پاکستان کے اسلامی و نظریاتی تشخص کے حوالے سے اسلامسٹ، سیکولر، لبرل، پرو پاکستان اور اینٹی پاکستان طبقات میں نفیاً و اثباتاً بہت بحث رہتی ہے، جس میں 14 اگست کے موقع پر کافی تیزی دیکھنے کو ملتی ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے بعض لوگوں نے ایک ایجنڈے کے تحت یہ ثابت کرنے اور اس کے حق میں پروپیگنڈہ کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے کہ نظریۂ پاکستان محض ایک ڈھکوسلہ اور فراڈ ہے۔ قائدِاعظم سیکولر اور لبرل پاکستان بنانا چاہتے تھے، مولویوں نے خواہ مخواہ پاکستان کو ہائی جیک کر لیا ہے، اور اس بے سند مفروضے کے تحت اس میں اسلام نافذ کرنے کے خواہاں ہیں، کہ قائدِاعظم پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے۔ اسلام اول تو اِس زمانے میں قابلِ عمل ہی نہیں، اور اگر ہو بھی تو قائدِ اعظم کا پاکستان بہر حال اسلامی نہیں ہو سکتا، کہ یہ بانیِ پاکستان کے وژن اور مشن کی خلاف ورزی ہوگی۔
ہمارے نزدیک اس مسئلے، اس کے مالہ وما علیہ اور اس کی قدر و قیمت کو سمجھنے کے لیے اسے تحریک پاکستان کے دوران کام کرنے اور کام آنے والے عوام کے جذبات و احساسات اور رویوں کے تناظر میں دیکھنا زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ جن عوام کو پاکستان کا خواب دکھایا گیا، اور جنھوں نے اس کی خاطر اپنے مال وجان کی قربانیاں پیش کیں، وہ اپنے خوابوں کے اس جزیرے کو اسلامی سمجھتے تھے یا نہیں! اگر ہم عوام کے احوال کا مشاہدہ کریں اور ان کے جذبات کو سنیں اورسمجھیں تو یہ چیز ناقابلِ انکار حقیقت کے طور پر سامنے آتی ہے کہ تحریکِ پاکستان کے لیے ایک بنیادی ترین جذبۂ محرکہ اسلام ہی تھا۔ عوام کو یہی باور کرایا گیا تھا کہ پاکستان ان کے خوابوں کے اسلام کا نمونہ ہوگا؛ ریاست ِ مدینہ اور خلافتِ راشدہ کی جھلک دکھائی دے گی؛ عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا؛ آقا و غلام ایک صف میں کھڑے نظر آئیں گے۔ وعلی ھذا القیاس۔ یہ خواب اور جذبۂ محرکہ نہ ہوتا تو دنیائے انسانیت کی سب سے بڑی ہجرت اور اس کے دل دوز مراحل و مظاہر سے تاریخ کے صفحات ہمیشہ خالی رہتے۔
’’پاکستان اور بانیانِ پاکستان کو مسلمانانِ برصغیر کی اتنی بڑی تعداد میں جو حمایت ملی وہ لوگوں کو بالکل اسلام کا خواب دکھائے بغیر ملی۔‘‘ اس دعوے میں اتنا وزن بھی نہیں، جتنا اس استشراقی اور سیکولر نوعیت کے دعوے میں ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں نفاذِ اسلام سے سوسائٹی کا امن خطرے میں پڑ جائے گا؛ اسلام پسند یا مولوی اسے دقیانوسی بنا دیں گے؛ ملک دہشت گردی کی آماجگاہ بن جائے گا؛ اسلام اس زمانے میں قابلِ عمل نہیں؛ یہ ابتدائی عرب بدوی سوسائٹی کی ضروریات پوری کر سکتا تھا، آج کے متمدن معاشرے اور ملک کی نہیں۔
بانیانِ پاکستان کے ذہن میں پاکستان کا کیا نقشہ تھا! وہ اسے واقعی ایسا بنانا چاہتے تھے، جیسا مذہب یا اسلام پسند دعوی کرتے ہیں، یا ایک سیکولر اور لبرل ملک؟ قائداعظم کے خطابات سے دونوں طرح کے دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔ لیکن سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ قائدِ اعظم کے ذہن میں مولویوں کی کسی جماعت کی سربراہی میں چلتا ہواسلامی پاکستان تھا اور نہ اسلام کے نام سے الرجک سیکولر اور لبرل انتہا پسندوں کی قیادت میں منازلِ حیات پہ رواں دواں پاکستان۔ دونوں قائداعظم اور پاکستان کو اپنی اپنی طرف کھینچ کر انتہا پسندانہ سوچ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ تاریخ و تحریکِ پاکستان کا ایک ادنیٰ طالب علم بھی واضح طور پر محسوس ہو سکتا ہے کہ قائداعظم کے ذہن میں اگر تھا تواسلام کے آفاقی اور عدلِ اجتماعی کے اصولوں کو ملحوظ رکھ کر نظام ِمملکت چلانے والے حکمرانوں کے قیادت میں جدید دنیا میں ایک منفرد طرز کا ملک بن کر ابھرنے والا پاکستان تھا۔ یہ بات ماننی پڑے گی کہ قائدِ اعظم پاکستان کو تھیوکریٹک سٹیٹ نہیں بنانا چاہتے تھے، اور ظاہر ہے کہ کوئی بھی معقول آدمی ایسی سٹیٹ کی حمایت نہیں کر سکتا، لیکن یہ بات بھی اتنی ہی صحیح ہے کہ قائداعظم نہ تو اسلام کو آئوٹ ڈیٹڈ سمجھتے تھے اور نہ ہی اس کے نام سے اس درجہ الرجک تھے، جیسے آج کے بہت سے سیکولر اور لبرل الرجک دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان کی ضروریات اور جدید تقاضوں کے حوالے سے دیکھیں تو یہ باتیں لایعنی اور فضول دکھائی دیتی ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا یا نہیں! قیامِ پاکستان کے لیے اسلام کا نام لے کر عوام الناس کو دھوکا دیا گیا یا نہیں! اسلام آج کے دور میں قابلِ عمل ہے یا نہیں! دیکھنا یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے عوام کیا چاہتے ہیں (وہ عوام ، جنھوں نے پاکستان کے لیے جدوجہد کی اور جان و مال کی قربانیاں دیں )، انھیں کس چیز میں اپنی بھلائی اور نجات نظر آتی ہے! میرے نزدیک اس کے عوام کی خواہش اس کے دیوار و در پر مرقوم دکھائی دیتی ہے کہ پاکستان اسلام کے آفاقی اصولوں کی روشنی میں ایک مثالی ترقی پسند اسلامی ریاست بنے۔
تبصرہ لکھیے