سوچتی ہوں کہ
میں تم سے کیسے کہوں
تم مرا خواب ہو
زندگی ہو ، مری جان ہو
صبح _صادق کی پہلی کرن !
مرے چہرے کی پہچان ہو
میں نے اپنے لہو سے اجالا تمہیں
خوب سینچا تمہیں، اور سنبھالا تمہیں
سوچتی ہوں کہ میں تم سے کیسے کہوں
تری آواز سے ، روشنی ہے مری
ترے انداز سے، زندگی ہے مری
خواہشِ رنگ و بو کیسے مرجھا گئی
کچھ بتا دے مجھے
مرے جیون کی الجھی ہوئی ڈور کا
اک سرا ہی تھما دے مجھے
اس محبت، مروت کو کیسے لپیٹا
کہاں پھینک کر آگئے
مری قربانیوں کو بھلا کر کدھر جا بسے
سوچتی ہوں کہ پوچھوں مگر
میں کہ خاموش ہوں
سب سوالوں کے آگے سوالی بنی
خود ہی میں اپنی مجرم بنی
خود ہی میں ان خیالات میں
ڈوبتی ہوں ، ابھرتی نہیں دیر تک
ایک ویراں گلی کے کسی موڑ پر
راستے میں کھڑی دیکھتی ہوں تمھیں
مت تماشا کرو
جگ ہنسائی کا باعث بنو
میرے الفاظ خاموش ہیں،ذہن مفلوج ہے
جیسے معذور ہوں ،لفظ ترتیب پاتے نہیں
تم سے کیسے کہوں؟
میں کہاں جا بسوں؟
کچھ بتا دے مجھے
تبصرہ لکھیے