پہرے داروں کا بھی بہت ساتھ نبھایا۔ ایک دور ایسا بھی تھا کہ میری ہر گھر میں ضرورت تھی۔ تاہم بجلی کی ایجاد نے مجھے بہت نقصان پہنچایا۔ جگمگ لائٹوں اور برقی قمقموں نے تو مجھے حالت مرگ تک پہنچا دیا تھا۔ میرا مستقبل تاریک کر دیا گیا تھا لیکن بھلا ہو پاکستان کے کرپٹ اور نا اہل حکمرانوں کا جنھوں نے اس ملک کے طول و عرض سے بجلی کو غائب کر دیا۔ خواص نے تو یو پی ایس اور جنریٹر کی مدد سے اس کا توڑ کرنے کی کوشش کی لیکن مشکل کی اس گھڑی میں عوام کی مدد کے لیے میں ہی میدان میں آئی۔
عمر بن عبدالعزیز کےدور عروج میں میری اتنی اہمیت تھی کہ اپنے ذاتی مہمانوں کی موجود گی میں وہ میرا خیال رکھتے ہوئے نجی امور میں استعمال نہ کرتے۔ اب میری یہ حالت ہے کہ ظلمت کی نقیب، اندھیروں کی تمنائی ”انکل نما آنٹیوں“ اور ”آنٹی نما انکلوں“ پر مشتمل سیکولر لابی اپنے کسی نظریاتی عزیز کی وفات یا مغرب میں ہونے والے کسی حادثے پر مجھے ”جلا“ کر برباد کر تی رہتی ہے۔ اسی بدولت بعض من چلے اسے ”موم بتی مافیا“ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ میں اس نام پر شدید احتجاج کرتی ہوں اور میرا مطالبہ ہے کہ میرے نام کو اس ٹولے سے ہرگز منسوب نہ کیا جائے۔ میرا مقصد اندھیروں کا خاتمہ اور میری زندگی وفا شعاری سے عبارت ہے جبکہ اس ٹولے کا نظریہ حیات محض قوم و وطن اور ملک و ملت سے بے وفائی ہے۔
تبصرہ لکھیے