آج سے بہت پہلے اکبر نے کہا تھا
ہر ذرہ چمکتا ہے انوار الٰہی سے
ہر سانس یہ کہتی ہے ہم ہیں تو خدا بھی ہے
آج کا جدید ذہن یہ سوال اٹھا رہا ہے کہ کیا " خدا " انسانی ذہن کی تخلیق ہے وہ حیران ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایشیاء سے افریقہ تک شہر سے جنگل تک جزائر سے صحرا تک لوگ ہزاروں سال سے کسی اندیکھے خدا کے پجاری ہیں سوال یہ ہے کہ بیک وقت تمام تر انسانیت کو " خدا " کے تصور نے کیسے مسحور کردیا جدید ذہن کو اس سوال کا جواب درکار ہے کہ یہ خدا آخر آیا کہاں سے ہے اور وہ کون سا انسانی مفاد ہے کہ جسے خدا کے وجود کی ضرورت پیش آگئی اسے ایک ایسے جواب کی ضرورت ہے کہ جس سے وہ وجود خدا کے انکار کی راہ نکال سکے۔
کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ خدا کی تخلیق درصل سپر نیچرل کو بیان کرنے سے عاجزی کی وجہ سے تھی، یا پھر اس دور میں وہ امور کہ جن کی توجیہ سے انسانی ذہن قاصر تھا، انھیں انسان نے ایک خدا کے کھاتے میں ڈال دیا۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اپنے سے بڑی طاقتوں اور امور کی موجودگی نے یا آفات و بلیات کے نزول نے انسانی ذہن کو خدا سازی کی جانب راغب کیا۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ خدا تو دراصل کسی مذہبی پروہت کے ذہن نا رسا کی پیداوار تھا تاکہ وہ اس سے عام لوگوں کو ڈرا کر اپنا تسلط قائم رکھ سکے۔ وہ ایک سلسلہ قائم کرتے دکھائی دیتے ہیں، ان کے نزدیک پہلے انسان نے مختلف چھوٹے بڑے امور سے متعلق الگ الگ خدا بنائے کوئی بارش کا خدا تھا تو کوئی آگ کا خدا تھا کسی کو سمندر پر قدرت تھی تو کوئی رزق پر قابض تھا کسی کے ہاتھ میں موت و زندگی اور بیماریاں تھیں تو کوئی جنگوں کا خدا تھا کسی خدا کے ہاتھ میں پیدائش تھی تو کسی کے ہاتھ ٰمیں دولت تھی۔
خدا کے تصور پر بہت سے ادوار گزرے. اس نے بہت سے مراحل طے کیے اور بالآخر خدا مذاہب ابراہیمی تک پہنچ کر ریفائن ہوتا چلا گیا. معروف مستشرقہ کیرن آرمسٹرانگ اپنی کتاب " A History of God " میں اس کی تفصیل بیان کرتی ہے اس کا آخری باب " Death of God " کے نام سے ہے کہ جس میں پوسٹ ماڈرن دور میں خدا کی ضرورت ختم ہو جانے کے حوالے سے بحث کی گئی ہے۔
کسی نے خدا کو تین کہا، کسی نے خدا کا بیٹا تسلیم کیا، کسی نے کہا کہ خدا ہی سب کچھ ہے، بلکہ یہ کائنات دراصل وجود خدا کا ہی تسلسل اور پھیلاؤ ہے، کسی نے کہا کہ خدا ایک ظاہری وجود کے ساتھ عرش پر متمکن ہے، کوئی خدا کے ایک ہونے اور سب سے الگ ہونے کا قائل ہوا، کوئی تثلیثی ہوا تو کوئی تجسیمی ہوا، کوئی ہمہ اوست کا قائل ہوا تو کوئی ہمہ است اوست کا قائل ہوا۔
دور جدید میں کہ جہاں ایک ایسا طبقہ بھی موجود ہے کہ جو کسی خدا کے موجود ہونے کا انکاری نہیں ہے. اس کے نزدیک کوئی " omnipotent " کوئی " one above all " تو موجود ہے، اب وہ خود نیچر بھی ہو سکتی ہے، وہ میٹر بھی ہو سکتا ہے، مگر اس کا ہونا ممکن ضرور ہے. مگر ایک طبقہ وہ بھی ہے کہ جس کے نزدیک اب خدا کے تصور سے پیچھا چھڑا لینا ہی بہتر ہے، کیونکہ اب ہمیں خدا کے وجود کی کوئی ضرورت نہیں رہی ہے۔
اس کے مقابلے میں کچھ لوگوں کا یہ بھی تسلیم کرنا ہے کہ تصور خدا انسانیت کےلیے اب بھی مفید ہو سکتا ہے اور اس تصور سے ہم ایک ایسا معاشرہ یا ایسی دنیا تخلیق کرنے کا کام لے سکتے ہیں کہ جو انسانیت کےلیے مفید ہو ، ایک عالمی خدا اور ایک عالمی مذہب انسان کو باہم متحد رکھنے میں معاون و مددگار ہو سکتے ہیں۔
