امریکی مصنف مارک ٹوین کا ایک مشہور قول ہے، ’’اگر آپ اخبار نہیں پڑھتے تو آپ ان انفارمڈ ہیں اور اگر آپ پڑھتے ہیں تو آپ مِس انفارمڈ ہیں۔‘‘
میری ذاتی رائے میں آج کے انسان کے ذہنی دباؤ اور پریشانی کی ایک بڑی وجہ آج کا الیکٹرانک اور سوشل میڈیا بھی ہے۔ میں جرمنی میں نیا نیا آیا تو ایک مصری کے پاس کام ملا، کام یہ تھا کہ ٹی وی کی مرمت کے اشتہارات لوگوں کے پوسٹ باکس میں ڈالنے تھے۔ ایک دن مصری نے مجھے دریائے رائن کے کنارے واقع امراء کے گھروں کے پاس اتارا کہ ان کے پوسٹ باکسز میں اس کے وزٹنگ کارڈ نما اشتہارات ڈالنے ہیں۔ اسی دوران وہاں مجھے چند جرمن بھی ملے، جو وہاں کہیں آس پاس ہی رہتے تھے۔ ہیلو ہائے کے بعد انہوں نے پوچھا کہ کیا کر رہے ہو؟ گفتگو کے دوران انہوں نے یہ حیران کن انکشاف کیا کہ ان کے دوستوں کا ایک گروپ ہے اور ان میں سے کسی کے پاس بھی ٹی وی ہی نہیں ہے، بس وہ کبھی کبھار ریڈیو اور کوئی اخبار وغیرہ پڑھ لیتے ہیں۔ میرے لیے یہ بات حیران کن تھی کہ بنگلہ بھی ہو، کاریں بھی ہوں، سب کچھ ہو لیکن ٹی وی نہ ہو۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ ٹی وی آپ کے دوستوں کا وقت کھا جاتا ہے، آپ کے بچوں کے حصے کا وقت کھا جاتا ہے، آپ کی زندگی کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیتا ہے اور یہ کہ آپ کی شخصیت کو ہر وقت Manipulate کرتا رہتا ہے۔
مجھے اس وقت یہ بات انتہائی ناقابل فہم لگی، اور وہ لوگ بھی تھوڑے سے ابنارمل یا پاگل سے لگے کہ یہ کیسے جاہل لوگ ہیں جو ٹی وی ہی نہیں دیکھتے کیوں کہ میرے لیے تو یہ انٹرٹینمنٹ تھا، میں تو دن رات فلمیں دیکھتا تھا اور پاکستان کے سیاسی ٹاک شوز بھی اس وقت بہت مشہور تھے۔
دو ہزار آٹھ یا سات کی بات ہے، مشرف کا سیاسی ہلچل سے بھرپور دور تھا، اتوار کی ایک صبح اٹھا، موڈ اچھا خاصا خوشگوار تھا، چائے بنائی، گنگناتا ہوا صوفے پر بیٹھا اور لیپ ٹاپ پر جاوید چودھری کے کالم کے بعد ایکسپریس پر خبریں پڑھنا شروع کر دیں۔ خبریں اور کالم وغیرہ پڑھتا رہا۔ ارشاد حقانی صاحب اس وقت حیات تھے اور جنگ میں سب سے اہم کالم انہی کا تصور کیا جاتا تھا۔ کچھ دیر بعد ایک دوست نے کچھ پوچھا تو اسے ذرا تلخ لہجے میں جواب دیا۔ وہ حیران رہ گیا کہ ہوا کیا ہے؟ اس نے فوری پوچھا کہ تمہارا موڈ کچھ دیر پہلے تو ایسا نہیں تھا؟ میں نے غور کیا تو واقعی میرا لہجہ نوے ڈگری پر تبدیل ہو چکا تھا اور بلا کسی وجہ کے میں غصے میں تھا۔ خود سے سوال کیا کہ یہ بیٹھے بٹھائے کیا ہوا ہے مجھے؟ ابھی ابھی تو خوشگوار موڈ میں تھا۔ تھوڑی دیر غور کیا تو احساس ہوا کہ صرف خبریں پڑھی ہیں اور کسی سے بات چیت بھی نہیں کی اور کسی بات کا اسٹریس بھی نہیں تھا۔
اس دن یہ حقیقت کھلی کہ یہ خبروں کا اثر تھا۔ یہ وہ پہلا دن تھا جب میں نے محسوس کیا کہ مخالفانہ رائے یا ایسی خبریں یا ایسی آراء جو آپ کو پسند نہیں ہوتیں، آپ کو کس قدر پریشان کر دیتی ہیں اور آپ کو پتا بھی نہیں چلتا۔ یقین کیجیے اس سے پہلے تک مجھے کبھی خیال تک نہیں آیا تھا کہ میں اس طرح بھی پریشان ہوتا ہوں، یا ہو سکتا ہوں۔
