ہوم << سانحہ کوئٹہ:مرض اور علاج-رشید احمد صدیقی

سانحہ کوئٹہ:مرض اور علاج-رشید احمد صدیقی

rasheed
جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا کے درمیان کوہ ہندوکش کا طویل پہاڑی سلسلہ ہے۔محمد بن قاسم اور برطانیہ کے سوا جتنے بھی حملہ آور ہندوستان آئے وہ افغانستان کے راستے آئے۔محمد بن قاسم بحیرہ عرب اور انگریز بحرِ ہند کے راستے آئے تھے۔چنانچہ حکمرانوں کی سطح پرہند افغان تعلقات قائم رہے ۔تاریخ کے ہندوستان کے جانشین کا مقام موجودہ دور میں بھارت ہی نے لے لیا ہے۔اور وسط ایشیا کا اس جانب کھلنے والا دروازہ افغانستان ہے۔تاریخی طور پر موجودہ پاکستان جانبین سے آنے جانے والے قافلوں کے لیے دم لینے کا خطہ buffer Zoneرہا۔۔۔۔گویا اسی تاریخی اور جغرافیائی تناظر میں 1919کی تحریک خلافت کے دوران جب یہاں سے لوگ ہجرت کرکے افغانستان گئے تو وہاں کی حکومت کے ایما پر ان کو اتنا تنگ کیا گیا کہ وہ در در کی ٹھوکریں کھا کرواپس آنے پر مجبور ہوئے۔جب پاکستان آزاد ہو اتوافغان حکومت نے عالمی سطح پر اس کو تسلیم کرانے میں رکاوٹیں ڈالیں۔1965کی جنگ میں بھارت خاص مطمئن تھا کہ پاکستان کی مشرقی سرحد پر بے چینی رہے گی۔اس وقت افغان حکومت کی ہمدردیاں اگرچہ بھارت کے ساتھ تھی لیکن عوامی دباؤ کے پیش نظر سرحد پر کوئی منفی کارکردگی دکھانے کی کوشش نہیں کی۔
دوسری طرف شمال کی سمت میں افغانستان کا پڑوسی سویت روس تھا۔جس کی پالیسی توسیع پسندی اور پڑوسیوں کو ہڑپ کرنے کی تھی۔افغانستان کو ہمیشہ سے وہ للچائی نظروں سے دیکھتا تھا ۔پاکستان کا جھکاؤ اپنے قیام ہی سے مغرب(امریکہ) کی جانب تھا۔ہم امریکی معاہدوں سیٹو اور سنٹو میں شامل رہے اب بھی ہمیں امریکہ کے نان نیٹو اتحادی کی حیثیت حاصل ہے۔اس کے برعکس بھارت اپنے حجم اور آبادی کے پیش نظر اپنے آپ کو تاریخی ہندوستان کا قائم مقام اور امریکہ روس و چین کے برابر کی قوت سمجھتا رہا۔اس کی ساری پالیسیاں اپنے آپ کو سپر پاؤر سمجھنے کی رہی۔ پاکستان کو وہ ہمیشہ بھوٹان اور نیپال کی طرح طفیلی ملک دیکھنے کا خواہش مندرہا۔چنانچہ افغانستان اور سویت یونین کے ساتھ اس کی پاکستان مخالف تثلیث رہی۔دنیا میں اس طرح کی مثالیں یمن،جرمنی،امریک و کنیڈا،شمالی و جنوبی کوریا اور کسی حد تک ایران و عراق کی بھی رہی۔جرمنی کے دونوں حصے تو بالآخر ایک ہو گئے۔یمن بھی ایک ہو گیا۔امریکہ اور کنیڈا میں مثالی دوستانہ تعلقات رہے جبکہ دو کوریاؤں کو چین و امریکہ نے ایک دوسرے کا دشمن بنائے رکھا ہے لیکن یہ سلسلہ ایک نہ ایک دن ختم ہو کر رہے گا۔ایران بالآکر عراق کو سنی سے شیعہ ریاست بنوانے میں کامیاب رہا۔