ایک جانب ایک جہاں ایک الحادی ذہن یہ ترتیب اور تسلسل قائم کرتا دکھائی دیتا ہے کہ تصور خدا ایک سادہ ترین عقیدے سے ابھر کر مدون اور معروف مذاہب کی شکل اختیار کرتا چلا گیا تو دوسری جانب مذہبی طبقے کا یہ ماننا ہے کہ خدا نے تو ایک صاف ستھرا جیتا جاگتا مذہب اتارا تھا، انسان اس مٰیں تبدیلیاں کرتا چلا گیا اور اسی وجہ سے مذہب کی مختلف شکلیں اور خدا کے مختلف تصورات ابھر کر سامنے آئے۔
قرآن کریم اسی جانب اشارہ کرتا ہے:
شَرَعَ لَــکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّ الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَ مَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرَاھِیْمَ وَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ کَبُرَ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ مَا تَدْعُوْھُمْ اِلَیْہِ (سورہ الشوری:۱۳)
اس نے تمہارے لئے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح علیہ السلام کو دیا تھا اور جسے (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم اور موسیٰ اور کو دے چکے ہیں اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اس میں متفرق نہ ہو جاؤ۔ یہی بات ان مشرکین کو سخت ناگوار ہوئی ہے۔
اب اگر ان دو بنیادی عنوانات کو سامنے رکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مذہب کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے کہ جتنی انسانی تاریخ ہے چاہے مذہب انسانی ذہن کی تخلیق ہو اور ارتقائی مراحل سے گزر کر ایک مخصوص شکل تک پہنچا ہو یا پھر مذہب آسمان سے نازل کردہ ہو اور انسان نے اسکی شکلیں تبدیل کی ہوں مگر مذہب ایک قدیم معاملہ ہے۔
اب ہم ایک سوال اٹھاتے ہیں انسان نے تصور خدا کو تخلیق ہی کیوں کیا اس کے ذہن میں یہ خیال ہی کیسے آیا کہ کسی نہ کسی درجے میں اسکے مسائل کا حل کسی خدا کے پاس ہی ہو سکتا ہے یا پھر وہ اندیکھی اور انجانی چیزوں کی کھوج مٰیں کیوں نہ لگا اور لگا بھی تو وہ تصور خدا سے چھٹکارا حاصل کیوں نہ کر سکا ہم ان عقل پسندوں سے سوال کرتے ہیں کہ صاحبو ! ہمیں یہ بتلائیے کہ انسان ہزاروں سال بعد بھی خدا کے حوالے سے اس جگہ تک ہی آیا ہے کہ وہ اسکے ہونے پر صرف ایک سوال اٹھا سکے اور بس انسانی ذہن آج تک تصور خدا کو کیسے اور کیونکر زندہ رکھے ہوئے ہے
نیویارک سے تعلق رکھنے والی سائنسی علوم کی ماہر صحافی ریچل نیور 19 دسمبر 2014ء کو اپنے پبلش ہونے والے مقالے میں سوال اٹھاتی ہیں Will religion ever disappear کیا مذہب کبھی معدوم ہو سکتا ہے؟ اور اس کے بعد اس پر تجزیہ کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتی ہیں
says Ara Norenzayan, a social psychologist at the University of British Columbia in Vancouver, Canada, and author of Big Gods. Existential security is more fallible than it seems. In a moment, everything can change: a drunk driver can kill a loved one; a tornado can destroy a town; a doctor can issue a terminal diagnosis. As climate change wreaks havoc on the world in coming years and natural resources potentially grow scarce, then suffering and hardship could fuel religiosity. “People want to escape suffering, but if they can’t get out of it, they want to find meaning,” Norenzayan says. “For some reason, religion seems to give meaning to suffering – much more so than any secular ideal or belief that we know of.”
