ہوم << بلوچستان پر پاکستان کا ’’قبضہ‘‘: حقیقت کیا ہے؟

بلوچستان پر پاکستان کا ’’قبضہ‘‘: حقیقت کیا ہے؟

صوبہ بلوچستان قیام پاکستان کے وقت پانچ حصوں میں منقسم تھا۔ چار شاہی ریاستیں تھیں، قلات، خاران، مکران اور لسبیلہ جبکہ ایک برٹش انڈیا کا علاقہ برٹش بلوچستان تھا۔ قلات، لسبیلہ، خاران اور مکران کا علاقہ کم وبیش وہی ہے جو کہ آج اسی نام کے ڈویژن سے موجود ہے۔ برٹش بلوچستان میں موجودہ بلوچستان کی پشتون پٹی (لورالائی، پشین، مسلم باغ، قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبداللہ، ژوب، چمن) کے علاوہ کوئٹہ، اور بلوچ علاقہ ضلع چاغی اور بگٹی اور مری ایجنسی (کوہلو) کے علاقہ شامل تھے۔گوادر کا علاقہ تب خلیجی ریاست عمان کا حصہ تھا جو کہ خان آف قلات نے عمان کو دیا تھا۔
ان میں سے مکران اور لسبیلہ کے پاس سمندری پٹی تھی، باقی تین علاقے قلات، خاران اور برٹش بلوچستان خشکی ميں گھرے ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے وقت تین جون کے منصوبہ کے تحت برٹش بلوچستان نے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ شاہی جرگہ اور کوئٹہ میونسپل کمیٹی کے اراکین کے ذریعے کرنا تھا۔ انہوں نے پاکستان کو بھارت پر ترجیح دی. باقی چاروں علاقوں لسبیلہ، خاران، قلات اور مکران کے حکمرانوں نے برٹش انڈیا کی دیگر شاہی ریاستوں کی طرح بھارت یا پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کرنا تھا۔ آگے چل کر لسبیلہ، خاران اور مکران کے حکمرانوں نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کردیا. قلات نے ایسا نہیں کیا،گو کہ خان آف قلات وہاں حکمران تھے مگر دو منتخب ایوان بھی تھے اور ان دونوں ایوانوں نے پاکستان سے الحاق کی اکثریت سے مخالفت کی تھی، مگر ان ایوانوں کی حیثیت مشاورتی تھی۔ جب لسبیلہ، مکران اور خاران کے حکمرانوں نے پاکستان سے الحاق کر لیا تو قلات کی ریاست مکمل طور پر پاکستانی علاقہ میں گھر گئی۔ انگریزی میں ایسے علاقہ کو انکلیو کہا جاتا ہے۔ سب سے آخر میں مارچ 1948ء میں قلات نے بھی پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا۔ مگر خان آف قلات کے اس فیصلہ کے خلاف ان کے چھوٹے بھائی نے مسلح جدوجہد شروع کردی جس میں انہیں افغانستان کی پشت پناہی حاصل تھی۔ افغانستان قیام پاکستان کے وقت سے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے میں آگے آگے ہے، اس کی ابتدا اس سے پہلے ہو چکی تھی جب افغانستان نے پختونستان کا شوشہ چھوڑا تھا۔ اس مسلح جدوجہد کا نتیجہ پاکستان کی فوجی کارروائی کی صورت میں نکلاجو کہ صرف قلات تک محدود تھی۔
بعد میں برٹش بلوچستان کو بلوچستان کا نام دے دیا گیا جبکہ قلات، مکران، خاران اور لسبیلہ کو ایک اکائی بنا کر بلوچستان اسٹیٹس یونین کا نام دیا گیا۔ 1955ء میں ون یونٹ کے قیام کے وقت برٹش بلوچستان کا نام کوئٹہ ڈویژن کر دیا گیا اور بلوچستان اسٹیٹس یونین کا نام قلات ڈویژن کر دیا گیا اور یہ دونوں علاقہ مغربی پاکستان صوبہ کا حصہ بن گئے۔ 1958ء میں اس وقت کے وزیراعظم ملک فیروزخان نون جن کا تعلق پنجاب سے تھا، نے عمان سے کامیاب مذاکرات کر کے گوادر کے علاقہ کی ملکیت بھی حاصل کر لی۔ 1969ء میں ون یونٹ کو توڑا گیا اور چار صوبے بنے تو قلات ڈویژن، کوئٹہ ڈویژن اور گوادر کو ملا کر موجودہ صوبہ بلوچستان وجود میں آیا۔
سو اگر دیکھا جائے تو بلوچستان قیام پاکستان کے وقت پانچ حصوں میں منقسم تھا، چار حصے بغیر کسی اختلاف کے پاکستان میں شامل ہوئے تھے، صرف ایک ریاست قلات کے الحاق میں اختلاف کا پہلو نکالا جا سکتا ہے مگر حیرت ہوتی ہے کہ بعض لوگ پورے صوبے کا الحاق متنازعہ بنانے پر تلے رہتے ہیں۔
بشکریہ: راشد نذیر علی

Comments

Click here to post a comment