پاکستان اور بھارت جغرافیائی طور پر کنیڈا اور امریکہ کے طرز کے ممالک ہیں لیکن ان کے درمیان اتنا بڑا مذہبی بُع ہے اور پہلے ہی دن سے بھارت نے اسے طفیلیہ سمجھ رکھا ہے کہ دونوں کا ایک ہونا یا امریکہ و کنیڈا بننا تقریباً ناممکن ہے۔بھارت نے افغانستان کو ہمیشہ پاکستان کو طفیلی بنائے رکھنے کے لیے اپنے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے اور اس کی خارجہ پالسی میں دو عوامل بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ایک رقبہ و حجم کے لحاظ سے وہ امریکہ ،روس اور چین کے مابلے کا ملک ہے دوسرا افغانستان کو پاکستان کے خلاف ایک آلہ کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔دونوں پالیسیوں کی زندہ مثالیں دفاعی طور پر ایٹمی طاقت اور بین البراعظمی میزائلوں کی تیاری ہے اور خارجہ سطح پر افغانستان میں پاکستانی سرحد کے ساتھ متعدد فعال قونصل خانوں کا قیام ہے۔جنگ اور خانہ جنگی کے بعد افغانستان میں تعمیر نو کے منصوبوں پر تقریباً وہ مکمل قابض اور پاکستان مکمل طور پر باہر ہے۔
پڑوس میں بھارت جیسا ملک ہونے کی بنا پر پاکستان کے لیے ناگزیر تھا کہ برطانیہ کا طرز عمل اپنا تھا۔رقبہ اور حجم کے حوالے سے وہ خیبر پختونخوا کے برابر ملک ہے لیکن معاشی اور دفاعی لحاظ سے اس نے اپنے آپ کو دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں میں شامل رکھا ہے۔مطلب یہ ہے کہ ہمیں بھارت کے حجم اور آبادی سے مرعوب ہونے کے بجائے برطانیہ کا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے تھا۔خارجہ پالیسی کا تو ہمارا یہ حال ہے کہ نواز شریف پاکستان کے ووٹوں کے حساب سے تین مرتبہ طاقتور ترین وزیر اعظم بنے لیکن کسی بھی مرتبہ ان کے پاس اپنا وزیر خارجہ نہیں رہا۔ہر بار مستعار وزیر خارجہ سے کام چلایا۔اور جاری مدت میں توکمال ہو گیا اس وت تین مشیر ہیں۔ایک عمر کے لحاظ سے ہر طرح سے آرام کے مستحق سر تاج عزیز ہیں جو حالت استراحت میں دوڑ دھوپ والی وزارت کو کنٹرول کرنے کے ہر گز اہل نہیں ۔دوسرے ریٹائر سرکاری ملازم طار فاطمی ہیں جو فائیلیں دیکھ کر کام چلاتے ہیں اور گفتگو زبان کے بجائے سر ہلا کر کرتے ہیں۔تیسرے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے جنرل ناصر جنجوعہ ہیں۔تینوں مکمل وزیر کے بجائے معاون اور مشیر کی حیثیت سے نیم دلی کے ساتھ فرائض انجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل پیپلز پارٹی کے تین ادوار میں ایک وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ملے تو رائیمنڈ ڈیوس کے معاملہ پر وزارت چھوڑنا پڑ گیا ۔اس کا مطلب ہے کہ بھارت کے پڑوس میں برطانیہ کے انداز کی طاقت بننے کی مناسبت سے ہمیں وزیر خارجہ اور خارجہ پالسیی کی ضرورت تھی ۔ہم وہ بنانے سے قاصر رہے۔دفاعی لحاظ سے ایک غریب قوم پر ناقابل برداشت بوجھ ڈال کر ہم نے اپنے آپ کو کسی حد تک بھارت سے اتنا محفوظ کرلیا ہے کہ وہ ہمیں ہڑپ کرنے کی سوچ نہیں رکھ سکتا۔
