قربانی”قرب“سے ہے جس کا مطلب ہے ایسا عمل جو اللہ تعالی سےقرب ومحبت کا ذیعہ بنے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی کے ہاں قربانی کے دن انسان کا کوئی عمل جانوروں کے خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ نہیں ہے۔ آپﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ جو شخص استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے نیز آپ ﷺ نے فرمایا کہ خوب موٹے تازہ جانور کی قربانی کرو کیونکہ پل صراط پہ یہ تمہاری سواریاں ہوں گی۔
نجانے کیوں کچھ لوگ شعوری یا غیرشعوری طور پر اس عظیم فریضہ کی اہمیت و افادیت کا انکار کر رہے ہیں اور اس کے متعلق مختلف سوال اٹھا کر شکوک و شبہات ڈالنا چاہتے ہیں. افسوس کہ اس میں اچھا خاصا پڑھا لکھا طبقہ بھی شامل ہے۔ یہ بڑے جذباتی انداز میں انسانیت کے ساتھ ہمدردی ظاہر کرتے ہوئے اس فریضہ کو غریب و بےسہارا لوگوں کی ضروریات کے متصادم قرار دیتے ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے کہ غریب کے پاس علاج کے پاس نہیں، مالی بدحالی کی وجہ سے غریب کی بیٹیاں گھر میں بیٹھی ہیں اور ادھر قربانی کی جا رہی ہے۔ اتنے مہنگے لاکھوں کےجانور خریدنا فضول خرچی ہے۔ ایسی قربانی نمود ونمائش کے لیے ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔
یہ اور اس طرح کی کئی اور باتیں اس موقع پر انسانی ہمدردی کے لبادے اور جذباتی انداز سے سننے میں آتی ہیں۔ اگر بغور دیکھا جائے تو یہ ساری باتیں انتہائی سطحی، غیرحقیقی اور شریعت سے لاعلمی کی بناء پر پیدا ہوتی ہیں۔ اگر اعتراض سے پہلے ان قرآنی آیات کو دیکھ لیتے کہ جن میں قربانی کا حکم دیا گیا ہے تو اعتراض پیدا نہ ہوتا کیونکہ وہاں واضح طور پر حکم دیاگیا ہے کہ قربانی کے گوشت میں سے بےکس و بے سہارا غرباء اور فقراء کو بھی کھلاؤ۔ چنانچہ دنیا میں کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو صرف اسی موقع پر گوشت کھاتے ہیں، تو قربانی کی وجہ سے غریبوں کو نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہوتا ہے۔
یہ کہنا کہ اتنے مہنگے جانور خریدنا فضول خرچی ہے تو اس کے جواب میں عرض یہ ہے کہ اللہ کی راہ اور غریبوں کی بھلائی میں کثرت سے خرچ کرنا پسندیدہ اور مطلوب ہے چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اللہ کی راہ میں کثرت سے خرچ کرنے کو دیکھ کر کسی نے یہی اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ فضول خرچی میں کوئی بھلائی نہیں ہے تو آپ نے بہت عمدہ جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ بھلائی میں کوئی فضول خرچی نہیں ہے۔ خود نبی کریم ﷺ نے عمدہ جانور ذبح کرنے کی ترغیب دی ہے، اس لیے اس موقع پر جتنا عمدہ اور قیمتی جانور ہوگا، شریعت کی نگاہ میں اتنا ہی پسندیدہ ہے۔
یہ کہنا کہ قیمتی جانور کی قربانی نمود و نمائش اور ریاکاری ہے تو اس کے متعلق عرض ہے کہ اخلاص و ریاکاری کا تعلق دل سے ہے، یہ بندے اور اس کے رب کا معاملہ ہے، کوئی آدمی کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا نیز یہ بدگمانی ہے جس کی شریعت میں سخت ممانعت ہے۔ ان معاشرتی مسائل کی وجہ سے فریضہ قربانی کو تختہ مشق نہیں بنایا جاسکتا، اگرچہ یہ مسائل نہایت اہم اور قابل توجہ ہیں، اگر ہم ان کے حل میں مخلص ہیں تو ہمیں اپنے تعیشات کی قربانی دینا ہوگی، ان فضول خرچیوں کو چھوڑنا ہوگا جو ہمارے معاشرہ کا حصہ بن چکی ہیں۔ ہم اپنی تقریبات اور مختلف مواقع پر کروڑوں اربوں روپے خرچ کر دیے جاتے ہیں. ابھی یوم آزادی پر 20 ارب خرچ کر دیے گئے تو کیا اس پر بھی پابندی لگائی جائے گی.
اسلام نے غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے جو نظام زکوہ وصدقات بتلایا ہے اس پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ اگر اس پر ہم پوری طرح عمل پیرا ہوں تو معاشرے میں غربت و افلاس کا خاتمہ ہوجائے گا. اسلام نے غرباء کی مالی مدد و تعاون اور ان کی خبرگیری کا حکم دیا ہے۔ غریبوں سے ہمدردی و خیر خواہی کا تقاضا یہ ہے کہ شرعی احکام پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دی جائے نہ کہ شرعی احکام سے برگشتہ و دور کیاجائے۔
تبصرہ لکھیے