ہوم << جھگڑوں سے کیسے بچیں ! عبدالعلام زیدی

جھگڑوں سے کیسے بچیں ! عبدالعلام زیدی

بہت سارے لوگوں کو زندگی میں ان لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے کہ جو اپنی بات منوانے کے لیے ، یا اس سے بھی بڑھ کر اپنا آپ محسوس کروانے کے لیے ابنارمل جذباتی رویوں ، جھگڑوں، الزامات، شکایات کا راستہ اختیار کرتے ہیں ، مسلسل خود بھی بے چینی کا شکار رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی اسی اذیت میں مبتلا رکھتے ہیں ۔

عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ یہ شاید اس کی کسی غلطی کی وجہ سے ۔۔۔ اسے اپنے پارٹنر یا عزیز سے اس قسم کے رویے اور سلوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ، یا اسے لگتا ہے کہ واقعی اگلا بندہ بہت تکلیف اور پریشانی کا سامنا کر رہا ہے ۔۔ جبکہ حقیقت اس کے بالکل خلاف ہوتی ہے ، ایسے پریشان کن لہجوں ، آوازوں ، جھگڑوں کے نہ تو آپ قصور وار ہوتے ہیں اور نہ ہی جن بنیادوں پر اگلا بندہ یہ سب کر رہا ہوتا ہے ۔۔۔ اس کے کوئی پیر ہوتے ہیں ۔

ہاں اس کے پیچھے ایک گہری نفسیاتی وجہ ہوتی ہے جو اکثر ان کے بچپن سے تعلق رکھتی ہے۔ جب بچپن میں کچھ لوگ وہ توجہ، محبت یا قبولیت نہیں حاصل کر پاتے جو ان کا بنیادی حق تھا ، جسکی انہیں ضرورت تھی۔۔۔ تو تب جو کمی ، پیاس ، احساس کمتری ، درد پیدا ہوتا ہے ۔۔ وہ انکی اگلی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے ۔

بچپن ایک ایسا دور ہوتا ہے جب بچے اپنے جذبات کو الفاظ میں بیان کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ اگر اس وقت والدین یا قریبی رشتہ دار ان کی بات نہ سنیں، جذبات کو نظرانداز کریں، یا ہر وقت تنقید کریں، تو بچے کے دل میں ایک خالی پن پیدا ہوتا ہے۔ یہ خالی پن صرف محبت یا توجہ سے ہی پُر ہو سکتا ہے، مگر جب یہ نہ ملے، تو وہ بچہ بڑا ہو کر مختلف طریقوں سے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

ان طریقوں میں سے ایک ہے "پریشانی کا اظہار کرنا ہے " — یعنی دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے خود کو پریشان ظاہر کرنا، بار بار جذباتی مسائل کھڑے کرنا، یا ہر چھوٹی موٹی بات کو بڑا مسئلہ بنانا ہے ۔

جب کوئی شخص مسلسل شکایت کرتا ہے، الزام لگاتا ہے، یا بار بار مسئلے پیدا کرتا ہے، تو وہ لاشعوری طور پر دوسروں کی توجہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کی بات سنیں، اس کی حمایت کریں، یا اس کے جذبات کی تصدیق کریں۔یہ رویہ اکثر لاشعوری (unconscious) ہوتا ہے — وہ خود بھی نہیں جانتا کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے۔اندر کی محرومی ، دوسروں کے پیار، توجہ یا اپنائیت کی فقیری اور حاجت مندی پیدا کرتی ہے۔ جو جھگڑوں ، شکووں ، آنسوؤں ، چیخوں ، مار دھاڑ ، حسد ، مسکینیت ، مظلومیت ۔۔۔ جیسی نفسیاتی بیماریوں کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے ۔

ایسے انسان اور رشتے کے ساتھ کیسے ڈیل کریں ؟

قرآن مجید کی یہ آیت اس سوال کا جواب دیتی ہے ۔
وعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(63) اور رحمٰن کے وہ بندے جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں ’’بس سلام‘‘۔

ہم اس آیت کو مذہبی جھگڑوں کے لیے استعمال کرتے ہیں حالانکہ یہ ایک عام اصول ہے ، جو زندگی کے ہر پہلو پر لاگو ہوتا ہے ۔

اس آیت کریمہ سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے باوقار مومن بندے ۔۔۔ جھگڑوں کا کوئی کردار اور کریکٹر نہیں بنتے ۔۔ بلکہ اچھے انداز میں خود کو اس گیم سے باہر رکھتے ہیں ۔

یہ عمل اور سوچ تمام ٹاکسک لوگوں ، ڈسٹرب ایموشنز کی بنیاد پر قائم لڑائیوں کا بہترین حل ہے ۔ زیادہ تر لوگوں کے لیے اس پر عمل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ، وہ خود بھی ایسے نفسیاتی ڈرامے کا ایک کیریکٹر بن جاتے ہیں۔ یعنی اگر کوئی ان پر چیخے، الزام لگائے یا جذباتی بلیک میل کرے، تو وہ بھی فوراً جواب دینے لگتے ہیں — بحث، وضاحت یا غصہ۔
یہی وہ پوائنٹ ہے جو اس اذیت ناک عمل کو زندگی دیتا ہے۔ جھگڑا اسی وقت زندہ رہتا ہے جب آپ اس میں شامل ہوتے ہیں۔ آپ کی توجہ، ردعمل اور جذباتی شرکت — یہ سب اس کے لیے "ایندھن" کا کام کرتے ہیں۔

