1971ء کی اس صبح خیرپور کے شاہی بازار میں بڑا ہجوم جمع تھا۔ سب لوگ بم کے اس ٹکڑے کو دیکھنا چاہتے تھے جو گزشتہ رات بھارتی جہاز شہر سے باہر ویرانے میں گرا کر بھاگ گئے تھے۔
وہ پاکستانی تاریخ کے تکلیف دہ ایّام تھے۔ سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ قریب ہی تھا۔ ہم بچے تو ابھی اپنے بچپن میں ہی مگن تھے، ہمیں اس سانحے کا نہ تو کوئی ادراک تھا اور نہ کوئی پریشانی۔ لیکن جنگ کی ہولناکیاں بہرحال جاری تھیں۔ شہر میں روز رات کو اچانک خوفناک گھوگھو (سائرن) بج اٹھتے۔ یہ شہر پر ہوائی حملے سے خبردار کرنے کیلئے بجائے جاتے تھے تاکہ لوگ گھروں سے نکل کر خندقوں میں پناہ لے لیں۔ خیرپور شہر چونکہ بھارتی سرحد کے قریب تھا اس لئے یہاں حملوں کا خطرہ بھی زیادہ تھا۔ روز رات کو بلیک آؤٹ ہوتا تھا تاکہ تاریکی میں حملہ آور بھارتی جہازوں کو شہر نظر ہی نہ آسکے۔ رات میں گاڑیوں کی نقل و حرکت پر بھی پابندی تھی، جبکہ دن میں بھی گاڑیوں کو کیمو فلاج کرنے کا آرڈر تھا۔
کیمو فلاج کرنے کیلئے ہر گاڑی کو خاکی رنگ کرنے کا حکم تھا۔ اس مقصد کیلئے ”میٹ“ استعمال کیا جاتا تھا۔ میٹ یعنی کچی ملتانی مٹی کے ڈلے پانی میں بھگو کر گاڑھا گاڑھا گارا تیار کیا جاتا اور پھر برش سے اس گارے کو گاڑی کی باڈی اور شیشوں پر خوب اچھی طرح مل دیا جاتا تھا۔ یوں گاڑی کی شکل و صورت کا تو بے شک ستیاناس ہو جاتا، لیکن مٹی کے رنگ میں رنگ کر وہ بلندی سے دیکھنے والے دشمن کی آنکھ سے اوجھل ہو سکتی تھی۔ کھڑکیوں دروازوں کو بھی اچھی طرح بند رکھا جاتا تھا اور رات کے وقت روشنی باہر نکلنے کے تمام راستے کپڑے اور گتے ٹھونس ٹھونس کر بند کر دیئے جاتے تھے۔
میٹ بھی خوب چیز تھا۔ امّاں کبھی کبھی ہمیں نلکے کے نیچے بٹھا کر صابن کی بجائے اسی میٹ سے نہلا دیتی تھیں۔ ویسے بھی اس زمانے میں کوئی نخرے نہیں تھے۔ چند چیزوں پر ہی پوری زندگی گزار دی جاتی تھی۔ نہ خوشبودار صابن، نہ رنگ برنگے شیمپو، نہ باڈی لوشن اور نہ ہی باتھ جیل … بلکہ شاور کا بھی کوئی تصور نہیں۔ المونیم کی بالٹی میں بھرے پانی سے المونیم ہی کے ڈول بھر بھر کر نہانا اور لال رنگ کے لائف بوائے یا خانم کاربالک صابن کو جسم پر رگڑ رگڑ کر نہانا، پھر سوتی کپڑے کے رنگ برنگی لکیروں والے انگوچھے سے جسم سکھانے کے بعد جلد کو خشکی اور چٹخ سے بچانے کیلئے سرسوں کا تیل ملنا۔ کبھی کبھی امّاں سرسوں کی بجائے تارا میرا کا تیل مل دیتیں تو ہمارا جلن سے اچھلنا کودنا اور رونا دھونا قابلِ دید ہوتا تھا۔
اس وقت تک پاکستان میں ریڈیو اور ٹی وی دونوں آ تو چکے تھے، لیکن بہت کم لوگوں کے پاس ہوتے تھے۔ جنگ کے دنوں میں خبروں کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی تھی۔ خبر کا سب سے بڑا ذریعہ تو اخبار ہی تھے، البتہ فوری خبر کا ذریعہ ریڈیو ہی تھا۔ شہر کے تقریباً ہر بڑے ہوٹل پر ایک بڑا ریڈیو ضرور ہوتا تھا، جہاں خبروں کے وقت ہجوم جمع ہو جاتا۔ ہوٹل والا بھی اس وقت ریڈیو فل والیوم پر کر دیتا تھا۔ بس پھر اس کے بعد سب انتہائی انہماک اور خاموشی کے ساتھ خبریں سنا کرتے۔
ریڈیو کا کم لوگوں کے پاس ہونا حالاتِ حاضرہ سے نا واقفیت کا باعث بنتا تھا۔ عوام تک خبروں کا جلد پہنچنا چونکہ کبھی کبھی حکومتی ترجیحات میں شامل ہوتا ہے، اس لئے شہر کی اہم سڑکوں پر بجلی کے کھمبوں پہ لاؤڈ اسپیکر نصب کر کے ان کو ریڈیو نشریات سے منسلک کر دیا جاتا تھا۔ اس طرح نہ صرف خبریں بلند آہنگ سے گھر گھر پہنچ جاتیں، بلکہ خبروں کے بعد نورجہاں، امانت علی خان، مہدی حسن، نسیم بیگم اور مسعود رانا وغیرہ کے لازوال ترانے بھی ہوا کے دوش پر تیرتے ہوئے گھر گھر پہنچتے تھے۔ ان نغموں کی آواز ڈوبتی ابھرتی دور دور تک سنائی دیتی اور لوگوں کو وطن کی محبت سے سرشار کر دیتی :
اے وطن کے سجیلے جوانو
میرے نغمے تمہارے لئے ہیں
ساتھیو مجاہدو
جاگ اٹھا ہے سارا وطن
اے راہِ حق شہیدو وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مرد مجاہد تجھے کیا پیش کروں
یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران
اے قائدِ اعظم تیرا احسان ہے احسان
میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں
اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے
توں لبدی پھریں بازار کڑے
یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے
اے مردِ مجاہد جاگ ذرا
اب وقت شہادت ہے آیا
ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
اے وطن پیارے وطن پاک وطن پاک وطن
چاند میری زمیں پھول میرا وطن
اس زمانے میں جن گھروں میں ریڈیو ہوتا تھا، ان کی تو بات ہی کچھ اور تھی۔ گھر کی چیزوں میں سب سے زیادہ اہمیت ریڈیو ہی کی ہوتی تھی۔ اس وقت ریڈیو ہوتے بھی بڑے بڑے سائز کے تھے۔ گھر کی خواتین قیمتی اور رنگارنگ کپڑے سے اہتمام کے ساتھ ریڈیو کا غلاف تیار کرتیں اور وہ غلاف ریڈیو کو اتنے پیار سے پہنایا جاتا کہ جتنے پیار سے مائیں بچوں کو کپڑے بھی نہیں پہناتی ہوں گی۔ غلاف میں سے ریڈیو کے گول گول بٹن باہر نکلے ہوتے تھے اور سوئی گھمانے والے شیشے کے چینل سیلیکٹر پر سے کپڑا ہٹا ہوا ہوتا تھا۔
ہمارے گھر میں پہلا ریڈیو 1971ء میں آیا، جو صرف ایک بینڈ کا تھا۔ اس وقت اس پر صرف ایک ہی اسٹیشن کی نشریات سنائی دیتی تھی … ریڈیو پاکستان حیدرآباد … آر جی اے کمپنی کا یہ سنگل بینڈ ریڈیو اس وقت صرف 90 روپے کا ملا تھا، لیکن اسے پھر بھی خاصا مہنگا سمجھا گیا تھا۔ اب یہ ریڈیو تھا اور ہم بہن بھائی تھے۔ خبریں، گانے، ڈرامے، کچھ بھی نہیں چھوڑتے تھے۔ میں ابھی اسکول میں داخل نہیں ہوا تھا اس لئے ریڈیو سے سب سے زیادہ میں ہی چپکا رہتا تھا۔ میرے لئے اس چھوٹے سے پلاسٹک کے ڈبے کی جالی میں سے ابھرتی آوازیں ایک معمے اور جادو سے کم نہیں تھیں۔ میں اکثر اپنی آنکھیں بھینچ کر ریڈیو اسپیکر کی جالیوں کے اندر غور سے جھانکتا تاکہ اندر بیٹھا خبریں پڑھنے والا شخص یا گانا گانے والی عورت نظر آ جائے، لیکن اس میں کبھی کامیاب نہیں ہوا۔
اس ریڈیو میں چار سیل بھی لگتے تھے۔ ڈیڑھ ڈیڑھ وولٹ کے چار چندا بیٹری سیل، ڈیئر بیٹری سیل یا الہ دین بیٹری سیل … اس زمانے میں ہر دکان پر یہ سیل ضرور ملتے تھے۔
اس وقت ایک قسم کا ریڈیو ہم بچے خود بھی بنا لیا کرتے تھے۔ کسی بھی چیز کے استعمال شدہ ٹین کےدو ڈبے لے کر اور ان کے پیندے میں ایک باریک سوراخ کرکے دھاگہ یا پتلی ڈوری ڈال کر اندر سے گٹھان لگا دی جاتی تھی۔ دھاگے کے دوسرے سرے کو بھی بالکل اسی طرح دوسرے ڈبے میں پرو دیا جاتا تھا۔ اب دو بچے ایک ایک ڈبہ اٹھا کر ایک دوسرے سے اتنی دُور چلے جاتے کہ دھاگہ کھنچ کر تن جاتا۔ ایک بچہ ڈبے کو اپنے کان پر فٹ کر لیتا اور دوسرا اسے اپنے چہرے کے سامنے رکھ کر جو منہ میں آئے بولتا۔ حیرت انگیز طور پر اس بچے کی آواز بہت دُور کھڑے دوسرے بچے کو اپنے کان سے لگائے ڈبے میں سے اتنی واضح اور قریب سنائی دیتی جیسے بولنے والا بالکل اس کے برابر میں کھڑا ہو۔
بہت عرصے بعد جب اسکول میں ٹرانزسٹر اور الیکٹرونکس کے ساتھ کچھ شدھ بدھ ہوئی تو پرزے جوڑ کر جو چیز سب سے پہلے بنائی، وہ ایک
کی نشریات سنائی دینے لگتی تھیں۔
(میری کتاب ”بچپن سے پچپن تک“ میں سے انتخاب)
تبصرہ لکھیے