ہمزاد: ”کیسی ہو نغمے آج کل کیوں وسط اکتوبر کے دنوں میں جھڑتے پتوں جیسا حال بنائے پھرتی ہو ؟“
میں : ” بس ٹھیک ہوں ہمزاد میرے حال سے زیادہ تم سے کون واقف ہوگا میرے ہمزاد ہو میری نس نس سے واقفیت رکھتے ہوگے میری اداسیوں کا حال کیوں نہ جان پائے ؟“
ہمزاد : پتا ہے نغمے تمہارا مسئلہ کیا ہے ؟ مایوسی ایک عفریت جیسی ہے جس کے شکنجے میں جو آگیا وہ پھر ترقی کرنا تو درکنار خوش بھی نہیں رہ پاتا ! کیوں ہوتی ہو مایوس لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں بیچ راہ میں چھوڑ دینے والے کوئی کوئی ہی خلوص والا راہ حیات میں ملتا ہے بس اس کے نقش پا کو کبھی مٹنے نہ دینا ورنہ ویرانیاں روح تک میں پھیل جاتی ہیں “
میں :” ہمزاد کوئی اپنا نہیں ہوتا محبت فقط دل کا بہلاوا ہوتی ہے یہاں آپ کسی کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ لیں تب بھی آپ کی محبت بے معنی ہی ہوتی ہے ! اسی لئے مجھے کسی کی محبت کی اب ضرورت ہی نہیں ہے ہمزاد مجھے فرق نہیں پڑتا کوئی ہے یا نہیں ہے میں تنہا خوش ہوں “
ہمزاد :” تم غلط فہمی کے حصار میں قید ہو کسی خوش فہمی کی زنجیر نے تمہیں جکڑ لیا ہے نغمے محبت تو وجہ کائنات ہے اور تم کہتی ہو کہ تمہیں کسی کی محبت نہیں درکار کوئی انسان اگر یہ کہتا ہے تو اسے ہی سب سے زیادہ طلب ہوتی ہے .....کیونکہ انسان کا خمیر ہی اس مٹی سے گوندھا گیا ہے جس کے ارد گرد اگر محبت کا ہالا نہ رہے تو انسان پت جھڑ کے موسم کو سہ کر ٹنڈ منڈ ہو جانے والے شجر کی مانند ہو جائے ویران اجاڑ جس طور تم ہو اداسیاں تمہاری روح میں ہیں نغمے اور انکار محبت کرتی پھرتی ہو !“
میں : ” ہمزاد محبت وجہ کائنات ضرور ہو سکتی ہے لیکن محبت کے بنا بھی جیا جا سکتا ہے ہر شخص کو محبتیں نہیں ملتیں کچھ آغوش مادر سے گور تک تنہا ہی رہتے ہیں !“
ہمزاد : ”رب اگر چاہے تو ہر چیز کو ایسے ہی بنا ڈالے جیسے اس نے آدم بنایا اور اس کی پسلی سے عورت بنائی یعنی کہ تمہاری ماں اماں حوا اور دیکھو ناں آدم کی فطرت میں ازل سے ہی محبت کی چاہ رکھی گئی تبھی تو وہ تنہا گھبرا گئے ! محبت ہر ذی نفس کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنا سانس لینا ! اس لیے اگر لوگ آپ سے محبت نہیں کرتے تو آپ پہل کریں آپ محبت کی شروعات کریں شاباش اٹھو اور شہر دغا میں منادی محبت کرا دو کچھ ناخلف تمہارے جیسے منکر محبت تہ دام آ ہی جائیں گے شاید کسی دل میں اتر جائے تیری بات شاید کسی روح کو بدل دے تیرا لہجہ “
میں : ” شکریہ! ہمزاد تم نے مجھے محبت کا ایک بہت ہی اچھا مصرف بتایا ہے ضروری نہیں کہ میں محبت کی طلب رکھوں کہ لوگ مجھے محبت ودیعت کر جائیں میں خود بھی آگے بڑھ کر یہ کام سرانجام دے سکتی ہوں !“
تبصرہ لکھیے