ایک سوال ہے کہ جس شخص کے پاس ذوق مطالعہ ہو ،وہ کن کتابوں کا مطالعہ کرے؟
یہ سوال بظاہر جتنا سادہ ہے اتنا ہی اہم ہے۔ کیونکہ ایک شخص اپنے ذوق مطالعہ کی تسکین کےلیے اگر ہر کتاب پڑھنا شروع کرے، تو شاید اس کے ہاتھ کچھ نہ لگے، اور اس کے علم میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہو۔ اس کے لیے ایک منظم سوچ کے تحت اور وسیع المطالعہ اور تجربہ کار اساتذہ کی نگرانی ، اور ان کی ہدایات کی روشنی میں منزل کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے تاکہ کامیابی سے سرفراز ہوا جا سکے ۔
دنیا میں ہر موضوع پر ہزاروں کتابیں موجود ہیں، خصوصا اکیسویں صدی کے محیر العقول ایجادات و اختراعات کے بعد اس میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔پہلے زمانے میں کاغذ کی کمی تھی، بلکہ صدر اسلام میں مختلف پتوں ،لکڑی ،استخوان ،اور دیگر چیزوں پر لکھی جاتی تھی۔ لکھنے والے بھی انتہائی کم مگر تحریریں انتہائی عمدہ علمیت سے مرقع ہوتی تھیں۔ مگر فی زمانہ لکھنے والوں کی بھی بہتات، اشاعت بھی آسان، اور دنیا میں پھیلانا اس سے بھی سہل، مگر تحریریں سوقیانہ ،علمیت سے معرا، آداب سخن سے عاری ، بلکہ بہت ساری تحریریں باطل عقائد اور مبتدعات و خرافات پر مشتمل ہیں۔
بہترین و عمدہ کتابیں بھی ان گنت ہیں، انھیں حاصل کرنا بھی انتہائی آسان، آج آپ کے موبائل اور لیپ ٹاپ کے توسط سے ہر قسم کی کتابیں باآسانی حاصل کرسکتے ہیں۔لیکن سفر طویل ہے، راہ حیات چھوٹی ہے، اس قلیل عمر میں ہم کتنی کتابوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں؟معمولا ہم ساٹھ ستر سال کی عمر میں دنیائے فانی سے عالم بقا کی طرف رخت سفر باندھ لیتے ہیں۔ایسے میں ہر موضوع سے متعلق کچھ کتابوں سے آشنائی حاصل ہونا از حد ضروری ہے، جن کا مطالعہ آپ کو دوسری کتابوں سے مستغنی کردے یا کافی ہوجائے۔طفلان مکتب منتظر رہتے ہیں کہ کوئی رہنما ہاتھ تھام کر منزل مقصود تک پہنچا دے۔بعض اس بحر ذخار میں بدون رہبر و رہنما ڈبکی مارتے ہیں مگر موتی چننے میں ناکام رہتے ہیں، بلکہ بعض وقت گمراہ ہوجاتے ہیں، لہذا انتخاب کتب ازحد ضروری ہے. جب معیاری و عمدہ کتابوں کا ذکر ہو تو آنکھوں کے سامنے کتابوں اور مصنفین کی طویل فہرست آجاتی ہے۔جس میں یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے کہ کس کو کس پر ترجیح دی جائے۔
