چند روز قبل شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے میڈیا سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر واجد ذوالقرنین سے میڈیا اینڈ انفارمیشن لٹریسی اور آج کے دور میں میڈیا کے کردار پر ایک مکالمہ ہوا۔ ڈاکٹر صاحب بہت جہاندیدہ شخصیت ہیں اور ابلاغیات و انفارمیشن کے میدان میں جدت پسندی کے قائل ہیں اور یہی وجہ ہے کہ زیبسٹ کا میڈیا سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ انکے ویژن کا عکاس نظر آتا ہے جہاں طلباء کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کا بہترین پلیٹ فارم میسر آتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا فرمانا تھا کہ ہم پوسٹ ماڈرنزم کے عہد میں سانس لے رہے ہیں جہاں سچ کی بہت سی پرتیں اور پہلو نظر آتے ہیں اور حقیقت تک پہنچنے کیلئے ہمیں اپنی سوچ اور مطالعہ کو وسعت دینا ہو گی کیونکہ پوسٹ ماڈرنزم کے مطابق معاشرے کے وہ تمام افراد بشمول ہمارے اساتذہ، والدین، سیاسی اور مذہبی راہنما اور وہ تمام شخصیات جن سے ہم روزمرہ زندگی میں سیکھتے ہیں یا ان کی باتوں سے اثر لیتے ہیں اور جنھیں ہم سچائی کا سر چشمہ یا اپنا آئیڈیل تصور کرتے ہیں انکی رائے بھی غلط اور گمراہ کن ہو سکتی یے۔ حقیقی معلومات تک رسائی آسان نہیں رہی کیونکہ آج کا ڈیجیٹل دور معلومات کے سیلاب کا دور ہے، جہاں ایک طرف علم اور آگہی تک رسائی بے پناہ بڑھ گئی ہے، وہیں دوسری طرف غلط معلومات اور گمراہ کن پروپیگنڈہ معاشرتی ہم آہنگی اور جمہوری اقدار کے لیے سنگین خطرات بن کر سامنے آئے ہیں۔ اس پس منظر میں میڈیا اور انفارمیشن لٹریسی ایک ایسی بنیادی ضرورت بن گئی ہے جو افراد کو تنقیدی سوچ، معلومات کی جانچ پڑتال اور ذمہ دارانہ ڈیجیٹل مصروفیت کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس حوالے سے ایک مکالمے میں شرکت کی دعوت بھی دی۔
11 جولائی 2025 کو اسلام آباد میں ادارہ فروغِ قومی زبان کے زیر اہتمام منعقد ہونے والا قومی مکالمہ اسی ضرورت کو پورا کرنے کی ایک اہم کوشش تھی۔ اس مکالمے کا مقصد پاکستان میں ایک جامع پالیسی فریم ورک کی تشکیل کے لیے تمام متعلقہ فریقین کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا تھا۔ اس قومی مکالمہ کی نشت میں میڈیا لٹریسی کے اہم پہلوؤں، اس کی اہمیت اور اس کے مستقبل کے اثرات پر فاضل مقررین کی جانب سے بھر پور روشنی ڈالی گئی۔ یہ قومی مکالمہ یونیسکو کے تعاون سے منعقد کیا گیا، جس میں میڈیا ہاؤسز، تعلیمی اداروں، سول سوسائٹی اور حکومتی نمائندوں نے بھرپور شرکت کی۔ اس پروگرام کے شراکت داروں میں میڈیا ہاؤس 360، زیبسٹ یونیورسٹی اسلام آباد، اور پنجاب یونیورسٹی کا شعبہ ڈیجیٹل میڈیا شامل تھے۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں ڈیجیٹل میڈیا تیزی سے پھیل رہا ہے، میڈیا لٹریسی کی ضرورت ناگزیر ہو چکی ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بے لگام معلومات کا پھیلاؤ، جھوٹی خبروں کی اشاعت، اور گمراہ کن بیانیوں نے معاشرتی تقسیم کو بڑھاوا دیا ہے۔ اس مکالمے کا مقصد نہ صرف ان چیلنجز کی نشاندہی کرنا تھا بلکہ ان سے نمٹنے کے لیے ایک مضبوط پالیسی فریم ورک کی تیاری کے لیے عملی سفارشات مرتب کرنا بھی تھا۔ حکومتی سطح پر اس فریم ورک کی شمولیت سے اس کی افادیت اور پائیداری کو مزید یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
قومی مکالمے کا افتتاح وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال نے کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں غلط معلومات کے بڑھتے ہوئے خطرات کو اجاگر کیا اور کہا کہ یہ معاشرتی ہم آہنگی اور قومی ترقی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ انہوں نے اس مکالمے سے نکلنے والی سفارشات کو حکومتی پالیسی کا حصہ بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ یونیسکو کے نیشنل پروگرام آفیسر حمزہ سواتی نے شرکاء کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا لٹریسی تنقیدی سوچ اور ڈیجیٹل ذمہ داری کو فروغ دینے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ انہوں نے یونیسکو کے عزم کو دہرایا کہ یہ ادارہ پاکستان میں ایک جامع میڈیا لٹریسی پالیسی کے نفاذ کے لیے ہر ممکن تعاون فراہم کرے گا۔
پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ڈیجیٹل میڈیا کی چیئرپرسن ڈاکٹر سویرا مجیب شامی نے صوبائی اور ضلعی سطح پر کی گئی مشاورتوں سے حاصل ہونے والی سفارشات پیش کیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ سفارشات میڈیا لٹریسی فریم ورک کو پاکستان کے متنوع سماجی اور ثقافتی تناظر میں ڈھالنے کے لیے اہم ہیں۔ زیبسٹ یونیورسٹی اسلام آباد کیمپس کے سربراہ خسرو پرویز خان نے تعلیمی اداروں کے کردار پر زور دیا اور کہا کہ جامعات طلبہ کو تنقیدی سوچ اور میڈیا خواندگی سے آراستہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اسی طرح، سینئر صحافیوں جیسے عاصمہ شیرازی، حامد میر، اور فیصل زاہد ملک نے میڈیا کے پیشہ سے وابستہ افراد کی ذمہ داری پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ صحافیوں کو سچ کی ترویج کے لیے قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں باخبر شہریوں کی تشکیل ممکن ہو سکے۔
غلط معلومات اور گمراہ کن پروپیگنڈہ آج کے معاشرے کے لیے ایک عالمگیر چیلنج ہیں جہاں آرٹیفیشل انٹیلیجنس نے اس میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں ڈیجیٹل خواندگی کی شرح ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، یہ چیلنجز مزید سنگین ہیں۔ جھوٹی خبروں اور گمراہ کن بیانیوں نے معاشرتی تقسیم کو بڑھاوا دیا ہے اور بعض اوقات یہ جھوٹے بیانئے تشدد اور عدم استحکام کا باعث بھی بنے ہیں۔ میڈیا لٹریسی کا بنیادی مقصد افراد کو ایسی صلاحیتیں عطا کرنا ہے کہ وہ معلومات کی صداقت کی جانچ کر سکیں اور گمراہ کن مواد سے بچ سکیں۔ اس کے علاوہ، میڈیا لٹریسی جمہوری اقدار کو مضبوط بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایک باخبر شہری نہ صرف اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ ہوتا ہے بلکہ وہ معاشرتی ترقی میں بھی مثبت کردار ادا کرتا ہے۔ تعلیمی نظام میں میڈیا لٹریسی کو شامل کر کے طلبہ کو تنقیدی سوچ کی تربیت دی جا سکتی ہے، جو انہیں ذمہ دار ڈیجیٹل شہری بنانے میں مددگار ثابت ہو گی۔
پاکستان میں میڈیا لٹریسی کے نفاذ کے راستے میں کئی چیلنجز موجود ہیں، جن میں ڈیجیٹل خواندگی کی کم شرح، ڈیجیٹل کمیونیکیشن گیپ، تعلیمی نظام میں وسائل کی کمی، اور معاشرتی رویوں میں تبدیلی کی ضرورت شامل ہیں۔ بزرگ نسل، جو بعض اوقات غلط معلومات کے پھیلاؤ میں غیر ارادی طور پر حصہ ڈالتی ہے، کو بھی میڈیا لٹریسی کی تعلیم و تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ، صوبائی اور ضلعی سطح پر مشاورتوں سے حاصل ہونے والی سفارشات کو عملی شکل دینا گو ایک پیچیدہ عمل ہے لیکن یہ ضروری بھی ہے۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ صحافیوں اور میڈیا پیشہ ور افراد کو میڈیا لٹریسی کی ترویج کے لیے قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ، پرائمری تعلیمی نظام میں اصلاحات کے ذریعے طلبہ کو ابتدائی عمر سے ہی تنقیدی سوچ سکھائی جا سکتی ہے۔ حکومتی اداروں، تعلیمی اداروں، اور سول سوسائٹی کے درمیان تعاون سے ایک جامع میڈیا لٹریسی پالیسی کی تشکیل ممکن ہے۔
11 جولائی 2025 کو منعقد ہونے والا یہ قومی مکالمہ پاکستان کے ڈیجیٹل مستقبل کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے۔ اس مکالمے نے نہ صرف میڈیا اینڈ انفارمیشن لٹریسی کی اہمیت کو اجاگر کیا بلکہ اس کے نفاذ کے لیے عملی سفارشات بھی مرتب کیں۔ یہ فریم ورک نہ صرف غلط معلومات اور گمراہ کن پروپیگنڈے کے خلاف ایک مؤثر ہتھیار ثابت ہوگا بلکہ یہ معاشرتی ہم آہنگی اور جمہوری اقدار کو بھی مضبوط بنائے گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام متعلقہ فریقین، بشمول حکومت، میڈیا، تعلیمی ادارے، اور سول سوسائٹی، مل کر کام کریں۔ یہ قومی مکالمہ ایک امید افزا آغاز ہے، اور اس سے حاصل ہونے والی سفارشات ایک ایسی جامع پالیسی کی تشکیل کی طرف ایک اہم قدم ہیں جو پاکستان کو ڈیجیٹل خواندگی اور باخبر شہریوں کے ایک مضبوط معاشرے کی طرف لے جائے گی۔ اس پروگرام میں شرکت کی دعوت دینے کیلئے میں ڈاکٹر واجد ذوالقرنین کا تہہ دل سے مشکور ہوں۔



تبصرہ لکھیے