دھرتی کی ہر خوشبو پہ جو قربان ہوا ہے،
وہ وردی میں ملبوس، ایک جان ہوا ہے۔
سایہ ہے جو سرحد پہ ہماری نیندوں کا،
وہ سپاہی ہے، جو فولاد کی پہچان ہوا ہے۔
بارود میں بھی جس نے بسائی ہے محبت،
وہ عشق کا پیکر، وہی ایمان ہوا ہے۔
پہرے میں جو شامیں بھی گزارے بے کھٹک،
وہ رات کا سورج، وہی اذان ہوا ہے۔
دشمن کی نظر جس پہ پڑے، کانپ اُٹھے دل،
وہ زخم بھی کھا کر، جو مسکران ہوا ہے۔
جو خون کے قطروں سے لکھے امن کا مطلب،
وہ نام سپاہی کا، روشن نشان ہوا ہے۔
محفوظ ہے ہم سب کا چمن جس کی وجہ سے،
"احمد" وہی مٹی کا گُلستان ہوا ہے۔
تبصرہ لکھیے