راقم کی خیال میں بہترین حل یہی ہے کہ عالم اسلام کی وسیع المطالعہ شخصیات،علماء و محقیقین کی علمی و مطالعاتی زندگی کا مطالعہ اور ان کے برسوں کی محنت شاقہ و تجربات سے استفادہ حاصل کیا جائے ، اور انھوں نے جن کتابوں کو معیاری قرار دیا ہے، ان سے استفادہ کیا جائے، تو امید واثق ہے کہ قلیل مدت میں کثیر مطالب سے مستفید ہوا جا سکتا ہے۔
بحثییت مسلمان قرآن کے آفاقی معانی و مفاہیم سے آشنائی اور سمجھ بوجھ از حدضروری ہے ۔اس کےلیے قرآن کی تفاسیر کا مطالعہ لازم ہے ۔اب تک قرآن کی جتنی بھی تفاسیر لکھی گئی ہیں ،سات اقسام سے باہر نہیں ہیں۔
1۔تفسیر لغوی :مثلا زجاج واحدی کی الوسیط،ابوحیان کی البحر المحیط،زمحشری کی الکشاف۔
2۔عقلی و فلسفی: مانند تفسیر کبیر ،فخرالدین رازی
3۔تفسیر مبتدعہ۔باطل و اہل بدعت کی تفاسیر
4۔تاریخی تفسیر:مانند ،خازن ،ثعلبی
5۔نقلی،تفسیر باالماثور:مانند در منثور،ابن جریر طبری،
6۔تفسیر باالرای
7۔فقہی تفاسیر
مجموعی طور پر دنیا میں لاتعداد تفاسیر لکھی گئی ہیں، خصوصا برصغیر پاک و ہند میں، سید مجتبی اختر رضوی نے اپنے تحقیقی مقالہ "جریان شناسی تفسیر علمی در شبہ قارہ ھند"میں 270کے قریب تفاسیر کا ذکر کیا ہے۔ اب اندازہ لگا لیجیے کہ جب صرف برصغیر میں اتنی زیادہ تفاسیر لکھی گئی ہو تو کتنی تفاسیر کا مطالعہ کیا جائے، کہ تمام تفاسیر کا مطالعہ کرنا تو اس قلیل عمر میں مشکل ہے۔عالم اسلام کے کچھ مقتدر علماء و ماہرین تعلیم کی آراء نمبر وار ذکر کرنا بہتر سمجھتا ہوں.
مفتی تقی عثمانی: جو ضخیم تفاسیر کا باقاعدہ مطالعہ نہیں کر پاتے، یہ کتابیں بڑی حد تک دوسری کتب کی کمی پوری کر دیتی ہیں
1-تفسیر ابن کثیر یہ حافظ ابن کثیر کی تصنیف ہے اور یہ چار جلدوں پر مشتمل ہے.
2۔تفسیر کبیر:فخرالدین رازی کی ہے،اس کا اصل نام "مفاتیج الغیب"ہے لیکن تفسیر کبیر کے نام سے زیادہ مشہور ہے.
3۔تفسیر ابی السعود:اس تفسیر کا پورا نام "ارشاد العقل السلیم الی المزایا القران الکریم"یہ محمد ابن محمد العمادی کی تصنیف ہے.
4۔تفسیر القرطبی:اس کا پورا نام "الجامع الاحکام القران "ہے. یہ اندلس کے مشہور اور محقق علامہ قرطبی کی تصنیف ہے۔
5۔روح المعانی :اس کا پورا نام "روح المعانی فی تفسیر القران العظیم والسبع المثانی"یہ بغداد کے مشہور عالم علامہ محمود آلوسی کی تصنیف ہے .
