بوڑھا دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ وہ امرتسر کا ایک گاؤں تھا جس کے زیادہ باسی ہندو اور سکھ تھے، مسلمانوں کے چند گھر انے تھے، جن میں ہمارا گھرانہ بھی شامل تھا، چار بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا میں تھا، میری بڑی بہن جس کی عمر 24سال کے قریب تھی میرے چچا زاد کی منکوحہ تھی پھر میرا بھائی تھا، جو تھرڈ ایئر کا طالب علم تھا اور میرے باپ کی آنکھوں کا تارا!
میرا باپ پکا کانگریسی تھا اور گاؤں کا ایک بڑا زمیندار،میرا بھائی جو گھر میں سب سے زیادہ میرے باپ کا لاڈلا تھا، مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا سب سے سرگرم نوجوان تھا . قائد اعظم محمد علی جناحؒ اُن دنوں دو قومی نظریے کے پرچارک تھے، ان کی کہیں بھی تقریر یا جلسہ ہوتا میرا بھائی اُس میں ضرور شامل ہوتا. گھر میں چولہے کے گرد جب سب گھر والے جمع ہوتے تو میرے بھائی اور والد کے درمیاں مسلم لیگ اور کانگریس کے متضاد نظریات اکثر زیرِ بحث ہوتے. میرا باپ کہتا کہ وہ کلین شیو وکیل محمد علی اس ملک کا بٹوارا کرنا چاہتا ہے، لیکن برِصغیر پر ساڑھے سات سو برس تک مسلمان حکمران رہے،بابری مسجد اور لال قلعہ ہمارا ہے، ہم اپنی جائیدادیں چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے. میرا بھائی کہتا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں، ہندو مسلمان کے وجود کو کسی طور برداشت نہیں کرتا، ہمارا مذہب الگ،رہن سہن،تہذیب و تمدن الگ الگ،قائد اعظم محمد علی جناح ؒکروڑوں محکوم مسلمانوں کی جنگ لڑ رہے ہیں. انگریز یہاں سے جانے کے بعد ہمیں ہندوؤں کی غلامی میں دے جائےگا، مجھے نہیں یاد میرے باپ نے کبھی اس بحث کے دوران ڈانٹا ہو. میرے بھائی نے جب ان موضوعات کو مسلم لیگ کے جلسوں میں موضوع تقریر بنایا توہندو اور سکھ ہمارے مخالف ہوگئے۔
ایک روز گاؤں کے ہندوؤں اور سکھوں نے اکٹھ کیا اور اس اکٹھ میں میرے باپ کو بلایا، میرا باپ جب چوپال میں پہنچا تو ہندوؤں اور سکھوں کے تیور بدلے ہوئے تھے. گاؤں کے ایک سر پنچ رنجیت سنگھ نے میرے باپ پر برستے ہوئے کہا کہ کرم داد تمھارا بیٹابہت پر پرزے نکال رہا ہے. اس کی زبان کانگریس کے خلاف قینچی کی طرح چلنے لگی ہے، اسے لگام دو کرم داد. اُطاق میں بیٹھے ہندوؤں کا رویہ بھی جارحانہ تھا. میرا باپ واپس آیا تو اُس نے میرے بھائی سے کسی بات کا ذکر نہ کیا. عام انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ بھاری اکثریت سے جیتی. یہ 23مارچ 1940کو پاس ہونے والی قرارداد کا شاخسانہ تھا. 1947کا ماہ جولائی تھا جب پورے گاؤں نے ہمارا سوشل بائیکاٹ کر دیا. اگست میں علیحدہ وطن بنا تونواحی علاقوں سے سکھوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کی خبریں آنے لگیں. ایک روز میرے باپ نے میرے بڑے بھائی اور ماں سے کہاکہ میری بڑی بہن کواُس کے سسرال چھوڑ آؤ۔
دوسرا روز کسی قیامت سے کم نہ تھا. سورج نکلنے سے پہلے گاؤں کے ایک شخص نے ہمارا دروازہ کھٹکھٹا کر کہا کہ کرم داد ٹرپئی جانے والی شاہراہ پر تمہارے بیٹے اور بیوی کو قتل کردیا گیا ہے. میں اور میری ااٹھارہ سالہ بہن سکتے کی حالت میں تھے. میرے بڑے بھائی کے جسم کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے شاہراہ کے کنارے بکھرے پڑے تھے.قاتلوں نے ماں پر یہ احسان کیا کہ اُس کا سر کاٹ کر ایک درخت پر لٹکا دیا اور سرکٹا دھڑ درخت کے نیچے پڑا تھا، مگر میری بڑی بہن غائب تھی۔
