رازداری ہے اسی میں، کہ بتایا نہ جائے
ہم نے اک عمر گزاری ہے دیوانوں کی طرح
کوششیں رائیگاں جائیں گی تمھاری اس دن
جب ہمیں لوگ سنبھالیں گے مکانوں کی طرح
ہم نہیں وہ کہ دبانے سے دبے جائیں گے
ہم دبانے سے ابھرتے ہیں اڑانوں کی طرح
ہم سے ہوتا ہی نہیں رقص مقابل اے دوست
ہم نے سیکھا ہے جو تسبیح کے دانوں کی طرح
تم نے وعدہءِ مَحبت کو کیا خاک آلود
ہم نے پابند کیا خود کو چٹانوں کی طرح
ہم کسی ایک کے ہونے کا ارادہ کرلیں
پھر نہیں بکتے جہاں بھر میں، دکانوں کی طرح
چھوڑنا ہے؟ تو ابھی چھوڑ کے جاسکتے ہو
ساتھ رہنا ہے؟ تو پھر رہنا زمانوں کی طرح
ہم محبت میں بڑی دور نکل جائیں گے
پیار کر بیٹھیں گے ہم لوگ کسانوں کی طرح
میں نے دکھ درد کی تصویر کشی کی، راقم
اور سنبھالا اسے میں نے خزانوں کی طرح
تبصرہ لکھیے