ایک بار پھر ایک بیٹی ظلم کا شکار ہوئی۔ مگر یہ نہ کوئی قبائلی علاقہ تھا، نہ ہی روایتی غیرت کا قتل۔ یہ واقعہ اسلام آباد میں پیش آیا، جہاں چترال کی باصلاحیت سوشل میڈیا انفلوئنسر ثنا یوسف کو ایک نوجوان عمر حیات عرف کاکا نے اس وقت بے دردی سے قتل کر دیا جب وہ مہمان بن کر اس کے گھر آیا۔
اس وقت گھر میں صرف ثنا کی پھوپھی موجود تھیں۔ پولیس کے مطابق عمر حیات نے ثنا پر زبردستی تعلق استوار کرنے کی کوشش کی، اور جب اس نے انکار کیا تو اسے گولی مار کر قتل کر دیا ۔مگر صرف یہ وجہ نہیں ہے،ابھی مذید حقائق سامنے آئیں گے ۔لیکن یہ صرف قتل نہیں، ہمارے بوسیدہ نظام کی موت ہے
یہ کوئی انفرادی واقعہ نہیں۔ اس سے پہلے بھی کئی بیٹیاں — آیت مریم، اقراء، مسکان — یا تو "غلط دوستی" کے شک میں ماری گئیں یا سماجی بے حسی کا نشانہ بنیں۔ سوال یہ ہے:
کیا یہ غیرت کے نام پر قتل ہیں؟ یا آزادی کے نام پر بے راہ روی، والدین کی لاپرواہی، اور بے قابو سوشل میڈیا کا زہر جو آخرکار خون میں ڈوب جاتا ہے؟
سوشل میڈیا: شہرت کی دوڑ،مگر اقدار و اخلاق کا زوال
آج کا نوجوان منشیات سے زیادہ ڈوپامین کے نشے میں مبتلا ہے جو موبائل اور ایپس سے ملتا ہے۔ ٹک ٹاک، انسٹاگرام اور فیس بک پر فوری توجہ حاصل کرنے کی خواہش نے فکری انتشار کو جنم دیا ہے۔
خاص طور پر لڑکیاں اس دوڑ میں آگے ہیں، جہاں پردہ شرمندگی بن گیا ہے اور حیاء کو پسماندگی سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے جو پردہ عورت کے تحفظ کے لیے دیا، وہ محض کپڑے کا نام نہیں بلکہ کردار کی مضبوطی ہے۔ یہ واقعہ ثبوت ہے کہ ہم نے اسلامی اصولوں کو ترک کر کے مغرب کے دوہرے معیار کو اپنایا، جس نے عورت کو "آزاد" تو کیا، مگر محفوظ نہ بنا سکا۔
اسلام عورت کو عزت، تحفظ، اور مقام دیتا ہے۔ اصل ناکامی ہماری ہے کہ ہم نے اس نظام پر عمل کرنا چھوڑ دیا۔ اگر لڑکی کے ساتھ زیادتی ہو تو صرف قاتل نہیں، بلکہ وہ سارا معاشرہ مجرم ہے جو دین سے دور ہو کر بے حس ہو گیا ہے۔
حل کیا ہے؟
والدین بیٹیوں سے زیادہ بیٹوں کی تربیت کریں۔
مجرموں کو فوری اور عبرتناک سزائیں دی جائیں۔
میڈیا پر بے حیائی اور اخلاق باختہ مواد کی ترویج بند کی جائے۔
اسلامی اقدار کو اسکول، گھر، اور سوشل میڈیا پر فروغ دیا جائے۔
لڑکیوں کو اعتماد، حیاء، اور خوداعتمادی سکھائی جائے — مگر بغیر حدود توڑے۔
آخری بات۔
ثنا یوسف کا قتل صرف ایک المیہ نہیں، ایک آئینہ ہے جس میں ہمیں اپنا بگڑا ہوا معاشرہ صاف نظر آتا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم لبرل ازم کے فریب سے نکل کر اپنی اصل اقدار، حیاء اور شریعت کی طرف لوٹ آئیں۔
ورنہ یہ زہر ہمارے معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کرتا چلا جائے گا — اور کل کو شاید کوئی ثنا، آیت یا مسکان محفوظ نہ رہے۔
تبصرہ لکھیے