میں نے اُس روز اپنے باپ کا پہاڑ حوصلہ دیکھا تھا. وہ میرے بھائی کے تمام اعضاء ایک گٹھڑی کی شکل میں باندھ کر گھر لائے ، اور سربریدہ میری ماں کی لاش بھی ہمارے صحن میں پڑی تھی. میرے باپ نے وہ گٹھڑی کھولی اور میرے بھائی کے اعضاء جوڑنے لگا .میرا باپ بھائی کے ایک ایک اعضاء کو اُٹھا کر نام لے رہا تھا. تمام اعضاء کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کے بعد وہ سفید کفن لائے اور میرے بھائی کی لاش کو لیکر کمرے میں اپنے آپ کو مقید کر لیا. دو تین گھنٹے کے بعد جب میرا باپ کمرے سے باہر نکلا تو اُس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں، اور میرے بھائی کی لاش بوری کی شکل میں سوئی دھاگے سے سلی ہوئی تھی۔
پھر چوتھے روز میری بہن کی برہنہ لاش ملی. جنگلی درندوں کے علاوہ انسانی درندوں نے ظلم کا ہر حربہ آزمایا تھا. گاؤں کے سر پنچوں نے ایک بار پھر میرے باپ کو بلا کر باور کرایاکہ کرم داد یہ سب تمھارے بیٹے کا کیا دھرا ہے. میرا باپ وہاں سے سر جھکا کر چلا تو راستے میں اُسے ہندو اور سکھ نوجوان آوازے کستے اور قہقہے لگاتے ملے. یہ وہی نوجوان تھے جنھوں نے ہمارا خاندان قتل کر ڈالا تھا. دوسرے روز میرے باپ نے مجھے کہا کہ تم تیاری کرو، پرسوں ہم دونوں یہاں سے کوچ کر جائیں گے. لیکن ابا جان باجی! وہ نہیں جائے گی، میں اُسے آج رات قتل کر دوں گا ،کسی درندے کی درندگی کا نشانہ بننے سے بہتر ہے وہ قتل ہو جائے . اُس روز میں اپنی بڑی بہن کا چہرہ دیکھتا رہا تھا، وہ ہاتھ جنہوں نے مجھے اُٹھا کر گود کھلایا تھا، اُنہیں کچھ خبر نہ تھی۔
آدھی رات تک میرا باپ چھری تیز کرتا رہا. مجھے یاد ہے میری بہن نے پوچھا تھا کہ ابا جان آپ یہ چھُری کیوں تیز کر رہے ہیں. انہوں نے جھوٹ بولتے ہوئے کہاتھا کہ بیٹی کہیں ہم پر رات کو دشمن حملہ آور نہ ہو جائیں، لیکن دوسرے روز میری بہن سلامت تھی. میرے باپ نے مجھے کہا تھا کہ میرا حوصلہ نہیں پڑا.پھر دوسری شب جب ہم تینوں کمرے میں سو رہے تھے تو میرے باپ نے چپکے سے مجھے ہلا کر اُٹھایا ، میری بہن کی چارپائی اور کمرے کی دوسری اشیاء پر مٹی کاتیل چھڑکا، مجھے باہر نکالنے کے بعد میرے باپ نے کمرے میں آگ لگا دی، اور باہر سے دروازے کو کنڈی لگا دی، میری معصوم بہن کی چیخیں کمرے میں گونج رہی تھیں کمرہ جل گیا تو اُس کی چیخیں بھی دم توڑ گئیں۔
اپنے گھروں پر حسرت بھری نظریں ڈالنے کے بعد ہم وہاں سے روانہ ہوئے. ایک روز ایک قافلے کے ہمراہ ہم نے پاک سر زمین پر قدم رکھے. یہاں آکر میرے باپ نے اپنی زمین کا کلیم داخل کرایا جس کی پیشیاں بھگتتے بھگتتے وہ مٹی میں جا سویا. پاکستان کے قیام کے ساتھ جہیز میں آنے والے روایتی جاگیرداروں نے جن کے بارے میں قائد اعظم ؒنے کہا تھا کہ یہ کھوٹے سکے ہیں، آر ایل ٹو میں ردوبدل کرکے ہمارا کلیم اپنے نام کرا لیا. تعلیم کے حصول کے بعد میں نے شادی کر لی. میرے دو بیٹے ہوئے جنھیں میں نے پڑھایا لکھایا، اعلیٰ تعلیم دلائی. میرا ایک بیٹا مجاہد بن گیا جبکہ دوسرا اپنی ڈگریاں اُٹھائے جس دفتر بھی پہنچا، اس کی ملازمت میں رکاوٹ دو بڑے ناسو ر رشوت اور سفارش بن گئے. ایک روز اُس نے بیروزگاری سے تنگ آکر ایک درخت کے ساتھ جھول کر خود کشی کر لی، جبکہ نائن الیون کے نام نہاد واقعہ کے بعد دوسرا بیٹا مجاہد سے دہشت گرد بن گیا. 23مارچ 1940کو میری آنکھوں نے جو خواب دیکھا کیا اُس کی تعبیر یہی تھی؟ کیا یہی وہ پاکستان تھا جس کےلیے جاگ جاگ کر جناح کی آنکھوں کے سوتے خشک ہو گئے؟میرے پاس بوڑھے کے کسی سوال کا بھی جواب نہیں تھا۔
تبصرہ لکھیے