آخر میں مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں۔"یہ پانچ تفاسیر احقر کے ناچیز ذوق کے مطابق ایسی ہیں کہ اگر کوئی شخص صرف انھی پر اکتفا کر لے تو ان شاءاللہ مجموعی حیثیت سے ا سے دوسری تفاسیر سے بے نیاز کر دیں گی۔
(علوم القران ص 506از تقی عثمانی)(کتابیں اپنی آبا کی"ص 82 از مولانا انور الرحمن ہزاروی )
مولانا یوسف بنوری صاحب لکھتے ہیں،"چونکہ عمر عزیز کم ہے، آفات زمانہ زیادہ اور ہمارے دور میں ہمتیں پست،اور عزائم کمزور ہوگئے ہیں، اس لیے میں اپنے طالب علم بھائیوں کو چار ایسی تفاسیر کی نشان دہی کرتا ہوں کہ اگر کوئی شخص ان پر قناعت کرنا چاہیے تو ان شاءاللہ کافی ہوگی"
1۔تفسیر کثیر، 2۔تفسیر کبیر ،3۔روح المعانی ،4تفسیر ابی السعود
(علوم القران ص 507 از تقی عثمانی)(کتابیں اپنی آبا کی"ص نمبر82 از مولانا انورالرحمن ہزاروی)
پروفسیر خورشید احمد فرماتے ہیں :"قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے میں نے بہت سی تفاسیر جن میں کلاسیکل اور جدید دونوں شامل ہیں، پڑھی ہیں، تاہم مولانا مودودی کے بعد مولانا ابوالکلام آزاد کی تفسیر ترجمان القرآن نے متاثر کیا۔ تفہیم القرآن کے علاوہ مجھے جس تفسیر نے متاثر کیا وہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی ’’تدبر قرآن‘‘ ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی کی تفسیر بھی بڑے شوق سے پڑھی۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی ترجمان القرآن کی تین جلدوں میں سب سے اہم پہلی ہے جو سورہ فاتحہ کی تفسیر ہے، دوسری میں دیگر مباحث ہیں اور تیسری جلد کو غلام رسول مہر نے مرتب کیا ہے۔ کلاسیکل کتب کے جو ترجمے ہیں، ان میں تفسیر ابن کثیر کو میں نے بڑی اچھی طرح مطالعہ کیا۔ امام رازی کی تفسیرکبیر کو مکمل نہیں پڑھا، لیکن اس کے کچھ حصے ترجمے کی شکل میں پڑھے ہیں۔
(میری علمی و مطالعاتی زندگی، پروفیسر خورشید احمد"ماہنامہ الشریعہ جولائی 2019شمارہ 7مرتب عرفان بھٹی/عبدالروف)
مولانا امین احسن اصلاحی صاحب لکھتے ہیں،"تفسیر کی کتابوں میں سے تین تفسیر بالعموم میرے پیش نظر رہی ہیں۔
1۔تفسیر ابن جریر
2۔تفسیر کبیر از رازی
3۔تفسیر کشاف از زمحشری
یوں تو یہ تفسیریں میرے فکر و مطالعہ کی زندگی کے آغاز ہی سے مرے پیش نظر رہی ہیں۔
(تفسیر "تدبر القران" ص 32از مولانا امین احسن اصلاحی،)
مفتی زرولی خان صاحب فرماتے ہیں،"چند کتب ایسی ہیں جنھوں نے ان مضامین دوسری کتب کو طاق میں رکھوا دیا ہے یعنی اگر وہ کتاب پاس ہو تو دوسری کتاب کی ضرورت نہیں۔تفاسیر میں علامہ آلوسی بغدادی کی "روح المعانی "نے تمام تفاسیر کو طاق میں رکھوا دیا ہے"۔
اس کے علاوہ تفاسیر میں اشرف علی تھانوی کی "بیان القرآن" کو بہترین اردو تفاسیر میں شمار کرتے ہیں اور اہل علم و طلاب کو مطالعے کی تلقین کرتے ہیں۔ آگے زرولی صاحب فرماتے ہیں"طالب علمو !یاد رکھنا کہ یہ جو عبد الماجد دریاآبادی کی انگریزی تفسیر ہے "القران کے نام سے یہ غیر مذاہب سے بات کرنے والوں کےلیے بہت مفید ہے"کیونکہ اس تفسیر میں مسحیت کی طرف سے پیدہ کردہ شبہات کا جواب دیے ہیں۔ اس کے علاوہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی کی "تفسیر مظہری" اور طریقت کے لحاظ سے اسماعیل حقی البروسی کی تفسیر "روح البیان'' کو مطالعہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں.
(احسن البرہان فی اقوال شیخنا زرولی خان ص 47 مرتب ہمایوں مغل)
تبصرہ لکھیے