ہوم << احساسِ ناموجودگی - نعیم اللہ باجوہ

احساسِ ناموجودگی - نعیم اللہ باجوہ

زندگی میں کچھ چہرے ہمیشہ ہمارے آس پاس ہوتے ہیں — ایک ہی کمرے میں، ایک ہی خاندان میں، ایک ہی روزمرہ کے ماحول میں۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ انہی میں سے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ہر لمحہ ہمارے ساتھ ہوتے ہوئے بھی... گویا ہوتے ہی نہیں۔ وہ موجود بھی ہوتے ہیں، اور غیر موجود بھی۔ ان کی موجودگی میں بھی ایک خلا سا محسوس ہوتا ہے — جیسے کسی منظر میں ایک رنگ کم ہو، یا کسی نغمے میں ایک ساز خاموش ہو۔

یہی ہے احساسِ ناموجودگی — ایک ایسی کیفیت جہاں جسم پاس ہو، آواز سنائی دے، لیکن وجود کی روشنی کہیں کھو جائے۔ یہ وہ دکھ ہے جس کا ماتم ممکن نہیں، کیونکہ مرنے والا مرا نہیں ہوتا — بس کہیں کھو گیا ہوتا ہے، کسی اور خیال، کسی اور دنیا، کسی اور خاموشی میں۔ وہ ہر تصویر میں دکھائی دیتا ہے، مگر یاد میں نہیں اترتا۔ اس کے جملے ہوتے ہیں، مگر بات پوری نہیں ہوتی۔ اس کا لمس ہوتا ہے، مگر قربت کا احساس گم ہو چکا ہوتا ہے۔

ایسا رشتہ ایک خلا میں تبدیل ہو جاتا ہے، جسے جتنا بھرنا چاہو، اتنا ہی خالی محسوس ہوتا ہے۔ کبھی یہ خلا اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب محبت کا رنگ ماند پڑ جائے، جب بات چیت محض ایک رسم رہ جائے، جب نظریں تو ملیں مگر نگاہ نہ ٹھہرے۔ اور کبھی یہ اس وقت جنم لیتا ہے جب کوئی شخص خود میں اتنا ڈوب جائے کہ دوسروں کے لیے سطح پر آنے کی سکت ہی نہ بچے۔ اور یہی لمحہ سب سے تکلیف دہ ہوتا ہے — کیونکہ یہاں جدائی ظاہری نہیں، باطنی ہوتی ہے۔ چلا جانے والا گیا نہیں ہوتا، اور رکنے والا رک نہیں پاتا۔

ایسا لمحہ اکثر میرے اندر جاگتا ہے، جب میں کسی اپنے کے سامنے بیٹھا ہوتا ہوں — وہی ہستی جو کبھی میری دعاؤں کی قبولیت تھی، میرے لمحوں کا سکون اور راتوں کا خواب تھی۔ وہ اب بھی میرے سامنے موجود ہوتی ہے، بات کرتی ہے، ہنستی ہے، مگر شاید میرے لیے نہیں۔ اس کی آنکھوں میں دیکھوں تو وہاں خاموشی کی ایک گہرائی ہے — ایسی گہرائی جس میں میرا عکس دکھائی نہیں دیتا۔ میں سوچتا ہوں، کیا یہ خلا صرف اُس کی جانب سے ہے؟ یا میں بھی اُس کے لیے ایک اجنبی سا سایہ بن چکا ہوں؟

محبت شاید ختم نہیں ہوتی، بس چپ ہو جاتی ہے۔ ایک ایسی چپ جو دل کے اندر شور بن کر اُترتی ہے — ایک زندہ ماتم، جو باہر سے خاموش اور اندر سے چیخوں سے بھرا ہوتا ہے۔ یہ احساس، جسمانی جدائی سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ کیونکہ یہاں کوئی دور نہیں جاتا، بس قریب ہو کر بھی دور ہو جاتا ہے۔ اور یہی دوری سب سے زیادہ گہری ہوتی ہے۔

مگر شاید ہر سایہ ہمیشہ سایہ نہیں رہتا۔ کبھی کبھی ایک نرم سا لمس، ایک بے ساختہ مسکراہٹ، یا محض ایک سادہ سا سوال — "کیا تم ٹھیک ہو؟" — کسی گمشدہ وجود کو واپس لا سکتا ہے۔ شاید ہمیں بس اتنا کرنا ہے کہ ایک لمحے کے لیے رک جائیں، سنیں، بغیر شکایت کے، بغیر شکایت سنائے۔ شاید ہمیں اپنے رشتوں کو دوبارہ دیکھنے کی ضرورت ہے — ان خالی جگہوں کو نہ صرف محسوس کرنے کی، بلکہ آہستہ آہستہ بھرنے کی کوشش کرنے کی۔

رشتے ختم نہیں ہوتے، وہ صرف تھک جاتے ہیں۔ وہ تھوڑی سی توجہ، ایک نئی سوچ، اور ایک تازہ جذبے کے محتاج ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے، جسے ہم ناموجود سمجھ بیٹھے ہیں، وہ کسی کونے میں اسی امید سے بیٹھا ہو کہ ہم اُسے پھر سے موجود مان لیں — اسے وہ جگہ واپس دے دیں جو کبھی ہماری دنیا میں اس کی تھی۔
تب یہ احساسِ ناموجودگی، انجام نہیں بلکہ ایک مرحلہ ثابت ہوگا — ایسا مرحلہ جہاں سے قربت دوبارہ جنم لے سکتی ہے۔ جہاں ہم ایک دوسرے کو نئے سرے سے سن، سمجھ، اور محسوس کر سکتے ہیں۔ اور جہاں وہ سایہ جو برسوں سے ہمارے ساتھ چل رہا تھا، پہلی بار روشنی بن کر ہمارے اندر اتر سکتا ہے۔