وائس آف امریکہ کی بندش، پی ٹی وی کے حوالے سے بری خبریں، اور بی بی سی کے مالی بحران—یہ سب اس بات کا اشارہ ہیں کہ میڈیا انڈسٹری عالمی سطح پر زوال پذیر ہے۔ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ دنیا بھر میں روایتی صحافت کی بقا خطرے میں ہے۔ میڈیا کے شعبے سے وابستہ افراد کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ متبادل روزگار کے راستے تلاش کریں، کیونکہ ڈیجیٹل ڈیوائن کے اس دور میں اب وہی صحافی ہے جس کے ہاتھ میں موبائل اور ڈیجیٹل مہارتیں ہیں۔ جو کری ایٹو اور ڈیجیٹل ایپس سے دور ہے، اس کا اس فیلڈ میں ایک دن بھی چلنا ممکن نہیں۔
اگر پاکستان، خاص طور پر خیبر پختونخوا کی بات کی جائے، تو یہاں صحافت کا سنہری دور 9/11 کے بعد سے لے کر 2013 تک تھا۔ اس عرصے میں اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی چینلز اپنے عروج پر تھے۔ میڈیا ہاؤسز اشتہارات کے عروج سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے تھے، اور صحافت کے طلبہ کے لیے نوکریوں کے وسیع مواقع موجود تھے۔ تاہم، 2013 کے بعد سوشل میڈیا کے میدان میں داخل ہونے اور 4G انٹرنیٹ کی عام دستیابی کے بعد روایتی میڈیا کی اجارہ داری کمزور پڑنے لگی۔
2025 میں صورتحال مکمل طور پر بدل چکی ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا نے مکمل طور پر میدان مار لیا ہے، اور سیٹلائٹ چینلز کا دور ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اشتہارات اب یوٹیوب، فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک، اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر شفٹ ہو چکے ہیں۔ جن صحافیوں نے اپنی یوٹیوب چینلز اور ویب سائٹس بنائیں، وہ کسی نہ کسی طرح اپنی جگہ بنا رہے ہیں، مگر روایتی میڈیا ہاؤسز شدید بحران کا شکار ہیں۔
یہی بحران صحافت کی تعلیم پر بھی اثرانداز ہو رہا ہے۔ خیبر پختونخوا میں میڈیا اسٹڈیز کے شعبے جو کبھی طلبہ سے بھرے ہوتے تھے، اب وہاں داخلوں میں نمایاں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ میڈیا کے تعلیمی ادارے اب بھی وہی پرانے کورسز پڑھا رہے ہیں جو عملی میدان میں غیر مؤثر ہو چکے ہیں۔ ڈیجیٹل جرنلزم، ویڈیو پروڈکشن، ڈیٹا جرنلزم، اور سوشل میڈیا مارکیٹنگ جیسے جدید مضامین کو شامل نہیں کیا جا رہا۔ جب بڑے میڈیا ہاؤسز ہی بند ہو رہے ہیں تو نئے فارغ التحصیل طلبہ کے لیے نوکریوں کے مواقع بھی کم ہو چکے ہیں۔
طلبہ دیکھ رہے ہیں کہ کسی بھی فرد کے لیے یوٹیوب یا فیس بک پر کامیاب چینل بنانا روایتی میڈیا میں نوکری کرنے سے زیادہ فائدہ مند اور آزاد ہے۔ اب صحافت صرف خبر لکھنے تک محدود نہیں رہی۔ ویڈیو ایڈیٹنگ، گرافکس، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، اور اینیمیٹڈ کانٹینٹ کی مہارت کے بغیر میدان میں رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس ساری صورتحال میں مصنوعی ذہانت (AI) نے صحافت کو ایک نئی جہت دی ہے۔ خبروں کی تحقیق، ڈیٹا اینالسس، اور آٹومیٹڈ رپورٹنگ سے لے کر ویڈیو اور آڈیو کانٹینٹ کی تیاری تک، AI نے صحافیوں کے لیے کام کو نہایت آسان بنا دیا ہے۔ جدید AI ٹولز خبروں کی تصدیق، پیچیدہ ڈیٹا کا تجزیہ، اور تحریر و ترجمے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ اس کی بدولت صحافی کم وقت میں زیادہ معیاری اور تحقیقی مواد تیار کر سکتے ہیں، جبکہ ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز کے لیے کانٹینٹ پروڈکشن مزید مؤثر اور تیز ہوگئی ہے۔
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اگر میڈیا کے تعلیمی ادارے اپنے نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کر سکے، تو مستقبل قریب میں خیبر پختونخوا میں صحافت کے شعبے بند ہونے کے قریب پہنچ سکتے ہیں، جیسے کہ کئی میڈیا ہاؤسز پہلے ہی زوال کا شکار ہو چکے ہیں۔ آج کے دور میں اگر کوئی صحافی ڈیجیٹل مہارتیں اور AI ٹیکنالوجی سے استفادہ نہیں کر رہا، تو اس کا اس میدان میں ایک دن بھی گزارنا ممکن نہیں.
تبصرہ لکھیے