ہم جھگڑے کا حصہ کیوں بنتے ہیں ؟

یہ پوائنٹ سمجھنا بہت اہم ہے ۔۔۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہوتی ہے کہ ہم بھی انہی محرومیوں کا شکار ہوتے ہیں کہ جن کا وہ جھگڑا create کرنے والا ہوتا ہے ، جھگڑا ہماری بھی ضرورت ہوتا ہے ، مسائل میں جینا ، پریشانیوں کو اپنا نصیب سمجھنا ، اسے زندگی کی حقیقت سمجھتے ہوئے قبول کرنا ۔۔۔ یہ ہمارے ایمان کا حصہ بن جاتا ہے ۔

اگر تو کسی کا یہ مسئلہ ہے تو اسے اپنے believe system پر کام کرنے کی ضرورت ہے ، اللہ سے اچھا گمان ، اور اچھے نصیب کا یقین پیدا کرنے پر محنت کرنے کی ضرورت ہے ، اپنے ماضی پر مرہم رکھنے اور خود کو heal کرنے کی طرف لے جانا ہو گا ۔

بہت سارے لوگ ، خود بہتر ایمانی کیفیت میں ہوتے ہیں مگر ۔۔ جھگڑا کرنے والا کریکٹر ۔۔۔ ان کے کچھ ایسے بٹن دباتا ہے کہ جس سے وہ اس ڈرامے کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ اپنے ان بٹنوں کو جاننا ضروری ہے ، ٹریگرنگ پوائنٹس کا علم ہونا ضروری ہے ، غصہ اور ڈپریشن کس راستے اور دروازے سے انٹری مارتا ہے ۔۔ اس کا گہرا علم ہونا ضروری ہے ۔

عام طور پر ہم جھگڑے کا حصہ تب بنتے ہیں کہ جب ہم اپنی عزت نفس کو کھوتے ہیں ۔ عزت نفس جب تک قائم ہو ۔۔ انسان تب تک اپنے وقار کو قائم رکھتا ہے اور غصے سے دور رہتا ہے ۔۔۔ اس حوالے سے درج ذیل دروازوں کو شیطان کھولتا ہے ۔

1. یقین کی جگہ شک ۔۔۔ کا آنا ۔

جب تک آپ کو اپنے ہدایت اور حق پر ہونے کا یقین رہتا ہے تب تک کوئی نفسیاتی مریض ، جھگڑالو آپ کو لڑائی کا حصہ نہیں بنا سکتا ۔ اس لیے سب سے پہلا وار آپ کے یقین کو توڑنے پر کیا جاتا ہے ۔

آپ کو یقین دلایا جاتا ہے کہ آپ ایک نہایت گھٹیا ، برے ، بدعہدی ، بے پرواہ ، ظالم ، بسا اوقات جاہل انسان ہو ۔ آپ کے اپنے بارے میں مثبت یقین پر وار کیا جاتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں ڈپریشن اور غصہ ۔۔۔ آپ کو جھگڑے کا حصہ بنا دیتا ہے ۔

لہذا جب بھی آپ کے اپنے بارے میں اچھے گمان پر وار ہو تو سمجھ لیں کہ یہ آپ کو جھگڑے کا حصہ بنانے کا ایک زبردست ٹرک اور ٹول ہے ۔ لہذا خود کو اللہ کے ساتھ اچھے گمان پر قائم رکھیں ، اپنی مثبت چیزوں کو مدنظر رکھیں اور اللہ کے اپنی ذات پر کرم نوازیوں کو یاد کریں ۔۔۔ ایسے میں ہمیں ان لوگوں کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے کہ جو ہمیں ہماری خوبیاں یاد دلاتے ہوں ۔

آپ غور کریں دینی طور پر بھی وہی لوگ جھگڑوں میں تبھی پڑتے کہ جو یقین سے محروم ہوتے ہیں ۔ جنہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے سے چلے آتے اس دین پر یقین نہیں ہوتا کہ جو پندرہ سو سال سے محفوظ اور قائم ہے ۔۔۔ اس یقین کو کھونے کی وجہ بھی بچپن کے ٹراماز ہی ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگ ہر ایک کو سنتے ہیں ہے ، ہر آواز پر کان دھرتے ہیں ۔۔۔ ۔ جبکہ جسے یقین حاصل ہو ۔۔ وہ ایمان کے راستے پر گامزن رہتا ہے ۔ ہم اللہ سے ہدایت کا سوال کرتے ہیں ۔ اس کے لیے ہمیں مذہبی بحث و مباحثہ سے زیادہ ذہنی صحت پر کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ عام طور پر امت کے مین اسٹریم بیانیے ( اہل سنت والجماعت) سے الگ ہونے والے طبقے ۔۔۔ نفسیاتی امراض کا شکار ہوتے ہیں ۔