ڈاکٹر ارا نورین زایان {Dr Ara Norenzayan} اپنے مقالے {Big Gods} میں ایک نظریہ پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جب بھی ہم یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ مذہب اپنی بنیادوں سے ختم ہو رہا ہے، کہیں پر ہونے والا کوئی حادثہ، کوئی سماوی آفت، کوئی تکلیف، کوئی مصیبت، کوئی پریشانی، کوئی بیماری ظاہر ہو کر انسانی رویے اور مزاج کو تبدیل کر دیتی ہے۔ یہ انتہائی عجیب بات ہے کہ کسی پوشیدہ وجہ کی بنا پر ایسی مشکلات میں کہ جن کا کوئی مادی حل انسانوں کے پاس موجود نہ ہو ، اور انھیں اس میں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ملتا ہو، وہ مذہب کی طرف راغب ہونا شروع کر دیتے ہیں نہ کہ وہ منطقیت اور مادیت کی جانب راغب ہوں۔ ان کی آخری پناہ روحانیت ہی ہوا کرتی ہے۔
ہم پھر اپنے اس بنیادی سوال کی طرف جاتے ہیں کہ وہ کون سی ایسی بنیادی وجہ یا ابتدائی محرک تھا کہ جس نے انسان کو تصور خدا کی تخلیق پر مجبور کیا. اب اگر انسانی نفسیات اور اس کے مزاج کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ امور کائنات میں جستجو کرتا ہے، وہ کھوج کرتا ہے، اس کی طبیعت میں تجسس ہے، وہ چیزوں کی تلاش میں لگا رہتا ہے. انسانی لباس، اس کے رہن سہن کے انداز، اس کی تعمیرات، اس کے ذوق و شوق میں تو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں، مگر اس کے احساسات اور کیفیات کے علاہ جو چیز مستقل رہی ہے وہ کسی مذہب، کسی عقیدے اور کسی تصور خدا کا وجود ہے۔
" اگر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان کھوج کر سکتا ہے، کرتا ہے اور کرتے رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے، تو پھر اس بات کے ماننے میں کیا امر مانع ہے کہ اس نے خدا کو بھی کھوج لیا ."
اگر ملحد و متشکک کسی مذہب، کسی وحی، کسی کشف، کسی الہام کو تسلیم نہیں کرتے تو اس امر کو تسلیم کرنے میں کیا قباحت ہے کہ انسان کے خدا کو ڈھونڈ لینے کو تسلیم کیا جائے. جب انسان دوسرے کائناتی امور کو سادہ ترین مثالوں سے دریافت کر سکتا ہے، جب نیوٹن لاز آف فزکس سیب کے گرنے سے پا لیتا ہے تو اس سے پہلے کا انسان " خدا " کو کیوں نہیں پا سکتا ؟
پھر ہماری بحث یہیں ختم نہیں ہو جاتی. ہم اور آگے بڑھتے ہیں کیا تصور خدا انسان کی فطرت میں ودیعت کردہ ہے؟ کیا یہ اسی طرح ہے کہ جیسے خوشی اور غم ، محبت و نفرت ، سچ و جھوٹ ، رشک و حسد ، بہادری و خوف ، قربانی و خود غرضی ۔۔۔؟
سوال تو یہ ہے کہ انسان نے کسی ان دیکھے خدا کی جانب سے بھیجے جانے والوں کی بات ہی کیوں سنی؟ وہ کیا وجہ ہوئی کہ وہ تصور خدا کی اہمیت و افادیت کا قائل ہوا؟ ایسا کیا ہوا کہ اس نے تصور خدا کو تخلیق کیا یا پھر وہ خدا کی کھوج میں نکل کھڑا ہوا ؟ وہ کون سی قوت تھی کہ جو اسے خدا کی جانب کھینچتی رہی؟ وہ کون سی آواز تھی کہ جس کی جانب اس کے قدم رواں دواں رہے؟ ایسا کیا ہوا کہ انسان ماضی کے مزاروں سے ہوتا ہوا، حال کے بازاروں میں سفر کرتا ہوا ،مستقبل کی ان دیکھی زمینوں پر قدم رکھتا چلا گیا، مگر اس کے ساتھ ایک خدا بھی رہا؟ کیا یہ فطرت کی آواز نہیں تھی؟ کیا یہ اس کے اندر سے نکلی ہوئی کیفیات و احساسات کے اشارے نہیں تھے کہ جنھوں نے اسے ایک ان دیکھے خدا کو تخلیق کرنے، یا اس کی جستجو کرنے، یا اس کی طرف سے اس کی جانب دعوت لے کر آنے والوں کی بات ماننے پر مجبور کردیا۔
بقول اکبر الہٰ بادی
ہر ذرہ چمکتا ہے انوار الٰہی سے
ہر سانس یہ کہتی ہے ہم ہیں تو خدا بھی ہے
تبصرہ لکھیے