ہوم << کیا دینی مدارس اور اداروں کو زکوۃ دینا جائز ہے؟ حافظ محمد زبیر

کیا دینی مدارس اور اداروں کو زکوۃ دینا جائز ہے؟ حافظ محمد زبیر

دوست کا سوال ہے کہ دینی مدارس کو زکوۃ دینا کیسا ہے؟ کیا دینی مدارس کو زکوۃ لگتی ہے؟ جواب: سورۃ التوبہ کی آیت 60 میں زکوۃ کے آٹھ مصارف بیان کیے گئے ہیں یعنی آٹھ جگہ پر زکوۃ لگ سکتی ہے یا لگانی چاہیے: إِنَّمَا ٱلصَّدَقَٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَٱلْمَسَٰكِينِ وَٱلْعَٰمِلِينَ عَلَيْهَا وَٱلْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِى ٱلرِّقَابِ وَٱلْغَٰرِمِينَ وَفِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ ٱللَّهِ ۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ۔ پہلے چار مصارف کے ساتھ "لام" کا حرف استعمال ہوا ہے۔

جمہور فقہاء (majority) میں سے حنفیہ، شافعیہ اور حنابلہ کا کہنا ہے کہ یہ لام، لام تملیک کا ہے یعنی زکوۃ ادا کرنے والا جس کو زکوۃ دے رہا ہے، اس کو زکوۃ کی رقم کا مالک بنائے گا تو ہی زکوۃ ادا ہو گی۔ اور تملیک کا حکم یعنی زکوۃ کی رقم کا مالک بنانے کا حکم آٹھ کے آٹھ مصارف میں لاگو ہو گا۔ آسان الفاظ میں آپ نے غریب اور مسکین کو زکوۃ کی رقم ادا کر دینی ہے تو ہی زکوۃ ادا ہو گی۔ یہ نہیں کہ آپ ادارے کے متولی اور منتظم کی حیثیت سے خود ہی زکوۃ کی رقم کے بارے فیصلے کرتے پھریں کہ کیسے اور کہاں کہاں لگانی ہے۔ پس کسی مدرسے کے منتظم اور متولی کو زکوۃ نہیں دی جا سکتی کہ وہ اپنے مدرسہ میں لگا سکے بلکہ اس مدرسہ میں پڑھنے والے غریب طلباء کو براہ راست دی جا سکتی ہے۔

مالکیہ کی ایک جماعت اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ پہلے چار مصارف یعنی فقراء، مساکین، عاملین زکوۃ اور تالیف قلب کی مد میں لام تملیک ہے لہذا تملیک ضروری ہے کہ ان چاروں کو زکوۃ کی رقم کا مالک بنایا جائے جبکہ بقیہ چار مصارف (یا ان میں سے پہلے تین) یعنی گردن چھڑانے، مقروض، فی سبیل اللہ اور مسافر کی مد میں تملیک ضروری نہیں ہے کیونکہ یہاں حرف "فی" استعمال ہوا ہے جو کہ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ اس مد میں خرچ کرنا چاہیے نہ کہ فرد کو زکوۃ دینا اصلاً مطلوب ہے۔ شیخ ابو زہرہ، استاذ مصطفی الزرقا اور مولانا مودودی کی رائے بھی یہی ہے۔

تیسری رائے امام شوکانی اور بعض متاخرین کی ہے کہ آٹھوں مقامات پر لام، لام تملیک کا نہیں بلکہ یہ لام، لام استحقاق واختصاص کا ہے یعنی زکوۃ ان آٹھ قسم کے لوگوں کا حق ہے یا ان آٹھ مدات کے ساتھ خاص ہے۔ ہمارا رجحان اسی رائے کی طرف ہے۔