ایسے میں افغانستا ن عالمی کھیل اور سازشوں کا مرکز رہا۔ڈیڑھ عشرہ سویت روس کی ایک لاکھ سے زائد افواج وہاں موجود رہیں اور بھاگ نکلنے پر مجبور ہوئی تو اتنا ہی عرصہ ا مریکہ نے یہ کھیل کھیلاا ور ابھی تک جاری ہے۔اس کا اثر پاکستان پر پڑھنا لازمی تھا۔80کے عشرہ کے ہمارے حکمرانوں نے اس عالمی کھیل میں پاکستان کی پشت پر پوری دنیا کھڑی کردی اور ایک سپر پاور کوواپس دھکیل میں کامیاب رہا۔لیکن بعد کے حکمران عالمی کھیل سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اس میں جھک گئی۔افغانستان کی فصل جب پک کر تیار ہو گئی تو ہمارے حکمرانوں نے اس کو اپنی ٹوکری میں ڈالنے کے بجائے پلیٹ میں پیش کرکے امریکہ کے حوالے کر دیا اور یمت کے طور اپے اقتدار کی طوالت لی۔سویت روس پسپا ہو کر آن جہانی ہو چکا تو بھارت کا محور بھی بدل کرامریکہ ہو گیا جبکہ پاکستان کے نصف صدی تک سویت یونین کے گیت گانے والوں نے بھی کپڑے بدل کر کمیونسٹ اور قوم پرست کے بجائے لیبرل اور سیکول کا لباس پہن لیا۔
یہی سیکولر اور لبرل عناصر جو ماضی میں کمیونسٹ اور قوم پرست کہلاتے تھے،اب عالمی سطح پر دہشت گردی کے لہر کو جہاد افغانستان ،طالبان اور داعش کے ساتھ جوڑتے ہیں۔بہ نظر غائر دیکھا جائے تو افغان جہاد کے طفیل دنیا سے کمیونزم کا خاتمہ ہوا ۔ان لبرلز کا قبلہ ماسکو سے واشنگٹن ہو گیا۔اور سویت یونین آنجہانی ہو گیا۔اس کا غم اورغصہ ان لوگوں کے دلوں سے مٹانا ممکن نہیں۔ان کو موقع ملاہے کہ جاری دہشت گردی کو اسی جہادکے کھاتے میں ڈالا جائے۔حالانکہ اس دوران بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی بھی قتل ہوئے۔سری لنکا میں تامل ناڈو کی خانہ جنگی عشروں تک چلی۔عراق کو امریکہ نے خطرناک ہتھیاروں کے نام پر نشانہ بنایا۔دنیا میں ایران کے بعد دوسری شیعہ ریاست عراق وجود میں آئی۔یمن کوبھی سنی سے شیعہ ریاست میں تبدیل ہونے کی کوشش ہوئی ۔لبنان کی بڑی طویل خانہ جنگی جاری رہی۔فلسطین کا مسئلہ اپنی جگہ پر جاری ہے۔غزہ میں مظالم کا نیا باب کھل گیا۔مصر میں جمہوریت پر شب خون ماراگیا۔ان سب کا افغان جہاد کے ساتھ کیا تعلق؟
