اسے بچپن میں ماں جی نے زندگی کا اہم ترین سبق ایمانداری کا دیا تھا۔ وہ شعور کی عمر کو پہنچا تو اس سے وعدہ بھی لیا تھا کہ جیسے بھی حالات ہوں، جس طرح کے بھی لوگوں سے واسطہ پڑے، اس نے اس سبق کو ایک لمحہ کے لیے بھی کبھی نہیں بھولنا۔ اس نے عمر بھر ماں جی کا دیا گیا سبق اور اپنا وعدہ نہ صرف یاد رکھا بلکہ اس کے لیے طرح طرح نقصانات بھی اٹھائے۔ زندگی میں بے شمار دھوکے کھانے کے باوجود اس نے ایمانداری سے سرمو انحراف نہ کیا۔ اس کے لیے یہ سب مشکل ضرور تھا مگر ایمانداری اور ایفائے عہد کی وجہ سے اس کی روح کو جو تسکین حاصل ہوتی، اس کا کوئی نعم البدل نہیں تھا۔
بچپن میں جب تک شعور کی کرنیں اس کی ذات کی وادی میں اتری نہیں تھیں، اس کا آس پاس کی دنیا سے واسطہ نہیں پڑا تھا، اس کا یقین راسخ تھا کہ زندگی بتانا گویا کسی خوبصورت، ہموار اور صراط مستقیم جیسی شاہراہ پر پر سکون سفر کرنا ہے۔ ایسا سفر جو ہر پل روح کو نہال رکھے، کہیں کوئی دشواری اور الجھن نہ ہو، زندگی کسی خاموشی سے بہتی ندی کی مانند رواں دواں رہے۔ اس شاہراہ حیات پر ہمراہی اور ہمرکاب اس قدر نستعلیق ہوں کہ جیون، جنت کا نمونہ پیش کرے۔ اس دنیا کے باسی صاف ستھرے مزاج، اجلے کردار اور اخلاق کے اعلیٰ ترین اوصاف سے مزین ہوں۔ ماں جی کے پڑھائے ہوئے سبق نے اس دنیا کا اس کے دل و دماغ میں یہی نقشہ تو کھینچا تھا۔
مگر یہ کیا، شعور کی پہلی سیڑھی چڑھتے ہوئے اسے لگا کہ ایسا کچھ بھی نہیں جیسا اس کا خیال تھا۔ اس نے ایک دن ڈرتے ڈرتے اپنی ماں جی سے پوچھ ہی لیا " ماں جی، جو میں دیکھتا ہوں، وہ ویسا تو نہیں جو میں سوچتا تھا۔ کیا اچھی اور ایماندار دنیا صرف خواب اور خیال میں ہی ہوتی ہے؟". ماں جی نے تب ایک سرد آہ بھری تھی اور کافی دیر اسے کمال شفقت و محبت سے دیکھتی رہی تھیں، پھر اس کے دونوں گال چوم کر اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر ایک وعدہ لیا تھا، اس وقت ان کی آنکھیں نم تھیں اور آواز درد سے بھری ہوئی۔ انہوں نے کہا تھا " میرے دل کے چین، تو ٹھیک کہتا ہے۔ اچھی اور ایماندار دنیا صرف خواب اور خیال ہی میں وجود رکھتی ہے، تجھے جاگتی آنکھوں سے ایسی دنیا ملنا ناممکن ہے، شاید کہیں سمندر پار کہیں ایسی دنیا موجود ہو، مگر یہاں تجھے فقط اس دنیا کے جھوٹے مبلغ اور دعویدار ہی ملیں گے۔ میرا نور نظر کبھی کسی کی صورت دیکھ کر دھوکہ مت کھانا، تقدس مآب چہروں کے پیچھے اکثر ابلیس چھپا ہوتا ہے۔ لوگوں کو ان کی زبان سے نہیں، عمل اور معاملات سے پرکھنا۔ تجھے زندگی کے ہر قدم پر ایک سے ایک بہروپیا ملے گا، جب بھی کسی ایسے فرد سے واسطہ پڑے تو اس کے عمل کی ضد میں اچھائی اور نیکی تلاش کرنا، تجھے کبھی مایوسی نہیں ہوگی۔ میرا لخت جگر، کبھی بھی بھیڑ کا حصہ مت بننا، بری شہرت اور مقبولیت کی بجائے اچھی گمنامی اور عافیت بھری بے زاری میں زندگی کی راحت ڈھونڈنا، تجھے تیرا در مقصود اسی طرح میسر ہوگا۔ میری دعائوں کے محور، میرے ساتھ وعدہ کرو کہ میرے دیئے ہوئے سبق، ایمانداری، کو خود سے کبھی جدا نہیں ہونے دو گے، ہزار دھوکے کھا کر بھی اپنی روش کبھی تبدیل نہیں کرو گے۔ میرا سبق یاد رکھا تو میرا وعدہ ہے کہ میرے پائوں تلے رکھی جنت تجھے ضرور ملے گی، یہ ایک ماں کا وعدہ ہے، جس کی محبت کو خالق نے اپنی محبت کا پیمانہ قرار دیا ہے۔"
اس نے بھی ماں جی سے کیے ہوئے وعدہ کو یوں نبھایا کہ ایمانداری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ جب بھی کوئی اسے دھوکہ دیتا، وہ خندہ پیشانی سے اسے قبول کرتا۔ شروع شروع میں اس نے کوشش کی کہ لوگوں کو ان کی غلط روش کا احساس دلائے، شاید کوئی تبدیلی آ ہی جائے۔ مگر، جب اس نے ہر طبقہ اور مکتب میں بد دیانتی کا دور دورہ دیکھا تو وہ مکمل مایوس ہو گیا، اسے سمجھ آگئی کہ ماں جی بری شہرت اور مقبولیت کی بجائے گمنامی کو بہتر کیوں کہتی تھیں۔ وہ اچھے لوگوں اور اچھی شہرت کے حامل افراد کی تلاش کو بے سود سمجھ کر سب سے الگ اپنی دنیا میں جا بسا تھا، جس کا باسی وہی ایک فرد تھا، خاموش، گہری سوچوں میں غرق، گمنام، سب کا ناپسندیدہ اور غیر مقبول۔۔۔ جو اپنی دنیا میں سکون و اطمینان کے ساتھ اپنی ماں جی کا پڑھایا گیا سبق اور ان سے کیا ہوا وعدہ سنبھالے بہت خوش تھا۔
تبصرہ لکھیے