دوسری بحث "فی سبیل اللہ" کے مفہوم میں پیدا ہوئی۔ جمہور فقہاء کا کہنا یہ ہے کہ اس سے مراد جے-ہاد فی سبیل اللہ ہے۔ بعض فقہاء نے حج اور عمرے کو بھی فی سبیل اللہ کے مفہوم میں شامل کیا ہے لہذا ان کے نزدیک کسی شخص کو زکوۃ کی رقم سے حج اور عمرہ کروایا جا سکتا ہے۔ بعض اہل علم کے نزدیک فی سبیل اللہ میں ہر کار خیر اور نیکی کا کام شامل ہے جو تقرب الی اللہ کی نیت سے کیا جائے۔ مصری علماء کی ایک جماعت نے مصالح عامہ (public interests) کو فی سبیل اللہ میں شامل کیا ہے لہذا ان کے نزدیک جے-ہاد کے علاوہ مساجد، ہسپتالوں، یتیم خانوں اور پلوں کی تعمیر کے لیے بھی زکوۃ کی رقم استعمال کی جا سکتی ہے۔

تیسری رائے یہ ہے کہ فی سبیل اللہ سے مراد تو جے-ہاد ہی ہے لیکن جے-ہاد کا معنی محض جنگ نہیں بلکہ یہ اپنے وسیع تر مفہوم میں مراد ہے کہ جس میں جان، مال اور زبان سے جے-ہاد کرنا بھی شامل ہے۔ یہ شیخ القرضاوی اور شیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ کی رائے بھی ہے۔ ہمارا رجحان اسی رائے کی طرف ہے کہ آج کل نظریاتی جنگ، غزو فکری (intellectual war)، سوشل میڈیا وار اور سائبر وار کا دور ہے۔ اس جنگ کے آلات جنگ چینلز، کیمرے، کمپیوٹرز، سافٹ ویئرز، ویب سائیٹس اور ایپس وغیرہ ہیں۔

یہ سب فقہی آراء اور ان کے دلائل شرح وبسط کے ساتھ کتب فقہ وفتاوی میں موجود ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے ان کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں دینی مدارس کو زکوۃ دینے کے حوالے سے ہماری رائے یہ ہے کہ اگر تو مدرسہ میں صرف فقراء اور مساکین طلباء موجود ہوں اور ان کے کھانے پینے اور تعلیم وتعلم کے انتظام پر زکوۃ کی رقم خرچ کر دی جائے تو زکوۃ ادا ہو جاتی ہے، تملیک کی ضرورت نہیں ہے۔ عام طور مدارس تملیک کی شرط پر عمل کرنے کے لیے وکیل بنانے کا حیلہ کرتے ہیں جو کہ ایک تکلف معلوم ہوتا ہے۔ باقی زکوۃ سب لے رہے ہیں۔

جہاں تک ہندوستان اور یورپ وغیرہ کا معاملہ ہے کہ جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں تو وہاں مسجد اور مدرسہ کی تعمیر، ائمہ مساجد اور مدارس کے اساتذہ کی تنخواہ کی مد میں زکوۃ کی رقم خرچ کی جا سکتی ہے کہ یہ دین کی حفاظت اور فروغ کی بنیادی ضرورت ہے۔ البتہ ادارے کے منتظمین اور مہتممین کا زکوۃ کی رقم سے بیرون ممالک کے دورے کرنا، مہنگی گاڑیاں خریدنا، پر تعیش دعوتیں اڑانا اور عوامی جلسے جلوس کرنا کسی صورت بھی درست نہیں اور ظلم ہے۔ اس سے زکوۃ ادا نہ ہو گی۔

دوسرا وہ دعوتی سینٹرز اور اسلامی تحریکیں جو غلبہ اسلام کی جدوجہد میں مصروف ہوں یعنی جن کا ڈیکلیئرڈ بیانیہ دین اسلام کو غالب کرنے کا ہو تو انہیں فی سبیل اللہ کی مد میں زکوۃ دی جا سکتی ہے۔ مسلکی منافرت (sectarianism) پھیلانے والے مدارس، دعوتی سینٹرز یا دینی جماعتوں کو زکوۃ دینا درست نہیں ہے۔ یہ اپنی زکوۃ کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔

Comments

Avatar photo

حافظ محمد زبیر

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر نے پنجاب یونیورسٹی سے علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ کامساٹس میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ مجلس تحقیق اسلامی قرآن اکیڈمی لاہور کے ریسرچ فیلو ہیں۔ 4 کتب کے مصنف ہیں۔ کئی جرائد میں 150 سے زائد تحقیقی، فکری اور اصلاحی مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وسیع حلقہ رکھتے ہیں۔ دینی امور پر رہنمائی کرتے ہیں۔

Click here to post a comment