ماہ رمضان جس کی برکت اور عظمت کی گواہی خود اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں دی ہے، کا تیسرا عشرہ آخری مراحل میں ہے۔ یہ عشرہ جو کہ جہنم سے آزادی کا ہے، سے ہی اہل ِ اسلام عید الفطر کی تیاریاں شروع کردیتے ہیں۔ تیاریاں بجا بھی ہیں کیونکہ یہ مسلمانوں کا سب سے بڑا تہوار ہے۔ اور اس دن پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشی منانے کی تاکید بھی کی ہے ۔ اِس عید پر خوب خریدوفروخت ہوتی ہے۔ ہرامیر وغریب کی کوشش رہتی ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق کم سے کم اِس دن تو بچوں سے لیکر بزرگوں تک نئے ملبوسات خریدے۔ ہمارے یہاں کشمیر میں اگرچہ عید کے پیش نظر ہرقسم کے سازوسامان پر خصوصی رعایت نہیں دی جاتی ہے، تو بھی یوم عرفہ یا اس سے پہلے خریدوفروخت بام عروج پر ہوتی ہے۔
راقم الحروف کو اس متبرک دن کے موقعے پر خرید و فروخت سے زرا بھی اعتراض نہیں ہے۔ آپ خوب خوشیاں منائیں ، نئے کپڑے نئے جوتے خریدیں اور بڑوں سے عیدی بھی لیں اور چھوٹوں کو عیدی بھی دیں, لیکن یہ ہرگز نہ بھولیں کہ ہمارے معاشرے کا ایک بچھڑا طبقہ بھی ہے جو غربت میں پس رہا ہے۔ اس طبقے کی نہ سرکار سن رہی ہے نہ ہی ان تک ہمارے بیوت المال کی رسائی ہے۔ ہماری اولین ذمہ داری ہے کہ اس خوشی کے موقع پر اپنے ان غریب بھائیوں کو نہ بھولیں، حسب استطاعت انہیں بھی اپنی عید کی خوشیوں میں ضرور شریک کریں۔ عید اصل میں ہے ہی دوسروں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کا نام یا دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہونے کا نام ۔اسلام کا کوئی حکم بھی حکمت سے خالی نہیں اور پھر اسی مبارک مہینے میں زکٰو ۃ نکالی جاتی ہے اور صدقہ فطر بھی دیا جاتا ہے جس کا مقصد ہی یہی ہے کہ ہمارے سماج کے غرباء بھی اپنی عید خوشی سے منا سکیں۔
اس کے علاوہ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ عیدالفطر کے پر مسرت موقع پر جو آپس میں کسی وجہ سے ناراض ہیں ان کو ایک دوسرے سے صلح کر لینی چاہیے اور بروز عید ایک دوسرے سے بغل گیر ہونا چاہیے۔ عید کے دن دل میں کوئی رنجش نہ رکھیں کیونکہ عید آتی ہے اور خوشیاں دے کر چلی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ "اور جب انسان اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے سرفراز ہو تو اسے چاہیے کہ وہ خوب خوشیاں منائے" عید کے دن مسلمانوں کی مسر ت اور خوشی کی وجہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خدا کے احکامات کی ایک ماہ تک سختی سے تعمیل کی اور اس تعمیل کے بعد خوش و مسرور رہتے ہیں، حضرت ابوہریرہؓ ایک مشہور صحابی تھے آپ روایت کرتے ہیں، کہ عیدالفطر کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم میدان میں نماز ادا فرماتے نماز کی ادائیگی کے بعد لوگوں سے ملاقات کرتے گلے ملتے پھر واپس گھر آجاتے۔
یاد رکھیں کہ کسی غریب شخص کی مدد کر کے ہی آپکو عید کی حقیقی خوشی مل سکتی ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ مہنگائی نے عوام میں سے اکثریت کی زندگی مشکل کر دی ہے ہم کو چاہیے خاص طور پر ان مسلمانوں کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کریں جن کو ایک وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی تاکہ وہ غریب مسلمان بھی مسرتوں اور خوشیوں کا تھوڑا سا حصہ حاصل کر سکیں اور ویسے بھی ایک غریب مسلمان کی خوشی کے موقع پر بے لوث مدد اور خدمت کرنے سے جو روحانی سکون و خوشی حاصل ہوتی ہے وہ لازوال ہوتی ہے۔ اور ایسی مدد کرنے پر خدا اور خدا کے رسول ﷺ بھی خوش ہوتے ہیں اور اگر ہو سکے تو ابھی سے ان کی مدد کر دیں تاکہ وہ اپنے لئے ضروری اشیاء اور بچوں کے لیے ملبوسات خرید سکیں، یہ ہمارا ان پر کوئی احسان نہیں ہے بلکہ اللہ کی طرف سے ہم پر فرض ہے ۔ اللہ نے ہم کو دیا ہے تو ہماری ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ ہم ان مفلوک الحال افراد تک پہنچ جائیں۔
اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ اس عید الفطر کے صدقے تمام مسلمانوں اور بالخصوص فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے حالات پر کرم فرمائے۔ ہمارے فاقوں، رکوع و سجود کو اپنے دربار میں شرف قبولیت بخشے۔ آمین
تبصرہ لکھیے