600x314

قدرتِ خداوندی اور ہماری منصوبہ بندی – ابو الحسن نعیم

جب انسان اپنے بنائے ہوئے منصوبے کو ناکام ہوتے دیکھتا ہے تو وہ انتہائی مایوس ہو جاتا ہے۔ کبھی یاس کے اس دہانے پر پہنچ جاتا ہے جہاں سے شک و تشکیک کا دروازہ کھلتا ہے۔ اس کی وجہ بنیادی طور پر انسان کے فہم کی غلطی ہے۔

وہ سمجھتا ہے کہ جو اس نے سوچا اور سمجھا ہے وہ بالکل درست ہے اور اسی کے مطابق پھر وہ منصوبہ بندی کرتا ہے۔ اپنی زندگی کی ساری منزلیں اسی راہ پر تلاش کرتا ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں سوچتا کہ قدرت نے اس کے متعلق کیا فیصلہ کر رکھا ہے؟ ممکن ہے کہ قدرت نے اس کے لیے زیادہ بہتر راہ کا انتخاب کر رکھا ہو جو اس کی نگاہوں سے پوشیدہ ہو۔ اسی لیے رب العالمین نے سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 216 میں ارشاد فرمایا:

وَعَسٰۤى اَنۡ تَكۡرَهُوۡا شَيۡــئًا وَّهُوَ خَيۡرٌ لَّـکُمۡ‌ۚ وَعَسٰۤى اَنۡ تُحِبُّوۡا شَيۡــئًا وَّهُوَ شَرٌّ لَّـكُمۡؕ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ وَاَنۡـتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ
ترجمہ: اور یہ عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو برا سمجھو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو، حالانکہ وہ تمہارے حق میں بری ہو، اور (اصل حقیقت تو) اللہ جانتا ہے، اور تم نہیں جانتے۔

جو شخص اس حقیقت کا ادراک کر لیتا ہے کہ وہ اور اس کی منصوبہ بندی ہی سب کچھ نہیں بلکہ اس کے ساتھ قدرت کے منصوبے اور پلانز بھی موجود ہیں تو وہ شخص یاس و حرماں کے جبر سے بچ نکلتا ہے۔ حقیقت یہ ہی ہے کہ جس شئی اور منزل کو ہم درست قرار دے رہے ہیں ممکن ہے وہ اپنے حق میں بہتر ثابت نہ ہو اور جو قدرت نے ہمارے لیے طے کر رکھا ہے وہ ہمارے لیے بہت بہتر ہو۔

سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا: "میں نے اللّٰہ کو اپنے ارادوں میں ناکامی سے پہچانا ہے.”
اس فرمان کے مطابق دراصل جس معاملے کو ہمیں بطور سبق اور حاصلِ زندگی لینا چاہیے ہم اسی چیز کو یاس اور ناامیدی کا سبب بنا لیتے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ زندگی بھر ناکامی اور یاس کی گھٹن سے آزاد رہیں اور پرلطف اور حسین زندگی گزاریں تو آپ کو اپنے ارادوں اور منصوبوں کے ساتھ اللّٰہ تعالیٰ کی منشاء اور ارادے کا امکان بھی شامل کرنا ہو گا۔

بلکہ جب ہم منصوبہ بندی کرتے ہیں تو اس وقت اپنے اللّٰہ سے یہ کہہ دیا کریں کہ "یا اللّٰہ! میں نے اپنی دانست کے مطابق ایک منصوبہ بنایا ہے۔ آپ کے علم کے مطابق اگر یہ میرے حق میں بہتر ہے تو اسے کامیاب فرما اور اگر میرے لیے مفید نہیں تو پھر جو آپ کے علم میں بہتر ہے وہ میرے حق میں ثابت فرما” . بس یہ ایک دعا سچے دل سے کرنی ہے اور یہ دعا پھر ہمیں یاس اور حرماں کے راستے سے بچا لائے گی جس کا اختتام تشکیک کی دلدل میں ہوتا ہے۔ اور اپنے خیالات میں تبدیلی ہمیں زندگی بھر کی کوفتوں سے بچا لے گی۔

مصنف کے بارے میں

بلاگز

تبصرہ لکھیے

Click here to post a comment