اب ٹی وی کی جگہ سوشل میڈیا آ چکا ہے اور کسی حد تک یہ بھی لوگوں کی زندگیوں کو مزید پریشانی سے دوچار کر رہا ہے۔
ایک چیز مسلسل نوٹ کر رہا ہوں کہ پچھلے چند ماہ کے دوران میرے کئی مذہبی اور لبرل دوست انتہائی ڈپریشن اور پریشانی کی حالت میں آ کر اپنا فیس بک اکاؤنٹ بند کر چکے ہیں۔ اس کی وجہ صرف اور صرف دوسرے لوگوں سے اختلاف رائے تھا۔ اختلاف رائے کرتے کرتے وہ شدید ڈپریشن کا شکار ہو کر ذہنی مریض بن چکے تھے۔ فیس بک کے بانی زکربرگ کے مطابق وہ ڈس لائک کا بٹن اس وجہ سے نہیں متعارف کروانا چاہتے کیوں کہ وہ فیس بک پر ایک بہتر دنیا قائم کرنا چاہتے ہیں لیکن میری اپنی رائے میں وہ پاکستان جیسے ملک میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔
فیس بک پر سیاسی یا مذہبی اختلافات رکھنے والے کچھ لوگ مضبوط اعصاب کے مالک ہوتے ہیں، انہیں گالیاں بھی پڑتی رہیں تو ٹھنڈ ماحول میں رہتے ہیں لیکن کچھ لوگ تھوڑی سی تنقید سے بھی پریشان ہو جاتے ہیں۔ حساس لوگوں کو میرا مشورہ ہے کہ ان تمام لوگوں کو ان فالو کریں جن کی تحریریں پڑھ کر انھیں غصہ آتا ہے۔ صرف ان لوگوں کو فرینڈ لسٹ میں رکھیے جو آپ کی سوچ سے مطابقت رکھتے ہیں یا جن کے بارے میں آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بندہ دلیل سے یا قابل فہم بات کرتا ہے۔ دیکھیے کہ کس سیاسی یا ادبی تحریر کا آپ کے موڈ پر اچھا اثر پڑتا ہے، صرف وہ پڑھنے کی زحمت گوارا کیجیے۔
میں غلط بھی ہو سکتا ہوں لیکن میرا ذاتی مشاہدہ یہی ہے کہ آج کے پاکستان میں اختلاف رائے کی گنجائش ناقابل یقین حد تک کم ہو چکی ہے۔ کئی لبرل اور مذہبی دوست صرف ایک ایک اختلافی کمنٹ کی وجہ سے ناراض ہیں۔ شاید آپ کے ساتھ بھی ایسی صورتحال پیش آئی ہو۔ ایسے میں آپ خود بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ میرا اختلافی کمنٹ ضروری تھا یا ایک دوست یا جاننے والے سے اچھا تعلق۔ اب یہ چوائس آپ کی ہے، اختلافی کمنٹ کر لیں یا جاننے والوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھ لیں۔
سٹریس فری ہونے کے لیے فیس بک کے بجائے اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزاریے،گپ شپ کیجیے، گھر والوں کے ساتھ سیر و تفریح کیجے اور سیاسی پیجز کو کم سے کم پڑھیے۔ گلوبلائزیشن کا ایک نقصان یہ بھی ہوا ہے کہ دنیا بھر کی بری خبریں، مسائل، دکھ، لاشیں اور بہتا ہوا خون کسی نہ کسی طریقے سے سمٹ کر آپ کے موبائل تک پہنچ جاتا ہے۔ اب ایک انسان میں یہ ہمت نہیں کہ وہ پوری دنیا کے دکھ سن سکے، اگر سنے گا تو اس کا اثر مزاج پر بھی ہوگا۔ مسئلہ شام، ترکی یا فرانس میں ہوگا لیکن آپ بحث اور لفظوں کی لڑائی پاکستان میں لڑ رہے ہوں گے۔
