حکومت اور اس کے اداروں سے پہلے کوئی شکوہ تھا نہ آج ہے. شکوہ ان سے ہوتا ہے جن سے توقع ہو، پورے ملک کی ضلع کچہریوں کا دورہ کریں، آپ کو حکومت کی انصاف پر انویسٹمنٹ نظر آ جائے گی. شکوہ اپنوں سے ہے. شکوہ پاکستان بار کونسل اور صوبائی بار کونسلز سے ہے جو 12مئی اور 3مارچ کے شہداء کو انصاف نہیں دلوا سکیں. شہداء کے وارثان و لواحقین کس حال میں ہیں؟ بار کونسلز کے ذمہ داران کو ان کی خبر تو دور کی بات، نام بھی اب یاد نہیں.
بار کونسلز سے گزارش ہے کہ احتجاج کے بجائے حکومت سے ملک بھر کی ضلع کچہریوں کو اپ گریڈ اور فول پروف کروا کر دیں، ورنہ آپ کی لیڈرشپ کا وکلاء نے اچار نہیں ڈالنا. ملک بھر میں سب سے آسان ٹارگٹ ضلع کچہریاں ہیں. حکومت کے پاس میٹرو پر انویسٹمنٹ کے لیے وافر مقدار میں رقوم ہیں مگر بار اور بنچ کے لیے پھوٹی کوڑی بھی نہیں. یہ بار کونسلز کا امتحان ہے کہ وہ اپنا حق وفاقی و صوبائی حکومتوں سے کیسے لے پاتی ہیں.
جو حکمران و سیاستدان ٹی وی سکرین پر بار بار آ کر کہہ رہے ہیں کہ یہ سی پیک کو ناکام بنانے کی کوشش ہے. ان تمام سے گزارش ہے کہ بھائی بھاشن نہ دیں، دشمن سے خیر کی امید کب تھی؟ انھوں نے تو حرام کاری سے باز نہیں آنا، پر سوال آپ کی کارگردگی کا ہے؟ آپ ان کو روکنے کےلیے کیا کر رہے ہیں، اس کے بارے میں قوم کو آگاہ کریں.
نوجوان وکلا حوصلہ رکھیں. قائد اور نیلسن منڈلا کے پیشے سے وابستہ افراد نے خوفزدہ ہونا نہیں سیکھا. وکلا پوری ہمت و جرات سے میدان میں کھڑے رہیں گے.
تبصرہ لکھیے