افغانستان کی طالبان تحریک ایک خاص بین القوامی کیفیت کا ردعمل تھا لیکن پاکستان میں ایک غیر سنجیدہ طاقت کے طور پر اس کا ابھار خالصتاً مصنوعی حربہ تھا۔افغانستان میں جب نجیب حکومت کے بعد مجاہدین کی غیر مستحکم حکومت بنی،اس میں بھی پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی شامل تھی تو ایک بحرانی کیفیت پیدا ہوئی۔ایسے میں افغانستا ن کے اندر شمالی اتحاد کے نام پر ایک طاقت ابھری۔پوری دنیا کو معلوم ہے ۔اس اتحاد کی پشت پر موجودہ لبرلز اور سیکولرز کے مائی لارڈ بھارت، امریکہ اور ایران کا کتنا کردار تھا۔ان حالات میں پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک جنرل پرویز مشرف،جن کا تکیہ کلام تھا کہ میں کسی سے نہیں ڈرتا۔وہ برملا کہتے تھے کہ افغاستان میں شمالی اتحاد کے مقابلہ میں جنوبی اتحاد ضروری ہے۔ہماری خارجہ پالیسی کی اسی مصلحت کو دیکھیں اور تحریک طالبان کو دیکھیں۔
پاکستان میں تحریک طالبان لال مسجد سانحہ کی پیداوار ہیں ۔خودکش دھماکوں کا نہ رکنے والا سلسلہ اسی آپریشن کے بعد شروع ہوا۔ریکارڈ دیکھا جا سکتا ہے۔اس فقرہ پراعتراض نہیں ہونا چاہیے۔میرا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ خود کش دھماکوں کا جواز صحیح ہے۔لیکن آپ کے پڑوس میں اتنے خطرنا ک دو دشمن ہوں اور ان کو جنت کے ٹکٹ کے عوض خود کش بمبار جیسے ہتھیار مل رہے ہوں تو کیا وہ اس کو استعمال نہیں کریں گے۔تحریک طالبان کے وابستگان میں سے بڑی حد تک اسلام کے ساتھ اخلاص میں شک نہیں لیکن یہ ایک غیر سنجیدہ تحریک تھی۔اس کی اطلاعات سے وابستہ لوگ عام طور پر اطلاعات کی تلاش میں ہوتے تھے اور ہر ہونے والی تخریب کاری کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان میڈیا کو جاری کرتے تھے۔ہماری ریٹینگ کا شکار میڈیا اس قسم کی اطلاعات بڑے شوق سے آگے بڑھا تا تھا۔ حال ہی میں جب بونیر میں صوبائی مشیر سورن سنگھ کو قتل کیا گیا تو تحریک طالبان نے فوراً ذمہ داری قبول کرلی۔حالانکہ وہ سیاسی رقابت کا نتیجہ تھا اور طالبان سے اس کا ور دور تک بھی واسطہ نہ تھا۔اس میں ایک یاسا شخص گرفتار ہے جو پارٹی کی ترجیحی فہرست میں سورن سنگھ ہی کی جگہ ایم پی بن رہا ہے۔دوسری مثال کل بھوشن یادو کی گرفتاری ہے کہ کیسے بھارتی خفیہ ایجنسی بلوچستان کو نشانے پر لیے ہوئی ہے۔ہمارے ہاں سیکورٹی کی ذمہ داروں کے لیے بڑا آسان ہے کہ دھماکہ ہوا خود کش کا سر ملا۔سیکولر اور لبرل میڈیا نے ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کے کھاتے میں ڈال دیا اور نتیجہ صاف ظاہر ہے۔دہشت گردی اسلامی تحریکوں کی پیدا کر دہ ہے۔۔۔۔کراچی کب سے جل رہا ہے۔تحریک طالبان کی افغانستان کی ولادت1994 میں پیپلزپارٹی کی حکومت میں اس وقت کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر کے ہاں ہوئی۔اور کراچی80کے عشرہ کے اوائل سے جل رہا ہے۔اس کو آج کے لیبرل افغان جہاد کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں حالانکہ بھارت نے1971حملہ کرکے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنوایا تھا۔ہمارے سیکولر کافی ہٹ دھرم ہے ۔اس بات کو بھی نہیں مانیں گے لیکن ہمارے عبداللہ خان نیازی کمانڈر پاک فوج مشرقی پاکستان کی پلٹن گراؤن ڈھاکہ میں بھارتی جنرل اروڑہ کے سامنے ہتھیار ڈالنا کیا تھا۔ہم نے مشرقی پاکستان سے بھی سبق نہیں سیکھا اور بڑی آسانی سے دہشت گردی کو اسلا مسے جوڑ کر میڈیا ریٹنگ بڑھاتے ہیں۔
