"سیف کیا ہو گیا ہے؟ کئی دنوں سے تمہارے بدلے ہوئے رویے کو دیکھ رہی ہوں."
عدن نے اپنے شوہر سے کہا-
سیف:"جب سے امی بھائی جان کے گھر گئیں ہیں روح بے چین سی ہو گئی ہے- پھر وہی بات،ہم نے انہیں گھر سے نکالا نہیں ہے، وہ اپنی خوشی سے گئیں ہیں"- عدن بولی-
" کیا وہ آنسوؤں سے بھیگا چہرہ خوش تھا....؟"
سیف نے سوچا- اسے اپنے گھر میں اب ہر رنگ پھیکا نظر آتا مگر وہ بے بس تھا- دن بدن بڑھتے جھگڑے نے اس کی ماں کو گھر سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا- مگر وہ انہیں کیوں نہ روک پایا؟ وہی تو اس کی کل کائنات تھیں... یہی سوال اس کی راتوں کی بے قراری کا سبب بنتا- لہذا اس نے جدائی کو ختم کر کے پشاور سے کراچی جا کر اپنی ماں کو واپس لانے کا فیصلہ کیا- سیف نے ٹرین کا ٹکٹ لیا- وہ مقررہ دن کی صبح اسٹیشن کے لیے روانہ ہو گیا-
وہ سوچوں میں گم تھا کہ اس کے فون بجا- احمد نے فون اٹھایا- سامنے والے شخص کے اس ایک جملے نے اسے ساکت کر دیا- اسے لگا جیسے وہ زمین میں دھنسنا شروع ہو گیا ہے- جیسے سامنے والے شخص نے اس کی سانسیں چھین لی ہو - کیا زندگی اتنی بے یقینی ہوتی ہے؟ اتنے عرصے بعد وہ تھوڑا سا سکون پا سکا تھا مگر شاید وہ اپنے فیصلے میں دیر کرنے کی وجہ سے اپنی ماں کو کھو چکا تھا- کچھ غلطیاں ساری زندگی کا روگ بن جاتیں ہیں- وہ چٹان جیسا مرد کسی موم بتی کی طرح پگھلنے لگا- وہ ٹرین میں بیٹھے بیٹھے ہی زار و قطار رونے لگا- جانے کتنے گھنٹے بیت گئے.. وہ ہر چیز سے بے خبر تھا، کون اسے دیکھ رہا ہے اور کون نہیں- ان کچھ گھنٹوں میں ہزاروں مرتبہ اس کا موبائل بچ چکا تھا مگر وہ گم سم موبائل سکرین پر ماں کے لفظ کو دیکھنے کے لیے تڑپ رہا تھا- وہ کیوں پشاور جا رہا تھا؟ کیا ہمت تھی سفید کفن میں لپٹی اپنی ماں سے ملنے کی؟ اس نے خواہش کی کہ وقت لوٹ آئے یا پھر اس کی سانسیں بھی رک جائیں،مگر وقت کس کے لیے رکتا ہے.۔
سیف کو اپنا وجود اس قدر بکھرتا محسوس ہوا کہ جس کو سمیٹنا اب کسی انسان کے بس کی بات نہیں تھی- ٹرین پشاور میں داخل ہو کر مقررہ اسٹیشن پر رک گئی- وہ نڈھال بوجھل قدموں کے ساتھ اپنے بھائی کے گھر داخل ہوا- وہ اپنے بھائی سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا-
"دیکھیں ماں کی آج کھلی انکھیں اب بھی اپ کی راہ دیکھ رہی ہیں" اپنی بہن مریم کی بھیگی آواز اس کے دل میں خنجر کی طرح گھپ گئی- مگر اب پچھتانے کے علاوہ کچھ باقی نہیں تھا-
اس نے اپنے ہاتھوں سے سب کچھ ختم کر دیا تھا-
تبصرہ لکھیے