ہوم << دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو -محمد وقار بھٹی

دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو -محمد وقار بھٹی

جب ہماری نسل نے ہوش سنبھالا تو ذرائع ابلاغ محض چند اخبارات، رسائل اور پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) تک محدود تھے۔ پی ٹی وی کے ڈرامے اپنی جگہ، مگر رات نو بجے کا خبرنامہ بھی کسی ڈرامے سے کم نہ تھا—ملک کی سیاست ہو یا عالمی حالات، یہی ایک کھڑکی تھی جس سے دنیا کو دیکھا جاتا تھا۔

مجھے آج بھی یاد ہے کہ پی ٹی وی کے خبرنامے میں روزانہ ایک مخصوص خبر تفصیل سے نشر ہوتی تھی: افغان مجاہدین کی روس اور کابل کی کٹھ پتلی حکومت کے خلاف جنگی کارروائیاں۔ شلوار قمیض اور واسکٹ میں ملبوس، پگڑیوں سے سر بندھے، کلاشنکوف تھامے اور راکٹ لانچر کندھوں پر اٹھائے یہ افغان مجاہدین 80 کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف برسرِپیکار تھے۔ اس وقت کا روس، یا یوں کہیے کہ سوویت یونین، پاکستان سمیت پوری دنیا میں نفرت کی علامت سمجھا جاتا تھا— سوائے ان چند پاکستانی کامریڈز کے، جو سرخ پرچم سے وفاداری نبھاتے تھے۔

پاکستان میں دائیں بازو کے اخبارات اور سرکاری میڈیا کے مطابق دنیا کا سب سے بڑا "شیطانِ بزرگ" امریکہ نہیں بلکہ روس تھا۔ ریاستی پالیسی کے تحت سینکڑوں نہیں، بلکہ ہزاروں پاکستانی نوجوان سوویت یونین کے خلاف جہاد میں شرکت کے لیے افغانستان گئے، اور کئی شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔

یہ وہ وقت تھا جب روسی اور افغان جنگی طیارے پاکستانی حدود میں دراندازی کرتے اور "صوبہ سرحد" کے کئی علاقوں پر بمباری کی جاتی۔ جواب میں امریکہ نے پاکستان کو ایف-16 لڑاکا طیارے فراہم کیے، جن کے ذریعے کئی روسی بمبار طیارے مار گرائے گئے۔ یہاں تک کہ کچھ روسی طیارے اور ہیلی کاپٹر زبردستی پاکستانی فضائی اڈوں پر اتارے گئے، جن میں سے چند آج بھی کراچی کے پی اے ایف میوزیم میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

یہ وہی زمانہ تھا جب امریکہ نے پاکستان کو شولڈر فائرڈ سرفیس ٹو ایئر اسٹنگر میزائل فراہم کیے— ایک ایسا ہتھیار جس نے افغان فضاؤں کو روسی طیاروں کے لیے "نو گو ایریا" بنا دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے، درجنوں روسی طیارے اور ہیلی کاپٹر فضا میں ہی تباہ کر دیے گئے۔

اس دوران ہمیں یہ بھی باور کرایا جاتا تھا کہ روسی پائلٹ امریکی اسٹنگر میزائلوں سے بچنے کے لیے اپنے کاک پٹ میں قرآن شریف کے نسخے رکھتے ہیں، اور "قرآن کی برکت" سے وہ افغان مجاہدین کے قہر سے محفوظ رہتے ہیں۔

یہی وہ وقت تھا جب خوست کی فتح پر کراچی میں جشن منایا گیا، اور جب جلال آباد کی جنگ میں مجاہدین کی ناکامی پر پورے عالمِ اسلام میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔

گردشِ ایام نے کروٹ لی۔

سوویت افواج جنیوا معاہدے کے تحت افغانستان سے نکلیں، مگر اس کے بعد افغان مجاہدین آپس میں لڑ پڑے۔ طالبان ابھرے۔ امریکہ، جو کبھی مجاہدین کا سب سے بڑا سرپرست تھا، انہی کا سب سے بڑا دشمن ٹھہرا۔

لیکن اصل کہانی یہ نہیں۔

سوویت یونین جو 1991 میں تحلیل ہو کر روس تک محدود ہو گیا تھا، اب عالمِ اسلام میں ایک نئی امید کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ چچنیا میں مسلمانوں کے خلاف جنگیں لڑنے اور قتلِ عام کرنے والا یہی روس، اب یوکرین میں امریکہ اور پورے مغرب کے خلاف صف آراء ہے— اور دنیا حیران ہے کہ وہی سابقہ چیچن مجاہدین، جو کبھی روس کے خلاف لڑے، آج روس کے شانہ بشانہ یوکرین میں جنگ لڑ رہے ہیں، اور کئی محاذوں پر یوکرینی فوج کو شدید نقصان پہنچا چکے ہیں۔

محو حیرت ہوں کہ یہ وہی روس ہے جسے کبھی "شیطانِ بزرگ" سمجھا جاتا تھا اور اب یہی مسلمانان اسلام کی امیدوں کا مرکز ہے۔

ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو