ہوم << کیا سافٹ پیرنٹنگ مردانگی کے خلاف ہے ! عبدالعلام زیدی

کیا سافٹ پیرنٹنگ مردانگی کے خلاف ہے ! عبدالعلام زیدی

بعض لوگ "gentle parenting" یا "شفیق والدین" کے تصور پر تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں، خصوصاً ان حلقوں میں جو اولاد، خاص طور پر بیٹوں کی تربیت کو ایک سخت، مردانہ اور جذبات سے عاری میدانِ جنگ سمجھتے ہیں۔

ایک صاحب نے تو soft parenting کو child abuse کے قریب قرار دے کر اسے "جہالت" سے تعبیر کیا گیا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کتاب و سنت کی روشنی میں اس بیانیے کی کیا حقیقت ہے ؟!

ویسے دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ حضرات اس میدان میں اپنی سوچ کی کوئی شرعی دلیل پیش نہیں کرتے ، بلکہ شرعی دلائل کی بنیاد پر بات کرنے کو یہ اسلامک فیمین ازم جیسے جھوٹے ٹائٹل دیتے ہوئے ۔۔۔ ہندو تہذیب ۔۔۔ کی چھتری تلے کھڑے ہوتے ہیں ۔ بطور مسلمان ہمیں ہر ہدایت سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی لینی ہے ، بے شک آپ کی ہی ہدایت ۔۔۔ ہدایت ہے باقی سب گمراہی ہے ۔

---
نرمی کمزوری نہیں، حکمت ہے:

"نرمی" یا "شفقت" کو کمزوری سمجھنا، دراصل فہم و حکمت کی کمی کا ثبوت ہے۔ ۔۔۔ اولاد کی تربیت میں یہ بنیادی اصول ہے کہ بچے چاہے بیٹے ہوں یا بیٹیاں وہ خوف سے نہیں، اعتماد سے سیکھتے ہیں۔

سختی کے ذریعے تربیت بظاہر نتیجہ خیز دکھتی ہے، لیکن اس سے غلام پیدا ہوتے ہیں ، جو آنکھیں بند کر کے راستے پر چلتے ہیں ، نا کہ راستے بنانے والے لیڈر کہ جو ۔۔۔ دنیا کے امام بنتے ہیں ۔

اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’کسی بھی طرزِ عمل، رویے یا معاملے میں اگر نرمی آجائے تویہ نرمی اُس عمل کو نہایت خوبصورت اور مزین بنا دیتی ہے۔ اس کے برعکس اگر کسی عمل اور رویے سے نرمی نکل جائے اور اس کی جگہ سختی آجائے تو وہ اچھے سے اچھے عمل کو بھی بدصورت اور کم درجہ بنا دیتی ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث 254)

---
جذباتی صحت، اعلیٰ شخصیت کی بنیاد ہے:

ایموشنز کو اہمیت نہ دینا ۔۔۔ ظالم انسان پیدا کرتا ہے ، جسے کسی کے رونے ، تڑپنے سے فرق نہ پڑتا ہو ۔۔۔ یہ کم بخت مردانگی کا ڈنکا بجانب والے ۔۔۔ بہت سارے مرد ۔۔ خود بے حس اور ظالم ہوتے ہیں ۔۔۔ اور یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بیٹے بھی اسی قسم کا انسان بنیں ۔۔۔ تو اس کے لیے فلسفی اور علمی انداز میں یہ بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ جی ۔۔۔ بیٹوں کی تربیت میں ان کے جذبات کو کوئی اہمیت نہیں دینی چاہیے ۔۔۔

یہ حضرات جذبات کو کمزوری سمجھ کر انہیں نظر انداز کرتے ہیں، اور بچوں کو خاص طور پر لڑکوں کو سکھاتے ہیں کہ مرد روتے نہیں، نرمی نہیں دکھاتے، اور درد کو چھپاتے ہیں۔ اس سوچ کے نتیجے میں ایک جذباتی طور پر معذور معاشرہ پیدا ہوتا ہے۔ جذبات کو دباتے دباتے مرد ظالم، بے حس، اور سخت دل بن جاتے ہیں — اور پھر یہی بے حسی وہ اپنے بیٹوں کو "وراثت" میں منتقل کرتے ہیں۔

یہ سوچ واضح طور پر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متصادم ہے ۔ ذرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بچوں کے جذبات اور احساسات کے حوالے سے اسوہ ملاحظہ فرمائیں ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے دس سال حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے کبھی اُف تک نہیں کہا۔ کسی کام کرنے میں یہ نہیں فرمایا کہ کیوں کیا، اور نہ کرنے پر یہ نہیں فرمایا کہ کیوں نہیں کیا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

اس حدیث کے بارے میں یہ مرد ۔۔۔ مرد کی رٹ لگانے والے کیا کہیں گے ۔۔۔ ان کے مطابق تو غلطی پر بچے کی پٹائی لگانی چاہیے ، اسے بے عزت کرنا چاہیے ۔۔۔ تا کہ وہ مضبوط بنے ۔۔۔ ؟!

ذرا اس حدیث کو بھی دیکھیں !

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نماز شروع کرتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ اِسے لمبی کروں۔ پھر کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز کو مختصر کر دیتا ہوں، یہ جانتے ہوئے کہ اِس کے رونے کی وجہ سے اِس کی ماں کو تکلیف ہو گی (کیونکہ اس وقت خواتین بھی مسجد میں نماز ادا کرنے آتی تھیں)۔‘‘یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

عورتوں کا اتنا خیال رکھنے کی کیا ضرورت ہے ، یہ تو فیمن ازم سا نہیں لگتا ؟ ۔ بھائی عورتوں کو چھوئی موئی نہ بناؤ ۔۔۔ ان کا اتنا خیال رکھو گے تو یہ سر پر چڑھیں گیں ۔۔۔ ہاں جی ! اس حدیث کی روشنی میں سوچیں کیسی لگ رہی ہیں یہ باتیں!
۔۔۔۔

"لڑکوں کو سختی کی ضرورت ہے یہ ایک جہالت پر مبنی مفروضہ ہے ۔

یہ کون سی آیت یا حدیث میں آیا ہے کہ لڑکوں کو سختی کی ضرورت ہوتی ہے ؟ یہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کون سے پہلو میں بیان ہونے والی تعلیم ہے ، ذرا غور کیجیے ۔

حضرت جریر ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جو نرمی سے محروم رہا وہ خیر سے محروم ہو گیا‘‘ (صحیح مسلم:2592)

حضرت ابو درداءؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص کو اُس کی طبیعت اور مزاج میں نرمی کا جتنا حصہ عطا ہو جائے، اُس قدر اُسے خیر کا حصہ مل جاتا ہے اور جس شخص کی طبیعت اور مزاج سے جتنی نرمی کم ہوتی چلی جائے، اْس بندے کی زندگی اور شخصیت سے اُتنی ہی خیر کم ہوتی چلی جاتی ہے۔(جامع ترمذی، حدیث2013)

ان احادیث میں تو کہیں نہیں آیا کہ یہ حدیثیں عورتوں کے لئے ہیں ، مرد کو تو لوہا ہونا چاہیے ۔۔۔ تا کہ وہ ساری زندگی ۔۔۔ اپنے اوپر ہتھوڑے کی ضربیں کھانے کے قابل رہے ۔۔ آپ غور کریں کہ یہ سختی والی سوچ ۔۔۔ اصل میں ایسے انسان کے ذہن میں آتی ہے کہ جو اپنی اولاد کے بارے میں خدا سے اچھا گمان قائم کرنے کے قابل نہیں ہے کہ رب تعالیٰ اسے اگلی زندگی میں عافیت اور رحمتوں سے نوازے گا اور آزمائشوں پر صبر و استقامت عطا فرمائے گا ۔ ۔۔۔

بعض باپ تو ایسے سنگ دل ہوتے ہیں کہ وہ بڑے بیٹے کو ماں کی نگرانی ، اس پر تنقید ، طعن و ملامت ۔۔۔ کی بد اخلاقی کی تعلیم دیتے ہیں ۔ جو حرکتیں باپ ماں کے ساتھ خود کر رہا ہوتا ہے وہ اپنے بیٹے کو انہی گری ہوئی حرکتوں کے لیے تیار کرتا ہے ۔۔۔ اور اسے مردانگی کا نام دیا جاتا ہے ۔

یہ لوگ بیٹے کو بچپن سے کنٹرول کرنے کی ٹریننگ دیتے ہیں ، پہلے مرحلے میں بہن ۔۔۔ پھر ماں اور شادی کے بعد بیوی ۔۔۔ گویا ان کی نگاہ میں گھر ایک چھوٹا سا فوجی کیمپ ہے جہاں "بیٹے" کو سب پر حکومت کرنے ٹریننگ دی جاتی ہے۔ اس جہالت کو یہ تربیت کا عنوان دیتے ہیں ۔

اس بیمار سوچ کی بنیاد ۔۔۔ پر معاشرے میں آپ کو بچوں پر ڈنڈوں کی بارش کرتے ، مرغا بنا کر تشدد کرتے استاد نظر آئیں گے ۔۔ حتی کہ قرآن کی تعلیم دیتے قاری دکھائی دیں گے ۔۔۔ اس بیمار سوچ کے کیا کیا اثرات ہیں ۔۔ یہ کہاں کہاں اپنا اثر دکھاتی ہے ۔۔۔ آپ قارئین سے گزارش ہے کہ آپ خود بتائیں!
۔۔۔۔۔

"لڑکوں کو لڑنے دو، وہ خود سیکھ جائیں گے" جیسے جملے اپنے پیچھے کوئی شرعی بنیادیں نہیں رکھتے ، یہ جاہلیت پر مبنی افکار ہیں جن کے نتیجے میں کئی بچے نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات ظلم کو روکنے کی ہے ، باپ کا کام بچے کو پروٹیکٹ کرنا ہے ، نہ کہ اسے ظالموں کے جھتے کے سامنے تنہا چھوڑنا کہ بیٹا تو خود کی خود نمٹ ۔۔۔ ابا نہ ہوا ۔۔۔ بے وفا انسان ہوا۔ باپ تو بچے کی حفاظت کرتا ہے ، بچہ ظالم ہو تو اسے روکتا ہے مظلوم ہو تو اس کی مدد کرتا ہے ۔

---

یہ نرم دلی soft parenting کے مخالف حضرات یعقوب علیہ السلام کے اپنے بیٹے کی خاطر رونے کو ۔۔۔۔ انہیں کھیلنے کے لیے باہر جانے سے ڈرنے اور روکنے کو ۔۔۔ اپنے بھائیوں سے بچ کر رہنے کی تلقین کو ۔۔۔۔ کیا نام دیں گے ؟!

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بچوں سے باتوں کو کیا عنوان دیں گے ، اے عمیر تمہاری چڑیا کیا کیا بنا ؟ ۔۔۔۔ یہ خادمِ رسول انس رضی اللہ عنہ کی غلطیوں پر سرزنش نہ کرنے کو کیا کہیں گے ؟ ، حسن و حسین علیہما السلام سے تعلق ، ان کے لیے تڑپنے ، گلے لگانے ، چومنے کے اسوہ حسنہ کو اپنی ۔۔۔۔ مردانگی ۔۔۔ کا ڈھول پیٹتی ہندو تہذیب میں کس طرح فٹ کریں گے ؟!

---

ہمارے معاشرے کو زہریلی مردانگی سے آزاد کرنے کی ضرورت ہے — وہ مردانگی جو بیٹے کو صرف "مضبوط" بنانا چاہتی ہے، مگر "انسان" نہیں بننے دیتی۔ ہمیں ایسے بیٹے چاہئیں جو مضبوط بھی ہوں، اور مہربان بھی؛ جو لیڈر بھی ہوں اور ہمدرد بھی۔

"Gentle parenting" کوئی فیشن یا جذباتی رجحان نہیں، بلکہ سائنسی، اخلاقی اور اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ ایک تربیتی عمل ہے۔

مردانگی وہی حق ہے ، جسے سیرت مردانگی کہے ، مرد وہی مرد ہے کہ جو اہل ایمان اور اپنے اہل خانہ کے لیے نرمی اور محبت میں گوندھا ہو ۔۔۔ !
---

آخر میں ہم اس حدیث سے بات کو ختم کرتے ہیں

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ’’اے اللہ، جو شخص میری امت کے کسی معاملے کا ولی بنا پھر اس نے ان پر سختی کی تو، تو بھی اس سے سختی برت اور جو میری امت کے کسی معاملے کا ولی (ذمہ دار یا صاحبِ امر) بنا ،پھر اس نے ان سے نرمی برتی تو، تو بھی اس سے نرمی برت‘‘ (صحیح مسلم،حدیث1828)۔

سختی کے فلسفے کو پریکٹس کرنے اور اس کی تعلیم دینے والے حضرات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بددعا سے ڈرنا چاہیے ۔۔ یا پھر خدا کی سخت پکڑ کا انتظار کرنا چاہیے ۔۔ ہم اللہ سے آسانی ، رحمت اور عافیت کا سوال کرتے ہیں ۔

Comments

Avatar photo

عبدالعلام زیدی

عبدالعلام زیدی اسلام آباد میں دینی ادارے the REVIVEL کو لیڈ کر رہے ہیں۔ اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے بی ایس کے بعد سعودی عرب سے دینی تعلیم حاصل کی۔ زکریا یونیورسٹی ملتان سے ایم اے اسلامیات اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولہور سے ایم اے عربی کیا۔ سرگودھا یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔ سید مودودی انسٹی ٹیوٹ لاہور میں تعلیم کے دوران جامعہ ازھر مصر سے آئے اساتذہ سے استفادہ کیا۔ دارالحدیث محمدیہ درس نظامی کی تکمیل کی۔ دینی تعلیمات اور انسانی نفسیات پر گہری نظر رکھتے ہیں

Click here to post a comment