2 ۔ شرمندگی اور گلٹ

یہ وہ اہم ترین چیز ہے جو ہمیں یقین سے محروم کرتی ہے اور جھگڑے کا حصہ بناتی ہے ۔ اس لیے جھگڑالو انسان ۔۔۔ دوسرا بٹن یہی دباتا ہے ۔ وہ احساس دلاتا ہے کہ آپ نے اس کے ساتھ بہت برا کیا ، آپ برے انسان ہو ۔۔ بے حس ہو ۔۔ یوں وہ شرمندگی میں ڈال کر وقار سے محروم کرتا ہے ۔

اس لیے جیسے ہی آپ کو گلٹ میں ڈالا جائے سمجھ لیں کہ ۔۔ یہ آپ کو لڑائی کا حصہ بنانے کا ایک لاشعوری عمل ہے جو کیا جارہا ہے ۔ خود کو اس سے نکالیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھے گمان کو قائم رکھیں ۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ان جھگڑا کرنے والوں سے قطع تعلقی کرتے ہوئے ان سے دور ہو جائیں یا ان کی بات ہی نہ سنیں — بلکہ اس کا مطلب ہے کہ:
اپنے یقین اور وقار کو قائم رکھتے ہوئے
ان کے ساتھ خاموشی سے بیٹھیں،
انہیں مریض سمجھتے ہوئے کوئی جذباتی ردعمل دیے بغیر سنیں،
ان کی شکایتوں یا الزامات کا دفاع نہ کریں، بلکہ ان الزامات کو ان کی بیماری کی علامت سمجھیں ،
انہیں یہ موقع دیں کہ وہ خود سوچیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔
جب آپ ایسا کرتے ہیں، تو آپ انہیں وہ جگہ (space) دیتے ہیں جس میں وہ اپنی بیماری اور مسئلہ کو پہچان سکتے ہیں — اور آہستہ آہستہ جھگڑنے کی اس عادت سے نکل سکتے ہیں ۔

البتہ اگر اس جھگڑے کو سننے کی ہم میں ہمت نہ ہو ، ہم اپنے وقار اور یقین کو کھونے لگیں تو یقیناً ایسی صورت میں دین آپ کو اس جگہ سے اٹھ جانے ، احسن انداز میں سلام کر کے نکل جانے کی تلقین کرتا ہے ۔ اس کے لیے خود پر نظر رکھنا اور خود سے کنکٹ رہنا بے حد ضروری ہے ۔

اتنا بوجھ اٹھائیں کہ جتنا آپ میں ہمت ہے ، اسی لیے اسلام خلع ، طلاق کے ذریعے الگ ہو جانے کے راستے کھلے رکھتا ہے ، تین دن تک ناراضگی کی اجازت دیتا ہے ، تکلیف کو دور کرنے اور برائی پہنچانے والے کو روکنے کی اجازت دیتا ہے ، تاکہ سکون کی زندگی گزاری جائے اور ساتھ میں آخرت کی زندگی سے باخبر کرتا ہے کہ وہاں ظلم کا بدلہ ملے گا اور صبر کا بدلہ بھی دیا جائے گا ۔

خلاصہ یہ ہے کہ

"جھگڑا صرف ہماری توجہ سے زندہ رہتا ہے" اور "جب ہم اسے توانائی دینا بند کر دیں، تو وہ مر جاتا ہے"۔ ۔۔۔ جب ہم (emotionally mature) ہو جاتے ہیں، اور ردعمل دینا چھوڑ دیتے ہیں، تو ہم نہ صرف خود کو بچاتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی شفا دیتے ہیں۔

اس حدیث سے اپنی گفتگو کو ختم کرتے ہیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

"من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیقل خیراً او لیصمت" > "جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔"

اپنے بارے میں ہمیشہ اچھی بات کریں ، دوسرے کو عذر دیں ، باؤنڈری بھی لگائیں اور فاصلے بھی رکھیں ، مگر سب سے بڑھ کر اپنے یقین اور وقار کی حفاظت رکھیں ۔۔ کہ یہ زندگی کی سب سے قیمتی متاع ہے ۔

Comments

Avatar photo

عبدالعلام زیدی

عبدالعلام زیدی اسلام آباد میں دینی ادارے the REVIVEL کو لیڈ کر رہے ہیں۔ اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے بی ایس کے بعد سعودی عرب سے دینی تعلیم حاصل کی۔ زکریا یونیورسٹی ملتان سے ایم اے اسلامیات اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولہور سے ایم اے عربی کیا۔ سرگودھا یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔ سید مودودی انسٹی ٹیوٹ لاہور میں تعلیم کے دوران جامعہ ازھر مصر سے آئے اساتذہ سے استفادہ کیا۔ دارالحدیث محمدیہ درس نظامی کی تکمیل کی۔ دینی تعلیمات اور انسانی نفسیات پر گہری نظر رکھتے ہیں

Click here to post a comment