ہر دور میں انسانیت کی روحانی تربیت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندوں کو منتخب فرمایا۔ ان اولیاء اللہ نے عشقِ الٰہی، تقویٰ، زہد و ورع، اور اخلاق حسنہ کی شمع روشن کی۔ ان کی زندگی محض عبادات تک محدود نہ تھی بلکہ معاشرتی اصلاح، تعلیم و تربیت، محبت، رواداری، اور خدمتِ خلق سے عبارت تھی۔
ایسے ہی جلیل القدر بزرگوں میں ایک نام پیر خراسان، ولی کامل، حضرت سید علی ترمذی المعروف حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کا ہے، جنہوں نے سرزمین خراسان سے آ کر وادی بونیر،سوات،شانگلہ،اورہزارہ پاکستان میں رشد و ہدایت کی ایسی روشنی پھیلائی جس سے آج بھی لاکھوں قلوب منور ہیں۔ ان ہی کے سلسلے کی روشن اور معتبر کڑی، موجودہ سجادہ نشین حضرت پیر باباؒ، پیرِ طریقت، رہبرِ شریعت، سید السادات، حضرت مخدوم سید حسین شاہ باچا ترمذی مدظلہ العالی ہیں، جو اپنے طرزِ عمل، عاجزی، تقویٰ اور خدمت خلق سے اس دور میں ولایت کا عملی نمونہ پیش کر رہے ہیں۔
سجادہ نشینی کا مفہوم:
لفظ "سجادہ نشین" محض کسی مزار یا خانقاہ کے وارث ہونے کا نام نہیں، بلکہ ایک عظیم روحانی، فکری، اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ سجادہ نشین وہ ہوتا ہے جو نہ صرف کسی ولی اللہ کی خانقاہ کی انتظامی ذمہ داری سنبھالتا ہے، بلکہ اس ولی کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں نافذ کر کے اسے دوسروں تک منتقل کرتاہے۔
سجادہ نشین کی شخصیت کا خلاصہ یوں کیا جا سکتا ہے:
وہ علم و عمل کا جامع ہوتا ہے۔ وہ اپنے بزرگ کے طریق اور تعلیمات کا زندہ مظہر ہوتا ہے۔ وہ دنیا کے جھوٹے دکھاوے سے دور، عاجزی و انکساری کا پیکر ہوتا ہے۔ اس کا اصل تعلق اللہ سے، اور پھر مخلوقِ خدا کی خدمت سےہوتا ہے۔
سجادہ نشین کی ذمہ داریاں:
روحانی تعلیمات کا تحفظ اور فروغ:
سجادہ نشین اس بات کا ضامن ہوتا ہے کہ جس بزرگ کی خانقاہ پر وہ موجود ہے، اس کی تعلیمات وقت کے ساتھ ختم نہ ہو جائیں۔ وہ ذکر، فکر، مجاہدہ، اور عبادات کو نہ صرف خود اپناتا ہے بلکہ مریدین اور آنے والے لوگوں کو بھی سکھاتا ہے۔ حضرت پیر باباؒ کی تعلیمات تصوف، اخلاص، خدا خوفی، اور شریعت پر کامل عمل کی آئینہ دار تھیں۔ سید حسین شاہ باچا مدظلہ انہی تعلیمات کے پرچارک ہیں، اور اپنے ہر بیان و کردار میں اس کی جھلک دکھاتے ہیں۔
خانقاہی نظام کی نگرانی:
خانقاہ صرف عبادت کا مقام نہیں، بلکہ یہ ایک مرکز ہوتا ہے جہاں زائرین، مساکین، مریدین، اور عام لوگ آتے ہیں۔ سجادہ نشین ان تمام افراد کی روحانی و دنیاوی رہنمائی کرتا ہے، ان کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے، اور خانقاہ کا انتظام سنبھالتا ہے۔حضرت سید حسین شاہ باچا مدظلہ کی زیرِ نگرانی آستانہ عالیہ پیر بابا میں نظم و ضبط، مہمان نوازی، صفائی، اور خدمت خلق کا ایک منفرد نظام قائم ہے۔
عوام کی روحانی و اخلاقی تربیت:
سجادہ نشین ایک معلم ہوتا ہے، جو علم کے ساتھ ساتھ عمل اور اخلاقیات کا درس بھی دیتا ہے۔ وہ معاشرے میں صبر، تقویٰ، عدل، محبت، بھائی چارہ، رواداری اور خدمت کا پیغام دیتا ہے۔سید حسین شاہ باچا مدظلہ اس دور میں مخلوقِ خدا کو دینِ اسلام کی اصل روح یعنی کردار سازی، اللہ سے تعلق، اور انسانیت کی خدمت کی جانب راغب کرتے ہیں۔
مساوات اور اتحاد کا مظہر:
خانقاہ ایک ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں ذات، نسل، زبان، یا طبقاتی فرق نہیں دیکھا جاتا۔ سجادہ نشین ہر آنے والے کو برابر محبت دیتا ہے، کیونکہ صوفیاء کا پیغام ہی یہی ہے:
"خلق خدا سے محبت، خالق کے واسطے۔"
سید حسین شاہ باچا مدظلہ نہ صرف سادات کے درمیان اتحاد کا علمبردار ہیں بلکہ ہر مکتب فکر کے لوگوں سے محبت و رواداری کے ساتھ پیش آتے ہیں۔
مریدین کی اصلاح اور روحانی رہنمائی:
سجادہ نشین اپنے مریدین کو صرف وظیفے نہیں بتاتا، بلکہ ان کے اخلاق، نیت، عمل، اور زندگی کے ہر پہلو کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے۔ سچائی، دیانت، سخاوت، اور تقویٰ کا راستہ دکھانا اس کا فرض ہے۔ حضرت سید حسین شاہ باچا نہ صرف مریدین کو راہِ طریقت پر گامزن کرتے ہیں، بلکہ ان کی دنیاوی مشکلات میں بھی ایک باپ، ایک راہنما، اور ایک مددگار کی حیثیت سے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔
دورِ حاضر میں "سجادہ نشینی" کا بگاڑ:
افسوس کہ آج کل ہر شخص جو کسی بزرگ کی اولاد ہو، یا جس کے پاس مال و دولت ہو، وہ خود کو "پیر" اور "سجادہ نشین" کہلوانے لگا ہے۔ حالانکہ حقیقی سجادہ نشین وہ ہوتا ہے جس کے اندر روحانی صفائی ہوقلبی تعلق ہو، عاجزی اور درویشی ہو، بزرگوں کی سنت زندہ ہو، صرف بڑے بنگلوں، قیمتی گاڑیوں، لمبے جلوسوں، اور سیاسی روابط رکھنے والا شخص سجادہ نشین نہیں کہلا سکتا۔ سجادہ نشینی تاج نہیں، خاکساری کی چادر ہے۔
حضرت سید حسین شاہ باچا ترمذی مدظلہ کا کردار:
حضرت سید حسین شاہ باچا مدظلہ نہ صرف حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کے خانوادے سے ہیں، بلکہ ان کے باطن میں وہی صفات جھلکتی ہیں جو ایک ولی اللہ میں ہونی چاہییں۔ ان کی گفتگو، طرزِ عمل، مخلوق سے محبت، عاجزی، سادگی، اور عبادات کا ذوق اُنہیں دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔ وہ بغیر کسی سیاسی شہرت یا دنیاوی دکھاوے کے، دن رات اللہ کے بندوں کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کی مجلس میں ہر خاص و عام، امیر و غریب، تعلیم یافتہ و ان پڑھ، سب کو یکساں مقام ملتا ہے۔
روحانی سلسلے کی بقا:
سجادہ نشین وہ ستون ہے جس پر پورے روحانی سلسلے کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ اگر وہ اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طرح نبھائے، تو وہ سلسلہ نسل در نسل نور اور ہدایت بانٹتا ہے۔ اگر وہ دنیا داری میں پڑ جائے تو پھر وہ صرف ایک رسمی ڈھانچہ بن کر رہ جاتا ہے۔ حضرت سید حسین شاہ باچا مدظلہ جیسے اولیاء ہی اس بات کا ثبوت ہیں کہ تصوف آج بھی زندہ ہے، خانقاہ آج بھی اللہ کے بندوں کی پناہ گاہ ہے، اور پیر باباؒ کی تعلیمات آج بھی لوگوں کے دلوں کو جلا بخش رہی ہیں۔ سجادہ نشین کا منصب ایک مقدس اور عظیم امانت ہے۔ یہ نہ دولت سے خریدا جا سکتا ہے، نہ شہرت سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ دل کی صفائی، روح کی پاکیزگی، اور اللہ سے سچے تعلق کا ثمر ہے۔
حضرت سید حسین شاہ باچا ترمذی مدظلہ ان خوش نصیب ہستیوں میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کے سلسلے کی نمائندگی کے لیے چُنا ہے۔ ان کی سادگی، علم، حلم، تقویٰ، اور روحانی نگاہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سجادہ نشینی صرف "وراثت" نہیں بلکہ "امانت" ہے۔
تبصرہ لکھیے