جرمنی کےشہر ہائیڈل برگ میں اقبال کا آشیانہ…. جس کو پاکستان اور بھارت نے نظرانداز کر دیا ہے. آپ جرمنی کے سب سے خوبصورت، پُرسکون اور علمی شہروں میں سے ایک، ہائیڈل برگ کے پُرپیچ راستوں پر کبھی نکلیں، تو دریائے نیکر کے کنارے، سرسبز پہاڑیوں کے دامن میں، ایک چھوٹا سا سفید مکان خاموشی سے کھڑا ہے۔ اس کے دروازے پر لگی ایک سادہ سی تختی چیخ چیخ کر اعلان کرتی ہے:
“محمد اقبال (1877–1938) — پاکستان کے قومی شاعر، 1907 میں یہاں مقیم رہے۔”
اقبال ہاؤس، جیسا کہ یہ مکان اب پاکستانیوں میں جانا جاتا ہے، گوگل میپ پر بھی موجود ہے۔ مگر جب آپ وہاں پہنچتے ہیں، تو نہ کوئی عجائب گھر، نہ کوئی رہنمائی، نہ ہی اس بات کا کوئی عملی اظہار کہ اس در و دیوار نے کبھی جنوبی ایشیا کے ایک بڑے مفکر اور شاعر کے خواب سنے تھے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں متحدہ پنجاب کے سپوت اور فخر نوجوان اقبال نے ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں داخلہ لینے سے قبل جرمن زبان سیکھی، فلسفے اور ادب کی گتھیاں سلجھائیں، اور یورپ کی فضا میں بیٹھ کر اُس تصورِ ملت کی بنیاد رکھی، جو بعد ازاں برصغیر کی سیاست کا رُخ موڑنے والا تھا۔یہ مکان دراصل ایک نجی رہائش ہے۔ جس تختی کا ذکر ہوا، وہ بھی جرمن حکومت یا پاکستانی ریاست کی نہیں، بلکہ 1966 میں جرمنی میں مقیم چند پاکستانیوں کی کاوشوں کا ثمر ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ اقبال کے نام کو اس شہر میں محفوظ کیا جائے جہاں انہوں نے اپنی فکری پرواز کی بنیاد رکھی۔
اقبال کی یہ جرمن موجودگی محض یادگار ہی نہیں بلکہ ایک موقع ہے ، ایک ایسا موقع جسے بروئے کار لاکر ہم جنوبی ایشیاء اور یورپ کے درمیان ایک نیا فکری پل بنا سکتے ہیں۔ مگر افسوس کہ یہ موقع دونوں ممالک ، بھارت اور پاکستان کی عدم دلچسپی کا شکار ہے۔
بھارت کا قدم، پاکستان کی خاموشی
یہاں موازنہ خود بخود زبان پر آ جاتا ہے۔ لندن کے کنگ ہنری روڈ پر واقع وہ مکان جہاں ڈاکٹر بی آر امبیڈکر یونیورسٹی کے دنوں میں قیام پذیر رہے، 2015 میں بھارتی حکومت نے 3.65 ملین ڈالرز میں خریدا اور اسے ایک شاندار میوزیم میں تبدیل کیا۔ آج یہ جگہ نہ صرف امبیڈکر کے پیروکاروں کے لیے زیارت گاہ ہے بلکہ بھارت کی بین الاقوامی فکری شناخت کا بھی استعارہ بن چکی ہے۔
اقبال کے لیے ایسا کوئی اقدام نہ بھارت نے اٹھایا، نہ پاکستان نے۔ حالانکہ اقبال کا کلام دونوں ملکوں کے تعلیمی نصاب میں شامل ہے، ان کی شاعری دونوں جانب کے نوجوانوں کے ذہنوں کو جِلا دیتی ہے، مگر ان کی زندگی سے جڑی یہ جگہ یوں گمنام بیٹھی ہے جیسے کسی پرائے کی میراث ہو۔ پاکستان کی طرف سے اقبال کو قومی شاعر بنانے کے باوجود بھارت میں فوجی دھنیں یا اسکول کی شروعات ہی تو سارے جہاں سےاچھا، ہندوستان ہمارا کے ترانہ سے ہوتی ہے۔