اب نیا راگ الاپنا شروع ہو گیا ہے کہ دہشت گردی میں چونکہ بھارتی ایجنسی را مولوث ہے تو اس کو روکنا فوج کی ذمہ داری۔دوسرے لفظوں میں فوج اپنی ڈیوٹی انجام نہیں دے رہی ہے۔۔۔۔جناب والا فوج اس ملک کی محافظ ہے۔پاکستان میں اس کا اثر بہت زیادہ ہے یہ بات صحیح ہے۔لیکن منتخب حکومت کے پاس وزیر خارجہ نہ ہونا۔افغان مسئلے کو وزارت داخلہ کے ذریعے چلانا، کراچی میں لسانیت کی بنیاد پر سیاست کرنا اور کراچی کو جلانے والوں سے اتحادی حکومتیں بنانا،خیبر پختونخوا میں اسلام کے نام پر مسلح تحریکیں اٹھوانا۔۔۔۔ا س سب کو خاموش تماشائی بن کر دیکھنے والی جمہوری حکومت کا کیا جواز ہے۔آج کل محمود خان اچکزئی،مولانا فضل الرحمان اور مونا محمد اخان شیرانی کے کچھ فقرے کافی مقبول ہیں۔لیکن ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ جب نصیراللہ خان بابر کے ہاں طالبان کی ولادت ہو رہی تھی تو نومولود کے کان میں اذان کس نے دی تھی۔اور اس وقت پارلمینٹ کی خارجہ کمیٹی کے چئیرمین کیا مولانا فضل الرحمان نہیں تھے۔اب را کا راستہ روکنے کو فوج کی ذمہ داری کہنے والے مولانا صاحب اس وقت پارلیمانی کمیٹی میں کیا کر رہے تھے۔اور آج جب وہ اور ان کے مولانا شیرانی میڈیا میں یہ بات کرتے ہیں تو نواز شریف سے ہر سنگین موقع پر خلوت میں ملاقاتوں کے موقع پر وہ یہ بات گوش گزار کیوں نہیں کرتے۔محمدو خان اچکزئی کی بات بھی سولہ آنے درست ۔۔۔۔تو اپنے بھائی محمد خان اچکزئی گورنر بلوچستان سے یہی بات نوازا شریف اور جنرل راحیل سے کیوں نہیں کہلواتے۔ہمارے میڈیا کی طرح اپنی ریٹنگ تو بڑھا دی لیکن نواز شریف کو پھنسوا دیا۔بات کافی لمبی ہو گئی ۔خلاصہ یہ ہے کہ مرض کو سمجھیں۔صحیح تشخیص کر لیں اور پائیدار دوا تجویز کر لیں۔شنید ہے کہ جنرل راحیل کو ملازمت میں تو سیع مل گئی ہے۔خدا کے لیے ان سے وزارت خارجہ کا بوجھ کم کر دیجیے۔اور تین مشیروں کو ہٹا کر جسمانی طور پر فعال واہل تر شخص کو مکمل وزیر خارجہ بنا لیں ۔یہ اس لیے بھی ضروری ہیں کہ دل کی خطرناک جراحت سے گزر کر آنے والے نواز شریف سے مزید یہ بڑا بوجھ سنبھالا نہ جائے گا۔ایسا وزیر خارجہ ڈھونڈ لیں جو افغان اور بھارتی موضوعات کو سر فہرست رکھے کر خارجہ پالیسی چلائیں بے شک جنرل راحیل کی رہنمائی ناگزیر ہیں اور وہ ہمارے لیے سر مایہ افتخار ہے۔

Comments

Click here to post a comment