میڈیا یا فیس بک پر آپ لاشعوری طور پر اپنی زندگی کا موازنہ دوسروں سے کرتے رہتے ہیں اور اس کا بھی یقین جانیے، ذہن اور رویے پر منفی اثر پڑتا ہے۔ آپ کے دوست ہر وقت پیزا ہٹ سے لے کر آسانیوں سے بھرپور لائف کی تصویریں اپ لوڈ کر رہے ہوتے ہیں اور لاشعوری طور پر آپ ان سے اپنا موازنہ کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ نمائشی اور سطحی دنیا آپ کی سوچ پر اثر انداز ہو رہی ہوتی ہے، اس سے بھی خواہشات کی دوڑ میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
آخری بات اپنے لکھاری دوستوں کے لیے، بعض دوستوں کی تحریر سے پتہ چل رہا ہوتا ہے کہ وہ شدید ذہنی دباؤ میں لکھ رہے ہیں۔ بلاگنگ یا رائٹنگ بذات خود ایک سٹریس ہے اور اس سے بڑا سٹریس یہ ہے کہ لوگ آپ کی تحریر کو لائک بھی کریں اور آپ مشہور سے مشہور ہوتے چلیں جائیں۔ ریٹنگ بذات خود ایک بہت بڑی پریشانی ہے۔ سٹریس کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ تحریر پوسٹ کے چند منٹ بعد دیکھتے رہیں کہ کتنے لائک ہو گئے. اپنی زندگی کو آسان بنائیے اور صرف شوق کے طور پر لکھیے اور جب لکھ لیں تو پھر رد عمل سے بے پرواہ ہو جائیے۔ شاید پروفیشنل رائٹر ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ انہوں نے اپنا کیرئر بنانا ہوتا ہے لیکن اس کیرئر کے پیچھے ان کا اپنا سکون داؤ پر لگا ہوتا ہے۔ میں پاکستان کے چند مشہور صحافیوں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ وہ اس قدر فکرمند رہتے ہیں یا ان کے ’سوچنے کا عمل‘ اب اس قدر زیادہ ہو چکا ہے کہ ان کی نیند چار سے پانچ گھنٹے تک رہ گئی ہے۔ وہ اٹھتے، بیٹھتے، سوتے جاگتے ہر وقت فکر اور سڑیس کی کیفیت میں رہتے ہیں۔ ایک دن ایک انتہائی نامور اینکر نے بتایا کہ یہ چار پانچ گھنٹے بھی بس عجیب عجیب خوابوں کی نظر ہو جاتے ہیں۔
ذاتی طور پر ایک عرصے سے ٹی وی دیکھنا کم کر دیا ہے۔ چھٹیوں میں کوئی خبر سامنے بھی آئے تو پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔ ایسے لوگوں کو بہت کم پڑھتا ہوں، جنہیں پڑھ کر ذہنی طور پر تکلیف ہو۔ فیس بک پر بھی زیادہ تر مزاحیہ یا ادبی تحریریں ہی نظر سے گزرتی ہیں۔ گزشتہ آٹھ برسوں سے اپنے موبائل کی رنگ ٹون اور وائبریشن بھی بند کر رکھی ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ یہ ایکسٹریم کیس ہے اور شروع شروع میں میرے دوست احباب اس بات پر ناراض بھی رہتے تھے لیکن اب سب عادی ہو چکے ہیں۔ ایسا کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ایک دو مرتبہ سوتے سوتے اتنی زور سے بیل بجی کہ دل دھڑکتا رہ گیا اور میں پاگلوں کی طرح نیند سے بیدار ہو گیا۔
اپنی زندگی آسان بنائیے، دنیا کے مسائل کے بجائے اپنے ارگرد کے لوگوں پر توجہ دیجیے اور اس میڈیا سے ذرا ہٹ کر زندگی گزاریے۔ انسانی ذہن کو سکون چاہیے ہوتا ہے۔ مسلسل معلومات کی بمبارمنٹ ذہنی سکون کھا جاتی ہے۔ یہ یوگا اور مراقبہ وغیرہ یہی چیزیں ہیں کہ ذہن تک دیگر معلومات کا رابطہ توڑ دیا جائے، ذہنی پل پر سے گزرنے والی سوچوں، فکروں اور معلومات کا راستہ بلاک ہو اور آپ صرف کسی ایک نقطے پر توجہ مرکوز کر سکیں۔
تبصرہ لکھیے