پروفیسر فتح محمد ملک، جو 1984 سے 1988 تک ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں اردو زبان کے استاد رہے، یاد کرتے ہیں کہ پاکستانی کمیونٹی چاہتی تھی کہ یہاں اقبال کا مجسمہ نصب کیا جائے۔ “ہم نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا،” وہ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں بتاتے ہیں، “مگر جواب آیا کہ مجسمے کی بجائے تختی پر اکتفا کیا جائے۔ شاید وہ اقبال کو بطور نظریاتی ماڈل سامنے لانے سے کتراتے تھے۔”یہی وہ بنیادی مسئلہ ہے ، اقبال کے فلسفے کو پاکستان میں ریاستی سطح پر تسلیم تو کیا گیا، مگر عملی طور پر اسے اپنایا نہیں گیا۔ “سرمایہ دار، جاگیردار، اور بعض مذہبی حلقے، اقبال کے خیالات سے متفق نہیں۔ وہ ان کے خوابوں سے خوف زدہ ہیں،” پروفیسر ملک کا کہنا ہے۔
1977 میں اقبال کے صد سالہ جشن پر ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں ’اقبال پروفیشنل فیلوشپ‘ کے نام سے ایک اہم تعلیمی منصوبہ شروع کیا گیا تھا، جس کا مقصد پاکستان اور جرمنی کے درمیان علمی تبادلوں کو فروغ دینا تھا۔ مگر 2014 کے بعد یہ منصوبہ بند کر دیا گیا، اور آج اس کا نام بھی نصاب سے غائب ہو چکا ہے۔یونیورسٹی میں اردو کے موجودہ پروفیسر، آرین ہوپ کے مطابق، “پاکستانی حکومت کی غیر سنجیدگی، اور بدلتی حکومتوں کے باعث اس منصوبے کو دوبارہ فعال کرنے کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔”
جرمنی میں مقیم کئی پاکستانی چاہتے ہیں کہ اقبال کے اس آشیانے کو عجائب گھر میں بدلا جائے — ایسا مقام جہاں طلبہ، سیاح، اور فکری جستجو رکھنے والے لوگ آکر اقبال کی زندگی اور فلسفے کو محسوس کر سکیں۔ مگر یہ خواب بھی کاغذوں میں دفن ہو چکا ہے۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ ہو یا وزارتِ تعلیم، اقبال کی یورپی وراثت کو سنبھالنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کہیں نظر نہیں آتی۔
بھارت کی غیر موجودگی
بھارت کی طرف سے بھی اس مقام کو نظرانداز کرنا حیران کن نہیں۔ نئی دہلی کے معروف اسلامی اسکالر پروفیسر اختر الواسع کا کہنا ہے:
“جب پاکستان نے اقبال کو قومی آئیکن کے طور پر اپنایا، تو بھارت نے غیر محسوس طریقے سے خود کو اس فکری ورثے سے الگ کر لیا۔ اگر اقبال کو صرف شاعرِ مشرق مانا جاتا تو وہ آج بھی دونوں ملکوں کے مشترکہ سرمایہ ہوتے۔ ۔ ویسے تو پاکستان کی طرف سے بھی ا نکو قومی شاعر بنانے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ ان کا انتقال تو قرارد پاکستان کے پاس ہونے سے دو سال قبل اور پاکستان بننے سے بارہ برس قبل ہوا تھا۔ اقبال پوری دنیا کے شاعر اور مفکر تھے۔ ان کو ایک ملک کے کوزہ میں بند کرنا کسی بھی طرح ان کی پذیرائی نہیں تھی۔ ”
ایک شام، دریا نیکر کے کنارے
ہائیڈل برگ میں گزرے دنوں کی یاد آج بھی دریائے نیکر کے کنارے کندہ ہے۔ وہ نظم — “ایک شام، دریا نیکر کے کنارے” — جو اقبال نے یہاں لکھی، اب اس کے ترجمے کے ساتھ ایک پتھر کی تختی پر درج ہے۔ یہ تختی، شاید وہ واحد علامت ہے جو اس شہر کے ساتھ اقبال کے تعلق کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ اقبال کے تصورِ خودی ، کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرانے کا ایک سنہری موقع ہائیڈل برگ کی اس خاموش عمارت میں بند پڑا ہے۔ نہ بھارت نے اسے سنبھالا، نہ پاکستان نے اسے پروان چڑھایا۔اور یوں، اقبال کا آشیانہ، دریائے نیکر کے کنارے، ایک بے صدا گواہ ہے اُس ورثے کا، جسے نظرانداز کر دینا دونوں ملکوں کی فکری ناکامی ہے۔



تبصرہ لکھیے